ایچ ای سی کی موجودہ انتظامیہ کے لیے مشکلات؛ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا اشتہار عدالت میں چیلنج
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
کراچی: اعلی تعلیمی کمیشن آف پاکستان (ایچ ای سی) میں ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی برطرفی کے بعد سے صورتحال پیچیدہ ہے اور موجودہ انتظامیہ کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا یے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کمیشن کے ذریعے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی برطرفی کے بعد نئی تعیناتی کیلیے جاری اشتہار کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کردی گئی ہے۔
جاری اشتہار کے خلاف بعض افراد نے عدالت میں درخواست دائر کی جس میں اُنہوں نے نئے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی تقرری کے سلسلے میں جاری اشتہار پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔
جس کے بعد اشتہار کو لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد کی ایک عدالت چیلنج کیا گیا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ عدالت کی جانب سے نئے ایگزیکٹیو کی تقرری کے لیے شروع کیے گئے پراسیس پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے اسے روک گیا ہے۔
اس سلسلے میں مئی کے آخری ہفتے میں جاری کیے گئے اشتہار میں عمر ہی حد 65 برس مقرر کی گئی ہے جبکہ 2023 میں اسی اسامی کے لیے جاری اشتہار میں عمر کی حد 62 برس تھی جسے وفاقی حکومت کے رولز کی خلاف ورزی قرار دیا جارہا ہے۔
مزید یہ کہ اشتہار میں امیدواروں کو درخواستیں جمع کرانے کے لیے 15 روز کا وقت دیا گیا ہے جو گزشتہ 2023 کے اشتہار میں 30 روز تھا جبکہ عمومًا اس قدر کم وقت نہیں دیا جاتا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ چونکہ موجودہ چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد کی تیسری مدت جولائی کے آخری ہفتے میں پوری ہورہی ہے اور وہ اپنی موجودگی میں ہی اس آسامی پر تقرری چاہتے ہیں۔
’’یہ سارے کام انتہائی عجلت میں کیے جارہے ہیں کیونکہ ابھی اس بارے میں ابہام ہے کہ ڈاکٹر مختار احمد کی مدت ملازمت میں مزید توسیع ہوپائے گی یا نہیں کیونکہ ڈاکٹر مختار کے قریبی حلقوں کا کہنا یے کہ انھیں دو سالہ مدت کا ایک سال ملا تھا جبکہ ابھی ایک سال مزید مل سکتا ہے‘‘۔
ان کے ناقدین پر پھیلے ہوئے ایک بڑے حلقے کی رائے ہے کہ وہ اس سے قبل بھی دو بار چیئرمین ایچ ای سی رہ چکے ہیں اب یہ تیسری بار ہے لہذا یہ مدت نہیں بلکہ محض ایک سال کی توسیع تھی جو 29ویں جولائی کو پوری ہورہی ہے۔
ادھر ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی تقرری کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلے میں ملک بھر سے ایچ ای سی کو مبینہ طور پر 2 درجن سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں جس میں سندھ اور پنجاب سے بعض سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز بھی شامل ہیں جس میں سے بعض کو چیئرمین ایچ ای سی موزوں نہیں سمجھتے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی جاری اشتہار اشتہار میں ایچ ای سی کے لیے
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس میں کرپشن الزامات، حیران کن موڑ سامنے آ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی گمشدگی اور کرپشن الزامات کا کیس ایک نیا اور ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران ایسے انکشافات سامنے آئے جنہوں نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عدالت میں پولیس، وکیلِ صفائی اور درخواست گزار کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل نے اس کیس کے مختلف پہلوؤں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف باقاعدہ کرپشن کیس درج ہو چکا ہے، ان کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے اور ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عثمان نے خود اپنے تحریری بیان میں تسلیم کیا کہ وہ جاری انکوائری کے باعث روپوش تھے۔ پولیس کے مطابق عثمان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مشہور ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی تھی۔
درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل رضوان عباسی نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ عثمان کو 15 دن تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں گرفتاری ظاہر کی گئی۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے عثمان کو اغوا کیا گیا اور ان کی گرفتاری بعد میں ظاہر کر کے قانونی کارروائی کا لبادہ اوڑھا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کے دستخط زبردستی لیے گئے اور ان کے تحریری بیان کی ہینڈ رائٹنگ بھی ان سے مطابقت نہیں رکھتی۔
وکیل نے الزام لگایا کہ اغوا کے شواہد موجود ہیں، جن میں ایک ویڈیو بھی شامل ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ چار افراد نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ ایک عام طریقہ کار بنتا جا رہا ہے کہ پہلے کسی کو اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی گرفتاری ظاہر کر دی جاتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ چونکہ اب مقدمہ درج ہو چکا ہے اور عثمان جسمانی ریمانڈ پر ہے، اس لیے عدالت کے لیے اسے یہاں طلب کرنا ممکن نہیں، تاہم وکیل نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ واقعہ اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں پیش آیا، اس لیے ہائی کورٹ کو معاملے پر سماعت کا حق حاصل ہے۔
دوسری جانب پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ ملزم کے خلاف باقاعدہ انکوائری اور ایف آئی آر دونوں موجود ہیں، اس لیے بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔ وکیلِ صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر عثمان نے واقعی رشوت لی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ضرور کی جائے، مگر کسی شہری کو اغوا کر کے یا غیر قانونی طور پر حراست میں رکھ کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔