Express News:
2025-09-18@19:07:46 GMT

پلاسٹک کی تہذیب : ترقی کا چمکتا چہرہ یا تباہی کا سایہ؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

پلاسٹک کی کہانی بیسویں صدی کے صنعتی انقلاب سے جڑی ہے، جب اسے سہولت، سستی اور جدیدیت کی علامت سمجھا گیا۔ یہ ہلکا پھلکا اور دیرپا مادہ روزمرہ کی زندگی میں اس قدر سرایت کر گیا کہ اب اسے ہماری تہذیب کا ایک اہم جزو کہا جا سکتا ہے، لیکن یہی خصوصیات، جو کبھی ترقی کی علامت تھیں، آج زمین اور انسانیت کے لیے شدید خطرے کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 400 ملین ٹن پلاسٹک تیار ہوتا ہے، جس کا بڑا حصہ ری سائیکل نہیں ہوتا۔ اس میں سے تقریباً 50 فیصد پلاسٹک صرف ایک بار استعمال کے لیے بنایا جاتا ہے، اور صرف 10 فیصد سے بھی کم حصہ مؤثر طریقے سے دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔

سمندروں میں ہر سال 8 ملین ٹن سے زائد پلاسٹک شامل ہوتا ہے، جو آبی حیات کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک صحت کا بحران بھی بن چکی ہے۔ مائیکرو پلاسٹکس نہ صرف خوراک اور پانی میں بلکہ انسانی خون میں بھی پائے جا چکے ہیں۔

نیدر لینڈز میں 2022 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، 80 فیصد افراد کے خون کے نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے۔ ( Vrije Universiteit Amsterdam, 2022) تحقیقی مطالعوں سے معلوم ہوا ہے کہ پلاسٹک کی موجودگی جگر، دل، شوگر اور بانجھ پن جیسے امراض سے منسلک ہو سکتی ہے۔

ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے پلاسٹک کے فضلے کو بنگلہ دیش ،انڈونیشیا ، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو’’ ری سائیکلنگ‘‘ کے نام پر برآمد کرتے ہیں، جہاں ناکافی سہولیات کی وجہ سے یہ کچرا کھلے میدانوں میں جلا دیا جاتا ہے یا ندی نالوں میں بہا دیا جاتا ہے، جس سے مقامی ماحول اور صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

یہ صورت حال ماحولیاتی ناانصافی یا ماحولیاتی نوآبادیات کی ایک شکل ہے۔تاہم پلاسٹک کی صنعت سے جڑا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے روزگارکا ذریعہ ہے۔ 2024 کے تخمینے کے مطابق، صرف پیکیجنگ اور مصنوعات کے شعبے میں 5.

4 ملین افراد براہ راست کام کر رہے ہیں، جب کہ بالواسطہ طور پر یہ تعداد 7 ملین سے تجاوز کرتی ہے۔

( International Labour Organization, 2024) چین، بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک میں یہ صنعت نہ صرف معیشت کا ایک بڑا ستون ہے بلکہ چھوٹے پیمانے کے کاروباروں اور غیر رسمی معیشت سے وابستہ افراد کے لیے بھی زندگی کا سہارا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں پلاسٹک انڈسٹری نہ صرف معیشت کا اہم حصہ ہے بلکہ لاکھوں افراد کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔

چین کی پلاسٹک انڈسٹری میں 5 ملین سے زائد افراد ملازمت کر رہے ہیں۔ بھارت میں 4لاکھ سے زائد افراد براہِ راست یا بالواسطہ ملازمت کر رہے ہیں، جب کہ 50 لاکھ سے زائد افرادکچرا چننے اور ری سائیکلنگ سے وابستہ ہیں۔ بنگلہ دیش کی پلاسٹک انڈسٹری میں 20 لاکھ سے زائد افراد براہ راست یا بالواسطہ ملازمت کر رہے ہیں۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پلاسٹک انڈسٹری عالمی معیشت اور روزگار کا ایک اہم ستون ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔ لہٰذا، پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف اقدامات کرتے وقت ان معاشی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے تاکہ ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام بھی برقرار رکھا جا سکے۔

آلودگی کے خلاف جنگ میں یہ ضروری ہے کہ ہم صرف ماحولیاتی پہلو نہ دیکھیں بلکہ اس کے معاشی اثرات کا بھی جائزہ لیں۔ ترقی پذیر دنیا میں، جہاں بے روزگاری اور غربت پہلے سے موجود ہیں، پلاسٹک پر فوری اور مکمل پابندی سے لاکھوں لوگ متاثر ہو سکتے ہیں، اگر یہ صنعت بند ہو جائے تو لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے، چھوٹے کاروبار دیوالیہ ہو جائیں گے، سرمایہ کاروں کا اربوں روپے کا سرمایہ ڈوب سکتا ہے، سماجی بے چینی اور غربت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں سالانہ تقریباً 3.3 ملین ٹن پلاسٹک فضلہ پیدا ہوتا ہے اور 55 ارب سے زائد پلاسٹک بیگز استعمال ہوتے ہیں۔ یہاں پلاسٹک انڈسٹری 16 سے 18 لاکھ افراد کے روزگار سے جڑی ہوئی ہے، جن میں مزدور، دکاندار، پیکنگ عملہ، ٹرانسپورٹرز اور ری سائیکلنگ ورکرز شامل ہیں۔

اس صنعت میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے، جس کا فوری نقصان ملکی معیشت کے لیے شدید دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، پلاسٹک پر فوری پابندی کے بجائے ایک متوازن اور تدریجی پالیسی اپنانا ناگزیر ہے۔ ہمیں ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو ایک طرف ماحولیاتی آلودگی پر قابو پائے، اور دوسری طرف لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری سے بچائے۔

اس کے لیے درج ذیل اقدامات کرنا ضروری ہیں۔متبادل بایو ڈیگریڈیبل مصنوعات کی تیاری اور فروغ، پلاسٹک انڈسٹری کے کارکنوں کے لیے نئی مہارتوں کی تربیت، گرین انڈسٹری میں سرمایہ کاری اور پبلک پرائیویٹ شراکت داری، غیر رسمی کچرا چننے والوں کو باقاعدہ معاشی نظام کا حصہ بنانا۔دنیا کے کئی ممالک جیسے روانڈا، کینیا،کولمبیا اور یورپ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں پالیسی سازی، قانون سازی اور عمل درآمد کی مدد سے پلاسٹک کی آلودگی پر قابو پایا گیا اور متبادل روزگار بھی فراہم کیا گیا۔

یہ وقت ہے کہ ہم ترقی اور ماحول کو ایک دوسرے کا مخالف نہ سمجھیں، بلکہ سبز معیشت کے تصورکو اپناتے ہوئے ایک ایسا مستقبل تشکیل دیں جو پائیدار، منصفانہ اور انسانی فلاح پر مبنی ہو۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم زمین کو محفوظ رکھتے ہوئے انسانیت کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پلاسٹک انڈسٹری سے زائد افراد کر رہے ہیں پلاسٹک کی افراد کے سکتا ہے جاتا ہے ا لودگی کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء) مشیر خزانہ خیبرپختونخواہ مزمل اسلم نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ، حالات اتنے خراب ہیں کہ یہ دنیا کے دس بدترین معیشت کے ملکوں میں آچکے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے زراعت ایمرجنسی کا اعلان محض ایک نمائشی قدم ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے پاکستان کی زرعی معیشت کو مسلسل تباہی کا سامنا ہے۔

مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم کے دور میں دوسرا سیلاب آگیا انکے پاس زرعی اور ماحولیاتی نمائشی ایمرجنسی کے علاؤہ کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ زراعت ایمرجنسی لگانے سے کیا ہوگا جب پچھلے چار سال سے کسان کو ختم کیا جا رہا ہو، زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سکیمیں بن رہی ہوں اور ملک خوراک کی کمی کے بحران میں داخل ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

ملک میں گندم اور آٹے کا بحران ہے اور ملک میں تاریخ کی سب سے مہنگی کھاد ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان اب غذائی عدم تحفظ کے شکار ملک کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں پیداوار مسلسل گر رہی ہے اور حکومتوں کی توجہ صرف نمائشی اعلانات پر مرکوز ہے۔ خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مزمل اسلم نے کہا کہ پوری دنیا میں پاکستان کیلئے شرم کا مقام ہے کہ صرف چار فیصد رقبے پر پاکستان میں جنگلات ہیں جبکہ پاکستان کے کل جنگلات کا 45 فیصد خیبرپختونخوا میں ہے۔

وزیراعظم بتائیں یہ انکی چوتھی حکومت ہے اورملک میں اور پنجاب میں کتنے درخت لگائے ہیں۔ مزمل اسلم نے سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال میں ملک کی شرح نمو ممکنہ طور پر صفر فیصد تک گر سکتی ہے جو معیشت کی مکمل ناکامی کا اعلان ہے۔مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ عمران خان کو اسلئے ہٹا دیا کہ معیشت ٹھیک کرسکے حال یہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں پہلے سال شرح نمو منفی 0.5 فیصد رہی دوسرے سال شرح نمو 2.4 فیصد رہی جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ جعلی طریقے سے حاصل کی گئی ہے۔

تیسرے سال شرح نمو 2.7 فیصد قرار دیا گیا جس پر میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے جس پر وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ ڈیٹا غلط ہے چوتھے سال کیلئے یہ کہہ رہے ہیں کہ 4.2 فیصد ہدف ہے لیکن حالات اتنے خراب ہیں کہ یہ دنیا کے دس بدترین معیشت کے ملکوں میں آچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو صرف تین سال دیے گئے لیکن موجودہ حکومت ساڑھے تین سال سے برسراقتدار ہے اور اب تک کوئی احتساب نہیں ہوا، ہماری حکومت پر ہر دن تنقید ہوتی تھی مگر نواز شریف، شہباز شریف، زرداری یا بلاول سے کوئی سوال نہیں کرتا۔

مزمل اسلم نے بلاول بھٹو اور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں 2010 کے سیلاب کے دوران زرداری نے ایڈ نہیں، ٹریڈ کا نعرہ لگایا تھا مگر آج بھی یہی حکمران عالمی امداد کے سہارے حکومت چلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 2022 کے سیلاب کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اس وقت بطور وزیر خارجہ بلاول نے جس عالمی امداد کے دعوے کیے تھے، وہ کہاں گئی مزمل اسلم نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں صوبوں کے درمیان غیر منصفانہ تقسیم پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ پنجاب کے 46 لاکھ افراد کو بی آئی ایس پی فنڈز دیے جا رہے ہیں، سندھ میں 26 لاکھ افراد کو 100 ارب روپے دیے گئے جبکہ خیبرپختونخوا کو صرف 72 ارب اور بلوچستان کو محض 5 ارب روپے دیے گئے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں ہسپتال تباہی کے دہانے پر، ڈبلیو ایچ او کے سربراہ
  • ماں کا سایہ زندگی کی بڑی نعمت‘ اس کا نعم البدل کوئی نہیں: عظمیٰ بخاری
  • اسلامی تہذیب کے انجن کی پاور لائیز خراب ہوگئی ہیں،احسن اقبال
  • قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
  • سیلاب
  • پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ
  • حب کینال کی تباہی کے بعد کراچی پانی کے شدید بحران کا شکار ہے، حلیم عادل شیخ
  • چترال میں شدید بارشیں، سیلاب نے تباہی مچادی
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ڈیجیٹلائزیشن کو وقت کی ضرورت قرار دیدیا
  • بشریٰ بی بی کو قیدیوں میں سے سب سے اچھا کھانا کھلایا جاتاہے: سلمان احمد