آپریشن وعدۂ صادق؛ ایران کے حملے میں 4 اسرائیلی ہلاک، 80 زخمی، درجنوں عمارتیں منہدم
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
ایران نے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اسرائیل پر 6 بار ڈرونز اور بیلسٹک میزائلوں کی بارش برسا دی۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ایران کے ان بیلسٹک میزائل حملوں سے پورے اسرائیل میں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہو گئی۔
اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سمیت رمات گان اور ریشون لتسیون جیسے بڑے شہروں میں ایرانی میزائل گرنے سے بڑے دھماکے سنے گئے اور کئی عمارتیں تباہ ہوگئیں۔
تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں درجنوں شہری اب تک دبے ہوئے ہیں جنھیں نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق ملک کے بیشتر علاقوں میں سائرن بج رہے ہیں اور شہری اپنی جانیں بچانے کے لیے زیر زمین بنکرز کی جانب بھاگ رہے ہیں۔
ایران کے ان تازہ حملوں میں کم از کم 4 اسرائیلی شہری ہلاک اور تقریباً 80 افراد زخمی ہو گئے۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
دوسری جانب ایرانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے 200 میزائل داغے جنھیں چار لہروں میں فائر کیا گیا تھا۔
ادھر اسرائیلی میڈیا نے یہ دعویٰ کیا کہ ان میں زیادہ تر میزائلوں کو اسرائیلی ایئر ڈیفنس سسٹمز نے فضا میں ہی تباہ کر دیا مگر کچھ اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
اسرائیلی وزیراعظم آفس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران نے شہری علاقوں پر میزائل داغ کر ناقابلِ معافی جرم کیا ہے۔ اب ہمارا اگلا ہدف ان کے توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے مراکز ہو سکتے ہیں۔
جس پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ صیہونی حکومت اپنے جرم کے انجام سے نہیں بچ سکے گی۔ اس بار ایران کا جواب آدھا یا ادھورا نہیں ہوگا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایران کے
پڑھیں:
دوحا میں اسرائیلی حملے سے 50 منٹ قبل ٹرمپ باخبر تھے، امریکی میڈیا کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی میڈیا کی تازہ رپورٹ نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی میزائل حملے کی منصوبہ بندی اور اطلاع محض 50 منٹ پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچ چکی تھی، لیکن صدر نے اس موقع پر کوئی عملی قدم اٹھانے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔
اس انکشاف نے نہ صرف امریکا کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ اس بات کو مزید اجاگر کیا ہے کہ واشنگٹن کے ناراضی بھرے بیانات محض دنیا کو دکھانے کے لیے تھے، حقیقت میں حملے کو روکنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے 3 اعلیٰ اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا کہ تل ابیب کی قیادت نے حماس رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جانے والے حملے کی خبر براہِ راست صدر ٹرمپ تک پہنچائی تھی۔ پہلے یہ اطلاع سیاسی سطح پر صدر کو دی گئی اور پھر فوجی چینلز کے ذریعے تفصیلات شیئر کی گئیں۔
اسرائیلی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سخت مخالفت کرتا تو اسرائیل دوحا پر حملے کا فیصلہ واپس بھی لے سکتا تھا، لیکن چونکہ واشنگٹن نے کوئی مزاحمت نہ کی، اس لیے اسرائیلی قیادت نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا۔
یہ بھی بتایا گیا کہ امریکا نے دنیا کے سامنے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ حملے پر خوش نہیں تھا۔ وائٹ ہاؤس نے بعد ازاں یہ موقف اختیار کیا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں داغے جا چکے تھے تب اطلاع موصول ہوئی، اس لیے صدر ٹرمپ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا، لیکن میڈیا کے انکشافات نے اس وضاحت کو مشکوک بنا دیا ہے، کیونکہ اگر صدر واقعی 50 منٹ پہلے ہی آگاہ ہو چکے تھے تو ان کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے کافی وقت موجود تھا۔
یاد رہے کہ 9 ستمبر کو دوحا میں ہونے والے میزائل حملے میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس پر عالمی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔
عرب ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس حملے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور اسرائیل کو قابض قوت قرار دیتے ہوئے امریکی کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ فلسطینی عوام پہلے ہی اسرائیلی جارحیت کا شکار ہیں، ایسے میں قطر جیسے ملک پر حملے نے خطے کو مزید غیر مستحکم کرنے کا تاثر پیدا کیا ہے۔