دنیا پہلے ہی کئی بحرانوں کے دہانے پر کھڑی ہے، ایسے میں حالیہ اسرائیلی حملے نے نہ صرف ایران میں کشیدگی کو بڑھا دیا ہے بلکہ بعض عالمی قوتوں کے خطرناک کھیل کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ جارحیت اس بھارتی دراندازی کے فوراً بعد ہوئی ہے جو مئی کے اوائل میں پاکستان کی حدود میں کی گئی تھی اور جسے پاکستان نے 7 مئی کو جرات مندانہ اور حکمتِ عملی پر مبنی جواب دے کر ناکام بنایا۔ اگرچہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان طویل جنگ کے خطرات وقتی طور پر ٹل گئے، مگر اب جنگ کے بادل ایران کے اوپر منڈلا رہے ہیں اور فضا ایک نئے عدم استحکام کی خبر دے رہی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل نے ایرانی سرزمین پر حملے کیے ہوں۔ گزشتہ برسوں میں اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام اور عسکری اثاثوں کو نقصان پہنچانے کے لیے متعدد خفیہ اور علانیہ کارروائیاں کیں۔ 27 نومبر 2020ء کو ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران کے قریب دماوند کے علاقے ابسرد میں قتل کیا گیا، جس کی ذمہ داری غیر علانیہ طور پر اسرائیل پر عائد کی گئی، اگرچہ اسرائیل نے سرکاری طور پر اسے تسلیم نہیں کیا۔ اس سے پہلے، 2018ء میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے دعویٰ کیا تھا کہ موساد نے ایران کے جوہری منصوبے سے متعلق اہم دستاویزات حاصل کر لی ہیں، جسے تہران کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ قرار دیا گیا۔
حالیہ برسوں میں اسرائیل نے شام میں ایرانی ٹھکانوں پر فضائی حملوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ کیا ہے۔ شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق کے مطابق 2013ء سے 2023 ء کے درمیان اسرائیل نے 1,200 سے زائد فضائی حملے کیے، جن میں اکثر ایرانی اہلکار یا ان سے منسلک ملیشیاؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ اپریل 2024 ء میں اصفہان میں ایک ایرانی عسکری تنصیب پر ہونے والے زبردست دھماکے کے پیچھے بھی اسرائیل کو ہی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ تمام واقعات اسرائیلی معاندانہ پالیسی کا تسلسل ہیں، جس کا مقصد محض خطرات کو ختم کرنا نہیں بلکہ ایران کو علاقائی سطح پر کمزور کرنا ہے۔
تاہم موجودہ حملہ اپنے دائرہ کار اور نتائج کے لحاظ سے مختلف محسوس ہوتا ہے۔ یہ کوئی محدود آپریشن نہیں بلکہ ایک اسٹریٹیجک تبدیلی کا اشارہ ہے۔ ایسا اقدام جو ایک وسیع جنگ کو جنم دے سکتا ہے۔ ان عالمی طاقتوں کی خاموشی یا ہلکی پھلکی ردعمل، جو عام طور پر عالمی قوانین اور امن کے داعی بنتے ہیں، ایک سوالیہ نشان ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی بار بار خلاف ورزی پر اس قدر درگزر کیوں؟ اور جب نشانہ کسی مسلم ملک کو بنایا جاتا ہے تو دنیا کی غیرت کیوں خاموش ہو جاتی ہے؟
شائد اس کا جواب ایک بڑی اور خوفناک حقیقت میں پوشیدہ ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں ایک طرزِ عمل واضح طور پر سامنے آیا ہے، جس کے تحت ابھرتی ہوئی مسلم ریاستوں کو مختلف بہانوں سے غیر مستحکم کیا جاتا ہے۔ عراق پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے جھوٹے دعوے کے تحت حملہ کیا گیا، جو بعد میں غلط ثابت ہوئے۔ لیبیا کو جمہوریت کے نام پر تباہ کر دیا گیا۔ شام ایک دہائی سے زائد عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ہے، جس میں عالمی اور علاقائی طاقتیں برابر کی شریک ہیں اور اب توجہ ایران پر مرکوز ہے، جو کہ طویل پابندیوں اور سفارتی تنہائی کے باوجود سائنسی اور عسکری ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ جہاں کچھ طاقتیں مسلم ریاست کی معمولی عسکری یا سائنسی ترقی کو بھی خطرہ سمجھتی ہیں، وہیں کوئی مسلم ملک کسی غیر مسلم ہمسایہ کی ترقی کو جارحیت کی بنیاد نہیں بناتا۔ ایران اور پاکستان سمیت اکثر مسلم ممالک نے دفاعی حکمتِ عملی اختیار کی ہے اور امن و بقائے باہمی کا علم بلند کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، اشتعال انگیزیاں جاری رہتی ہیں اور عالمی طاقتیں، جو انسانی حقوق کی دعوے دار ہیں، اکثر اس صورتِ حال پر خاموشی اختیار کرتی ہیں۔
مئی کے وہ دن، جب بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی کوشش کی، اس مربوط دشمنی کی واضح مثال ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل اور بھارت کے درمیان انٹیلیجنس شیئرنگ اور مشترکہ منصوبہ بندی ہوئی۔ مگر پاکستان کا ردعمل فوری اور فیصلہ کن تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور ایک پیشہ ور، عزم سے بھرپور فوج کی بدولت پاکستان نے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیے اور خطے میں استحکام کو برقرار رکھا۔ چونکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی، اب رخ ایران کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ ایک ایسی قوم کی طرف جو تنہائی اور دباؤ کے باوجود ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت ایران کو غیر اشتعال انگیز جارحیت کا جواب دینے کا پورا حق حاصل ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے، تو اسے وہی انجام بھگتنا پڑ سکتا ہے جو فلسطین نے بھگتا ہے۔ ایک مظلوم قوم جو بتدریج اپنی زمین، اپنے حقوق اور عالمی حمایت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن اگر ایران جوابی کارروائی کرتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ بڑی طاقتیں فوراً اسرائیل کی پشت پناہی کے لیے متحرک ہو جائیں گی اور ایران کی مذمت کریں گی۔ یہی دہرا معیار اور زمین پر قبضے کی حکمتِ عملی کی اصل شکل ہے۔
یہ لمحہ اجتماعی بیداری کا تقاضا کرتا ہے۔ مسلم دنیا کو خاص طور پر اس وسیع تر منظرنامے پر غور کرنا چاہیے کہ کس طرح ایک کے بعد ایک، ترقی کرتی ہوئی اسلامی ریاست کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کمزور کیا جا رہا ہے یا تقسیم کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک ملک یا ایک تنازعے کا نہیں، بلکہ ایک طویل المدتی مہم کا ہے جس کا مقصد کسی بھی ابھرتی ہوئی مسلم طاقت کو عالمی سطح پر خود مختاری سے محروم رکھنا ہے۔ ایران، بالکل پاکستان کی طرح، ایک اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔ آج کے فیصلے صرف انفرادی ممالک کا نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کے وقار اور خودمختاری کا تعین کریں گے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر انصاف کے علمبردار، اپنی خاموشی توڑیں۔ ظلم کہیں بھی ہو، انصاف کے لیے خطرہ ہوتا ہے، اور مخصوص اخلاقیات کی آڑ میں جارحیت کا تسلسل دنیا کو صرف تباہی کے قریب لائے گا۔ دعا ہے کہ عقل و دانائی غالب آ جائے، اس سے پہلے کہ خطہ کسی وسیع، اور شاید بے قابو، جنگ کی لپیٹ میں آ جائے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسرائیل نے کیا جا
پڑھیں:
انصاف خطرے میں،اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی اور ایران پر جارحیت عالمی قانونی اقدامات کی متقاضی ہے
انصاف خطرے میں،اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی اور ایران پر جارحیت عالمی قانونی اقدامات کی متقاضی ہے WhatsAppFacebookTwitter 0 15 June, 2025 سب نیوز
تحریر: حافظ احسان احمد کھوکھر
دنیا ایک بار پھر بین الاقوامی قانونی نظام کے عملی انہدام کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ غزہ میں اسرائیلی افواج کی سفاکانہ فوجی کارروائی اور 13 جون 2025 کو ایران پر اس کے حالیہ سرحد پار فضائی حملے الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں؛ بلکہ یہ بین الاقوامی قانون کی ان خلاف ورزیوں کا تسلسل ہیں جو کھلے عام اور مکمل استثنی کے ساتھ کی جا رہی ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف نشانہ بننے والی ریاستوں کی خودمختاری کو پامال کرتے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشنز اور بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں کو بھی زائل کرتے ہیں۔اکتوبر 2023 کے واقعات کے بعد اسرائیل کی فوجی جارحیت نے غزہ کو مکمل انسانی بحران میں تبدیل کر دیا ہے۔ جون 2025 تک، غزہ کی صحت حکام کے مطابق 54321 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 70 فیصد سے زائد خواتین اور بچے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 123000 سے تجاوز کر چکی ہے، اور 10000 سے زائد افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اسپتالوں، اسکولوں، مساجد اور اقوام متحدہ کے پناہ گزین مراکز سمیت وسیع پیمانے پر شہری انفراسٹرکچر تباہ کر دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امدادکے مطابق غزہ کے صرف 38 فیصد طبی مراکز جزوی طور پر کام کر رہے ہیں، اور اہم انسانی امداد مسلسل روکی جا رہی ہے۔
پانچ سال سے کم عمر کے 2700 سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، اور پورے محصور علاقے میں قحط پھیل چکا ہے۔عام شہریوں پر شدید طاقت کا استعمال، شہری آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنانا، طبی و انسانی امدادی ڈھانچے کی تباہی، اور ضروری امداد کی ناکہ بندی نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل دفاع ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کھلی خلاف ورزیاں ہیں۔ اسرائیل کے یہ اقدامات چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 147 کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جو محفوظ افراد کے قتل اور غیر انسانی سلوک پر پابندی عائد کرتا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے روم اسٹیچوٹ کے تحت شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں شامل ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین، بشمول ہیومن رائٹس واچ اور ڈاکٹرز وِدآٹ بارڈرز کی رپورٹس کے مطابق، اسرائیل کی جانب سے سفید فاسفورس کا استعمال اور اندھا دھند بمباری اجتماعی سزا کے ایک منظم عمل کی عکاسی کرتے ہیں، جو عرفی بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ صورتحال کو مزید سنگین بناتے ہوئے، جون 2025 میں اسرائیل نے ایران کے اندر متعدد فوجی اور جوہری تنصیبات پر جارحانہ فضائی حملے کیے۔ یہ کارروائی، جو مبینہ طور پر “رائزنگ لائن” کے نام سے کی گئی، میں کم از کم 80 ایرانی فوجی اور سائنسدان شہید اور 320 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ حملے کسی فوری حملے کے ردعمل میں نہیں کیے گئے بلکہ پیشگی نوعیت کے تھے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت “خود دفاع” کے قانونی معیار پر پورا نہیں اترتے۔ کسی اقوام متحدہ کے رکن ملک کی خودمختار سرزمین پر یہ براہ راست حملہ عالمی امن و سلامتی کے خلاف ایک سنگین خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4) کی خلاف ورزی بھی ہے۔ایران نے ان حملوں کے ردعمل میں میزائل اور ڈرون حملے کیے، جن سے اسرائیل میں جانی نقصان ہوا اور فلسطینی علاقوں میں بھی کچھ ضمنی نقصان پہنچا۔ اس ردعمل نے پورے خطے کو ایک بڑی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جس کے نتائج نہ صرف مشرق وسطی بلکہ عالمی امن و معیشت کے لیے بھی تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور خطے کے فضائی راستوں میں ہائی الرٹ کی صورتحال اس بات کی عکاس ہے۔ان تمام واضح اور دستاویزی خلاف ورزیوں کے باوجود اسرائیل کو کوئی حقیقی قانونی جوابدہی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی معطلی، جو بالخصوص مستقل اراکین، خاص طور پر امریکہ کی سیاسی حمایت کے باعث ہے، اسرائیل کو مکمل استثنی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دے رہی ہے۔ یہ ناکامی محض ایک ادارہ جاتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اور قانونی انہدام ہے جو بین الاقوامی قانون کی ساکھ کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔تاہم یہ استثنی اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتی۔ بین الاقوامی قانونی نظام میں اب بھی احتساب کے لیے مثر راستے موجود ہیں، اگر سیاسی عزم ہو۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کو محض علامتی مقدمات کے لیے نہیں بلکہ سنجیدہ عدالتی کارروائی کے لیے متحرک کیا جانا چاہیے۔ مسلم اکثریتی ممالک، خاص طور پر وہ جو روم اسٹیچوٹ کے فریق ہیں، انہیں فلسطین کے مقدمے کے تحت اسرائیلی قیادت کے خلاف فوری مقدمات کے لیے دبا ڈالنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی، وہ ممالک جن کے ہاں عالمی دائرہ اختیار کے قوانین موجود ہیںجیسے جنوبی افریقہ، اسپین یا ملائیشیاوہ اسرائیلی حکام کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات حتی کہ ان کی غیر موجودگی میں بھی دائر کر سکتے ہیں۔بین الاقوامی عدالت انصاف کو محض مشاورتی آرا تک محدود نہ رکھا جائے۔ متعدد ریاستیں متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف نسل کشی کنونشن کے تحت مقدمہ دائر کریں اور مزید مظالم کو روکنے کے لیے فوری عبوری اقدامات کی درخواست کریں۔ ریاستی ذمہ داری کے تناظر میں کا دائرہ اختیار ایک موثر راستہ فراہم کرتا ہے۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو “یونائٹنگ فار پیس” قرارداد کو فعال کرنا چاہیے تاکہ سلامتی کونسل کی ناکامی کی صورت میں اجتماعی پابندیوں اور سفارتی اقدامات کی سفارش کی جا سکے۔مسلم دنیا، جو 1 اعشاریہ9 ارب سے زائد افراد اور 57 ممالک پر مشتمل ہے، کے لیے اب محض ردعمل کی سطح سے آگے بڑھنے کا وقت آ گیا ہے۔ ایک مربوط، متحرک، اور جامع قانونی، سفارتی، اور معاشی حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کو ایک “خصوصی قانونی سربراہی اجلاس” منعقد کر کے ایک “مستقل احتساب کونسل” قائم کرنی چاہیے۔ یہ ادارہ بین الاقوامی قانونی کارروائیوں میں ہم آہنگی پیدا کرے، فلسطین اور ایران کی نمائندگی کے لیے قانونی ٹیموں کی مالی معاونت کرے، اور مستقبل کے عدالتی عمل کے لیے شواہد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔معاشی دبا بھی ایک اہم ذریعہ ہونا چاہیے۔ مسلم ممالک کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات منجمد کرنے، تجارتی معاہدے معطل کرنے، اور اسلحہ کی فراہمی پر پابندی عائد کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی BRICS+، افریقی یونین اور لاطینی امریکی بلاکس کے ساتھ تعاون بڑھا کر عالمی حمایت کو وسعت دی جائے۔
عوامی سفارتکاریبین الاقوامی میڈیا، قانونی تھنک ٹینکس، اور عالمی تعلیمی اداروں کے ذریعیکو متحرک کیا جائے تاکہ غلط معلومات کا مقابلہ کیا جا سکے اور انصاف کے لیے عالمی رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔اسرائیلی ریاست کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی بار بار اور سنگین خلاف ورزیاںخواہ وہ غزہ میں نسل کشی کی شکل میں ہوں یا ایران پر غیر قانونی جارحیت کی صرف مذمت سے نمٹائی نہیں جا سکتیں۔ ان خلاف ورزیوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے، جو قانون، اخلاقیات اور عالمی ضمیر پر مبنی ہوں۔ اگر دنیا اب خاموش رہی تو یہ پیغام جائے گا کہ بین الاقوامی قانون قابلِ سودا ہے، اور طاقت ہی قانون ہے۔انصاف کی راہ مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ یہ سفر اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہم ان کے لیے کھڑے ہوں جو خود کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے۔ مسلم ممالکاور وہ تمام اقوام جو قانون کی حکمرانی کا دعوی کرتی ہیں کو اب عمل کی قیادت کرنی ہو گی۔ غزہ اور ایران میں انصاف کی تاخیر صرف متاثرین کے ساتھ ناانصافی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ ناانصافی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایران اسرائیل جنگ؛ 450 پاکستانی زائرین کا انخلا مکمل کر لیا گیا، نائب وزیراعظم ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے مسلم دنیا پر مربوط جارحیت عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ غزہ اور فلسطین: مسلم دنیا کا امتحان بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟ مُودی کا ”نیو نارمل” اور راکھ ہوتا سیندور!Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم