Express News:
2025-06-15@13:18:04 GMT

پلاسٹک کی تہذیب : ترقی کا چمکتا چہرہ یا تباہی کا سایہ؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

پلاسٹک کی کہانی بیسویں صدی کے صنعتی انقلاب سے جڑی ہے، جب اسے سہولت، سستی اور جدیدیت کی علامت سمجھا گیا۔ یہ ہلکا پھلکا اور دیرپا مادہ روزمرہ کی زندگی میں اس قدر سرایت کر گیا کہ اب اسے ہماری تہذیب کا ایک اہم جزو کہا جا سکتا ہے، لیکن یہی خصوصیات، جو کبھی ترقی کی علامت تھیں، آج زمین اور انسانیت کے لیے شدید خطرے کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 400 ملین ٹن پلاسٹک تیار ہوتا ہے، جس کا بڑا حصہ ری سائیکل نہیں ہوتا۔ اس میں سے تقریباً 50 فیصد پلاسٹک صرف ایک بار استعمال کے لیے بنایا جاتا ہے، اور صرف 10 فیصد سے بھی کم حصہ مؤثر طریقے سے دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔

سمندروں میں ہر سال 8 ملین ٹن سے زائد پلاسٹک شامل ہوتا ہے، جو آبی حیات کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک صحت کا بحران بھی بن چکی ہے۔ مائیکرو پلاسٹکس نہ صرف خوراک اور پانی میں بلکہ انسانی خون میں بھی پائے جا چکے ہیں۔

نیدر لینڈز میں 2022 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، 80 فیصد افراد کے خون کے نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے۔ ( Vrije Universiteit Amsterdam, 2022) تحقیقی مطالعوں سے معلوم ہوا ہے کہ پلاسٹک کی موجودگی جگر، دل، شوگر اور بانجھ پن جیسے امراض سے منسلک ہو سکتی ہے۔

ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے پلاسٹک کے فضلے کو بنگلہ دیش ،انڈونیشیا ، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو’’ ری سائیکلنگ‘‘ کے نام پر برآمد کرتے ہیں، جہاں ناکافی سہولیات کی وجہ سے یہ کچرا کھلے میدانوں میں جلا دیا جاتا ہے یا ندی نالوں میں بہا دیا جاتا ہے، جس سے مقامی ماحول اور صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

یہ صورت حال ماحولیاتی ناانصافی یا ماحولیاتی نوآبادیات کی ایک شکل ہے۔تاہم پلاسٹک کی صنعت سے جڑا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے روزگارکا ذریعہ ہے۔ 2024 کے تخمینے کے مطابق، صرف پیکیجنگ اور مصنوعات کے شعبے میں 5.

4 ملین افراد براہ راست کام کر رہے ہیں، جب کہ بالواسطہ طور پر یہ تعداد 7 ملین سے تجاوز کرتی ہے۔

( International Labour Organization, 2024) چین، بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک میں یہ صنعت نہ صرف معیشت کا ایک بڑا ستون ہے بلکہ چھوٹے پیمانے کے کاروباروں اور غیر رسمی معیشت سے وابستہ افراد کے لیے بھی زندگی کا سہارا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں پلاسٹک انڈسٹری نہ صرف معیشت کا اہم حصہ ہے بلکہ لاکھوں افراد کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔

چین کی پلاسٹک انڈسٹری میں 5 ملین سے زائد افراد ملازمت کر رہے ہیں۔ بھارت میں 4لاکھ سے زائد افراد براہِ راست یا بالواسطہ ملازمت کر رہے ہیں، جب کہ 50 لاکھ سے زائد افرادکچرا چننے اور ری سائیکلنگ سے وابستہ ہیں۔ بنگلہ دیش کی پلاسٹک انڈسٹری میں 20 لاکھ سے زائد افراد براہ راست یا بالواسطہ ملازمت کر رہے ہیں۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پلاسٹک انڈسٹری عالمی معیشت اور روزگار کا ایک اہم ستون ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔ لہٰذا، پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف اقدامات کرتے وقت ان معاشی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے تاکہ ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام بھی برقرار رکھا جا سکے۔

آلودگی کے خلاف جنگ میں یہ ضروری ہے کہ ہم صرف ماحولیاتی پہلو نہ دیکھیں بلکہ اس کے معاشی اثرات کا بھی جائزہ لیں۔ ترقی پذیر دنیا میں، جہاں بے روزگاری اور غربت پہلے سے موجود ہیں، پلاسٹک پر فوری اور مکمل پابندی سے لاکھوں لوگ متاثر ہو سکتے ہیں، اگر یہ صنعت بند ہو جائے تو لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے، چھوٹے کاروبار دیوالیہ ہو جائیں گے، سرمایہ کاروں کا اربوں روپے کا سرمایہ ڈوب سکتا ہے، سماجی بے چینی اور غربت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں سالانہ تقریباً 3.3 ملین ٹن پلاسٹک فضلہ پیدا ہوتا ہے اور 55 ارب سے زائد پلاسٹک بیگز استعمال ہوتے ہیں۔ یہاں پلاسٹک انڈسٹری 16 سے 18 لاکھ افراد کے روزگار سے جڑی ہوئی ہے، جن میں مزدور، دکاندار، پیکنگ عملہ، ٹرانسپورٹرز اور ری سائیکلنگ ورکرز شامل ہیں۔

اس صنعت میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے، جس کا فوری نقصان ملکی معیشت کے لیے شدید دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، پلاسٹک پر فوری پابندی کے بجائے ایک متوازن اور تدریجی پالیسی اپنانا ناگزیر ہے۔ ہمیں ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو ایک طرف ماحولیاتی آلودگی پر قابو پائے، اور دوسری طرف لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری سے بچائے۔

اس کے لیے درج ذیل اقدامات کرنا ضروری ہیں۔متبادل بایو ڈیگریڈیبل مصنوعات کی تیاری اور فروغ، پلاسٹک انڈسٹری کے کارکنوں کے لیے نئی مہارتوں کی تربیت، گرین انڈسٹری میں سرمایہ کاری اور پبلک پرائیویٹ شراکت داری، غیر رسمی کچرا چننے والوں کو باقاعدہ معاشی نظام کا حصہ بنانا۔دنیا کے کئی ممالک جیسے روانڈا، کینیا،کولمبیا اور یورپ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں پالیسی سازی، قانون سازی اور عمل درآمد کی مدد سے پلاسٹک کی آلودگی پر قابو پایا گیا اور متبادل روزگار بھی فراہم کیا گیا۔

یہ وقت ہے کہ ہم ترقی اور ماحول کو ایک دوسرے کا مخالف نہ سمجھیں، بلکہ سبز معیشت کے تصورکو اپناتے ہوئے ایک ایسا مستقبل تشکیل دیں جو پائیدار، منصفانہ اور انسانی فلاح پر مبنی ہو۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم زمین کو محفوظ رکھتے ہوئے انسانیت کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پلاسٹک انڈسٹری سے زائد افراد کر رہے ہیں پلاسٹک کی افراد کے سکتا ہے جاتا ہے ا لودگی کے لیے

پڑھیں:

لاہور: وزیراعظم شہبازشریف الیکٹرک وہیکلز پالیسی اور اس سے متعلقہ صنعت کی ترقی سے متعلق اجلاس کی صدار ت کررہے ہیں

لاہور: وزیراعظم شہبازشریف الیکٹرک وہیکلز پالیسی اور اس سے متعلقہ صنعت کی ترقی سے متعلق اجلاس کی صدار ت کررہے ہیں

متعلقہ مضامین

  • قوم کیلئے پُرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کی ترقی کا پروگرام جاری رکھیں گے، ایران کا بڑ اعلان
  • لاہور: وزیراعظم شہبازشریف الیکٹرک وہیکلز پالیسی اور اس سے متعلقہ صنعت کی ترقی سے متعلق اجلاس کی صدار ت کررہے ہیں
  • ایئرانڈیا کے طیارے کی تباہی اور 270 افراد کی ہلاکت کے بعد بھارتی حکام کا تمام بوئنگ 787 طیاروں کی مکمل جانچ کا حکم
  • سندھ: آج سے پلاسٹک شاپنگ بیگز پر مکمل پابندی
  • ’پہلی بار اتنی تباہی دیکھی‘ ایرانی حملوں نے اسرائیلیوں کو ہلا کر رکھ دیا
  • پہلی بار اتنی تباہی دیکھی‘ ایرانی حملوں نے اسرائیلیوں کو ہلا کر رکھ دیا
  • ایسا بجٹ لا رہے ہیں جو اعداد کا مجموعہ نہیں ترقی کا روڈ میپ ہو گا: وزیرِ اعلیٰ بلوچستان
  • بجٹ بلوچستان کی ترقی کا جامع روڈ میپ ہوگا، سرفراز بگٹی
  • پلاسٹک آلودگی سے آبی تحفظ‘ ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت 6بڑی بینک اقدامات پر متفق