Express News:
2025-07-31@07:56:19 GMT

دوستیاں، یادیں اور گانے — ایک ناستلجک سفر

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

کبھی دوستی کسی موبائل پر سینڈ کی گئی رِیل نہیں ہوتی تھی، بلکہ وہ ایک سادہ سی مسکراہٹ میں چھپی ہوتی تھی — آدھی پلیٹ بریانی بانٹنے میں، اسکول کی کاپی پر ایک دوسرے کے نام لکھنے میں، اور ایک ہی رنگ کے کپڑے، چشمے، اور گھڑیاں پہننے میں۔

دوستی وہ ہوتی تھی جو خواب بھی ایک جیسے دیکھتی تھی۔ اُس وقت "دوست" صرف ایک لفظ نہیں، بلکہ ایک پوری کائنات ہوا کرتا تھا۔

پہلے زمانے کی دوستیاں خالص ہوتی تھیں — نہ کسی لائک کی طلب، نہ کسی سین یا ویو کا انتظار۔ وہ وقت کسی ہارٹ ایموجی سے نہیں بلکہ دل کی دھڑکن سے جُڑا ہوتا تھا۔ ہم چُھپ کر تصویریں نہیں کھینچتے تھے، بلکہ ہاتھ تھام کر وہ تصویریں بناتے تھے جو دل پر چھپتی تھیں۔

بچپن میں دوستوں کے ساتھ کنچے، گلی ڈنڈا، لٹو اور پتنگ بازی کرتے۔ کھیل کے دوران جھگڑے بھی ہوتے مگر چند لمحوں بعد سب کچھ بھول کر ایک ہو جاتے۔ اسکول کے باہر حلیم کے ٹھیلے سے ایک پلیٹ حلیم اور دو روٹیاں لیتے اور مل کر کھاتے — وہی لمحے عید کی خوشی جیسے ہوتے۔

بارش ہو جاتی تو خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ گلی میں پانی بہہ رہا ہوتا، اور ہم پرانے ٹائر کو دوڑاتے، چیختے چلاتے گلیوں میں بھاگتے۔ بارش کے بعد ہم "بھیمری" پکڑتے — وہ چھوٹی ہوائی جہاز جیسی چیز جو درختوں پر یا دیواروں کے ساتھ چپکی ہوتی تھی۔ ہم اس کی دم میں دھاگہ باندھتے اور اسے ہوا میں گھماتے۔ وہ گھومتی، گنگناتی، اور ہمارے بچپن کی فضاؤں کو موسیقی بخشتی۔

 

یہ سب کچھ معمولی لگتا ہے، مگر آج جب یاد آتا ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور دل کہتا ہے:

"کاش وہ دن لوٹ آئیں.

.. وہ دوست، وہ کھیل، وہ بارشیں، وہ بےفکری!"

عید سے کچھ دن پہلے دوستوں کو کارڈز دیے جاتے۔ لڑکے ایک دوسرے کو فلمی ہیروز کے پوسٹ کارڈ دیتے، جیسے کوئی بڑا تحفہ ہو۔ پھر جیسے جیسے عمر بڑھی، کرکٹ، فٹبال اور ہاکی نے جگہ لے لی۔ گرمیوں کی راتوں میں بجلی چلی جاتی تو چھپن چھپائی کھیلنے نکل جاتے — تب "امپریس" یا "بھنڈا" جیسے الفاظ کے معنی نہیں معلوم ہوتے تھے، مگر دل کی نیت صاف ہوتی تھی۔

کرکٹ کے میچ میں پچاس پیسے کی آئس کریم کی شرط لگتی تو جی جان سے کھیلا جاتا۔ کبھی لسی کی شرط ہوتی، جو اُس وقت چار روپے کی مل جاتی تھی۔

روز سائیکل پر بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ لائبریری جانا، آڈیو کیسٹس خریدنا ،بغیر بلائے خوب تیار ہو کر شادی ہال میں جا کر کھانا کھانا، ہوٹل میں ایک پلیٹ نہاری تین دوست مل کر کھاتے اور تین بار گریوی ڈلواتے —گھر سے دور جا کر سگریٹ پیتے۔ یہ سب یادیں نہیں، زندگی کا حاصل تھیں۔

سوسائٹی میں عید میلادالنبی ﷺ، جشنِ آزادی، اور دفاعِ پاکستان پر خود پروگرام کرتے، دوستوں کے ساتھ ملیر ندی تک پیدل جاتے اور امرود توڑ کر کھاتے۔ راتوں کو تاش کی محفلیں جمتی تھیں، ون ڈِش پارٹیاں ہوتیں، کبھی کسی کی مرغی چوری کر کے گھرکے باہر پکائی جاتی — زندگی میں ذائقہ تھا، رنگ تھے، شرارتیں  تھی، بےفکری تھی۔

پکنک بھی سادہ ہوتی — ملیر سٹی سے کلری جھیل جانے والی بس میں بیٹھ کر جاتے، راستے سے کھانا خریدتے اور قدرتی مناظر کے درمیان بیٹھ کر کھاتے۔ آج ہزاروں روپے خرچ کر کے بھی وہ مزہ نصیب نہیں ہوتا۔

دوست آج بھی ہیں...
وہی نام، وہی چہرے، وہی آوازیں — مگر اب وہ قہقہے صرف ایموجیز میں رہ گئے ہیں، اور ملاقاتیں صرف "آن لائن" کی صورت۔ دوستی اب بھی ہے، لیکن اب وہ صرف موبائل کی اسکرین پر جگمگاتی ہے، وہ گہرائی، وہ بےساختگی، وہ لمس... کہیں کھو گیا ہے۔

مگر ان خالص لمحوں، ان جذبات، اور ان بےلوث تعلقات کو ہمیشہ کے لیے امر کیا ہے فلموں کی موسیقی نے۔
کتنے ہی نغمے دوستی کو مقدس رشتہ بنا کر پیش کرتے ہیں — وہ گانے صرف دھنیں نہیں، بلکہ ہمارے بچپن، لڑکپن اور جوانی کی یادوں کا آئینہ ہیں۔ جب بھی وہ دھنیں بجتی ہیں، دل ماضی کی گلیوں میں لوٹ جاتا ہے، جہاں دوستی صرف لفظ نہیں، زندگی کا سب سے خوبصورت رنگ ہوا کرتی تھی۔

ذیل میں ہم دوست اور دوستی پر بنے ہوئے کچھ مشہور نغمے آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
سنیں، پڑھیں اور محسوس کریں کہ ہمارے شاعروں، موسیقاروں اور گلوکاروں نے دوستی جیسے پاکیزہ رشتے کو کس طرح لازوال گانوں میں ڈھالا ہے۔


???? "احسان میرے دل پہ تمہارا ہے دوستوں"
 فلم: گابن (1966)

???? "دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا"
 فلم: سنگم (1966)

???? "میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے"
 فلم: آئے دن بہار کے (1966)

???? "یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے"
 فلم: شعلے (1975)

???? "اے یار سن یاری تیری"
 فلم: سہاگ (1979)

???? "سلامت رہے دوستاں یہ ہمارا"
 فلم: دوستانہ (1980)

???? "میرے دوست قصہ یہ کیا یو گیاا"
 فلم: دوستانہ (1980)

???? "او ہمدم اور ساتھی مجھے تیری دوستی پہ ناز ہے " 
پاکستانی  فلم ساتھی( 1980 )

???? "تیرا جیسا یار کہاں"
 فلم: یارانہ (1981)

???? " زندگی امتحان لیتی ہے "
 فلم: نصیب 1981)

???? "دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے"
 فلم: آخر کیوں (1985)

???? "اے میرے دوست لوٹ کے آجا"
 فلم: سورگ (1990)

???? "تیری دوستی سے ملا ہے مجھے"
 فلم: پیار کا سایہ (1991)

???? " دوستی کرتے نہیں دوستی ہو جاتی ہے "
 فلم: آرزو (1999)

???? "دل چاہتا ہے ہم نہ رہیں یاروں کے بن"
 فلم: دل چاہتا ہے (2001)

???? "دوستی ایسا ناتا جو سونے سے بھی مہنگا"

???? "یاروں، یہی دوستی ہے"


???? " دوست کیا خوب وفائوں کا "
نصرت فتح علی خان

ان نغموں میں صرف محبت یا وفا کی بات نہیں ہوتی، بلکہ یہ دوستی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں —
کہیں دوستی کا حلف،
کہیں اس کی بےلوثی،
کہیں دوست کی جدائی کا درد،
کہیں دوستی میں ہوئی بےوفائی کا کرب،
اور کہیں اس خالص رشتے کی قیمت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

جب بھی یہ دھنیں بجتی ہیں، دل ماضی کی گلیوں میں لوٹ جاتا ہے، جہاں دوستی صرف ایک رشتہ نہیں بلکہ زندگی کا سب سے خوبصورت رنگ ہوا کرتی تھی۔


پہلے دوستی وقت مانگتی تھی، خلوص مانگتی تھی۔ آج کی دوستی سگنل، کنکشن، اور "ریڈ" کے بلیو ٹک پر منحصر ہے۔
دوستی اب بھی ہے، پر وہ پرانا رومانس نہیں رہا — وہ سائیکل کی سواری، چھپ کر فلم دیکھنا، ایک ہی گلاس سے کوک پینا — اب صرف یادوں اور تصویروں میں رہ گیا ہے۔
یہ تحریر اُن لمحوں کے لیے ہے جو سچے تھے، اور اُن دوستوں کے لیے جو بغیر شرط، بغیر فیس، بغیر سٹیٹس ساتھ چلتے تھے۔
آج بھی اگر دل کسی پرانے گانے پر دھڑک جائے، تو سمجھ لیجیے، وہ پرانی دوستی کہیں نہ کہیں اب بھی سانس لے رہی ہے۔

آپ کی زندگی میں دوستی سے جڑی کوئی خوبصورت یاد ہے؟
یا کوئی ایسا نغمہ جسے سنتے ہی آپ کو اپنے پرانے دوست یاد آ جاتے ہیں؟
تو کمنٹ سیکشن میں ضرور بتائیں۔
کیونکہ دوستی صرف جینے کا نام نہیں، بلکہ اسے بانٹنے کا بھی نام ہے۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دوستوں کے ہوتی تھی کر کھاتے کے ساتھ اب بھی

پڑھیں:

دل میں خوف سا، کیوں ہے بھائی

حمایت علی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے

اک دن نکل نہ جاؤں ذرا اپنے آپ سے

ڈر، اندیشہ اور خدشہ، سب کی منزل خوف ہی ہوتی ہے۔ خوف، ایک چھوٹا سا لفظ کسی بھی انسان کی زندگی کو بدل کے رکھ دیتا ہے، کبھی یہ ڈراتا ہے تو کبھی کسی بڑے خطرے سے بھی آگاہ کرتا ہے۔

انسان کو کسی بھی چیز یا احساس سے خوف آ سکتا ہے، مگر کسی انسان کا خوف کسی دوسرے انسان کے لیے دلچسپی یا حیرانی کا سبب بھی بن سکتا ہے، کیسے آیئے ایک نظر ڈالتے ہیں۔

سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں اونچائی کا، کسی کے لیے بلندی میں ایک کشش ہے تو کئی افراد کو اونچائی پر چڑھنے کی سوچ ہی ایک انجانے خوف میں گھیر لیتی ہے، کوہ پیماؤں کو ہی دیکھ لیں، اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر بلند اور خطرناک چوٹیاں سر کرتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں، پیسہ اپنی جگہ مگر شوق اور جنون نہ ہو تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔

کچھ افراد کو تو اونچائی سے اتنا خوف آتا ہے کہ ان کا یہ ڈر خوبصورت تفریحی مقامات پر جانے کے شوق پر بھی حاوی ہو جاتا ہے اور وہ دلفریب تفریحی مقامات حقیقت میں دیکھنے سے محروم ہی رہتے ہیں۔

جھولے، بچوں کے لیے ایک سستی اور بہترین تفریح ہوتی ہے، مگر اس سے بھی کئی افراد کو خوف آتا ہے اور زیادہ تیزی سے جھولا لینے سے تو انہیں اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوتا ہے۔

پنکھا گرمی میں ہر کسی کا خوب ساتھ نبھاتا ہے، مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ بعض افراد کو چلتے پنکھے سے بھی خوف آتا ہے، یہ خوف  کہ کب پنکھا ان پر گر جائے، انہیں سکون سے سونے بھی نہیں دیتا۔

لفٹ بہت کام کی چیز ہے، کوئی بھی اونچی عمارت ہو یا پلازہ، اس کے بغیر تعمیر نامکمل سمجھتی جاتی ہے، پلک جھپکتے ہی ایک منزل سے دوسرے منزل تک پہنچائے، کئی افراد کو اس عجوبے سے بھی خوف آتا ہے، سیڑھیاں چڑھ لیتے ہیں، سانس پھلا لیتے ہیں مگر لفٹ میں نہیں بیٹھتے، لفٹ پھنسنے کی خبریں اور واقعات ان کے خوف میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔

پانی زندگی ہے مگر یہ ہی پانی اکثر خطرناک بھی ہو جاتا ہے، سمندر یا پھر بپھرے دریا کئی افراد کی موت کا سبب بن چکے ہیں، بپھرا دریا یا سمندر، ان سے دور ہی رہنا چاہیے مگر دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں، جو ساکت پانی سے بھی خوف کھاتے ہیں۔

کسی نہر یا دریا میں کشتی کی سیر ان کے لیے کسی خوفناک خواب سے کم نہیں ہوتی اور ان کی کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ مجبوری میں بھی کشتی کا سفر نہ کریں۔

ٹرین میں سفر کے دوران سرنگ سے گزرنا سب کے لیے ہی دلچسپی کا سبب ہوتا ہے، مگر روزمرہ زندگی میں اندھیرے سے گزرنا بہت سے افراد کے لیے انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے، اندھیرے میں تو کئی افراد کے لیے تو اپنے گھر میں چھت پر جانا بھی کسی مہم سے کم نہیں ہوتا۔

احمد ندیم قاسمی نے کیا خوب کہا ہے

آج کی رات بھی تنہا ہی کٹی

آج کے دن بھی اندھیرا ہوگا

کئی افراد کے لیے جہاز کا سفر معمول ہوتا ہے، ابھی ایک شہر یا ملک میں تو اگلے دن ہی کہیں اور ۔۔۔ دنیا میں ایسے افرد کی بھی کمی نہیں، جنہیں جہاز کے سفر سے بھی خوف آتا ہے۔ سفر کے دوران یہ خوف ہی لاحق رہتا ہے کہ کب کوئی حادثہ ہی نہ پیش آ جائے اور جہاز گرنے کے واقعات تو ان کے خوف میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔

اللہ ہر حادثے سے بچائے مگر جہاز کے سفر سے خوف سے ملتا جلتا یہ چھوٹا سا لطیفہ ہی پڑھ لیں ،

ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے کہ تم اتنے امیر ہو، مگر جہاز میں سفر کیوں نہیں کرتے، ریل گاڑی میں کیوں جاتے ہو

دوسرا بولا، اگر خدا نخواستہ ٹرین کا حادثہ ہو جائے تو

Here Are You

لیکن اگر، ہوائی جہاز حادثے کا شکار ہو جائے تو

Where Are You

بیماری ہر کسی کے لیے پریشانی ہی لاتی ہے، مگر آپ کی زندگی میں یقیناً ایسے افراد بھی آئے ہوں گے، جو کسی کی معمولی بیماری  کا بھی سن کر آگے، بہت آگے کا سوچتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ ہی خیال آتا ہے کہ اس بیمار شخص نے بچنا ہی نہیں ہے۔

دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں، جو بے خطر اور معصوم جانوروں اور پرندوں سے اپنی جان سے زیادہ پیار کرتے ہیں، مگر ان سے ڈرنے والے بھی آپ کو مل ہی جائیں گے، جیسے بلی کو ہی لے لیجئے، ایسے افراد بھی اس جہاں میں ہیں جو ایسے  گھر میں داخل ہونے سے سو بار سوچتے ہیں جہاں بلیاں موجود ہوں، کاکروچ، چھپلکی یا پھر مینڈک، ان سے ڈرنے والے بھی بہت ہیں، وہ ایسے کمرے میں اس وقت تک قدم نہیں رکھتے جب تک یہ ایسے حشرات یا جانور اپنی جگہ بدل نہ لیں۔

کبھی آپ نے سنا کہ کوئی شخص اپنے سائے سے ڈر جائے، جی جناب، ایسے افراد بھی ہیں اس جہاں میں، جنہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ کئی ایسے افراد بھی ہیں جو بہت زیادہ آئینہ بھی نہیں دیکھ سکتے۔

نارمل اور صحت مند زندگی گزارنے کے لیے نیند بہت ضروری ہے مگر سونے سے بھی بہت لوگوں کو خوف آتا ہے، انہیں یہ ہی وسوسہ ستاتا ہے کہ اگر وہ سو گئے تو اٹھ نہیں پائیں گے اور ان کی آنکھ بھی بار بار کھل جاتی ہے، بعض افراد کو کسی بھی امتحان یا انٹرویو سے پہلے بھی ایک خوف گھیر لیا ہے۔ وہ یہ ہی سمجھتے ہیں کہ وہ اس امتحان میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔

منیر نیازی نے کہا تھا کہ میرا خوف ہی میری طاقت ہے، ان کی شاعری میں بھی جگہ جگہ ڈر یا خوف نظر آتا ہے،

یہ شعر ہی پڑھ لیجیے

دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر

آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر

خوف یا ڈر کا مثبت پہلو دیکھیں تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کئی معاملات میں ہمیں کسی خطرے سے بھی آگاہ کر رہا ہوتا ہے، جیسے تیز رفتار گاڑی آتی دیکھ کر دماغ ہمیں رکنے کا سگنل دیتا ہے، امتحان کا خوف ہمیں مزید محنت کرنے کی جانب راغب کرتا ہے۔

خوف ایک فطری احساس ہے لیکن اگر یہ حد سے بڑھ جائے، تو یہ ہمارے لیے مشکلات بھی کھڑی کر سکتا ہے، جس خوف سے چھٹکارا پانا ممکن ہو، اس کی کوشش ضرور کرنی چاہیے، اپنے پیاروں سے بات کرنا بھی مفید ہو سکتا ہے۔

اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ ڈر یا خوف ہماری زندگی کا حصہ ہے مگر وہ کہتے ہیں نا ’جو ڈر گیا، وہ مر گیا‘۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

احمد ندیم قاسمی ڈر منیر نیازی

متعلقہ مضامین

  • اب تو سوچ بدلیں کہ دنیا بدل گئی!
  • مودی مشکل میں
  • کومل میر کو کون اپنی بہو بنانا چاہتا ہے؟ یشما گل کا انکشاف
  • کیا آپ بھی چیٹ جی پی ٹی سے دل کی باتیں کرتے ہیں؟
  • ملک ٹرمپ سے نریندر مودی کی دوستی کا خمیازہ بھگت رہا ہے، کانگریس
  • بنگلادیشی فاسٹ بولر کے خلاف دوست نے پولیس میں مارپیٹ کی شکایت درج کرادی
  • دل میں خوف سا، کیوں ہے بھائی
  • اسرائیل کا مقصد عرب ممالک سے دوستی نہیں بلکہ ان پر قبضہ کرنا ہے، سعودی اخبار
  • چیئرمین سی ڈی اے کی زیر صدارت اجلاس، ڈپلومیٹک انکلیو کی شاہراہوں پر خوبصورت لینڈ سکیپنگ اور ماحول دوست شجرکاری کی ہدایت
  • کومل میر کو کون اپنی بہو بنایا چاہتا ہے؟ یشما گل کا انکشاف