Express News:
2025-06-16@03:48:55 GMT

دوستیاں، یادیں اور گانے — ایک ناستلجک سفر

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

کبھی دوستی کسی موبائل پر سینڈ کی گئی رِیل نہیں ہوتی تھی، بلکہ وہ ایک سادہ سی مسکراہٹ میں چھپی ہوتی تھی — آدھی پلیٹ بریانی بانٹنے میں، اسکول کی کاپی پر ایک دوسرے کے نام لکھنے میں، اور ایک ہی رنگ کے کپڑے، چشمے، اور گھڑیاں پہننے میں۔

دوستی وہ ہوتی تھی جو خواب بھی ایک جیسے دیکھتی تھی۔ اُس وقت "دوست" صرف ایک لفظ نہیں، بلکہ ایک پوری کائنات ہوا کرتا تھا۔

پہلے زمانے کی دوستیاں خالص ہوتی تھیں — نہ کسی لائک کی طلب، نہ کسی سین یا ویو کا انتظار۔ وہ وقت کسی ہارٹ ایموجی سے نہیں بلکہ دل کی دھڑکن سے جُڑا ہوتا تھا۔ ہم چُھپ کر تصویریں نہیں کھینچتے تھے، بلکہ ہاتھ تھام کر وہ تصویریں بناتے تھے جو دل پر چھپتی تھیں۔

بچپن میں دوستوں کے ساتھ کنچے، گلی ڈنڈا، لٹو اور پتنگ بازی کرتے۔ کھیل کے دوران جھگڑے بھی ہوتے مگر چند لمحوں بعد سب کچھ بھول کر ایک ہو جاتے۔ اسکول کے باہر حلیم کے ٹھیلے سے ایک پلیٹ حلیم اور دو روٹیاں لیتے اور مل کر کھاتے — وہی لمحے عید کی خوشی جیسے ہوتے۔

بارش ہو جاتی تو خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ گلی میں پانی بہہ رہا ہوتا، اور ہم پرانے ٹائر کو دوڑاتے، چیختے چلاتے گلیوں میں بھاگتے۔ بارش کے بعد ہم "بھیمری" پکڑتے — وہ چھوٹی ہوائی جہاز جیسی چیز جو درختوں پر یا دیواروں کے ساتھ چپکی ہوتی تھی۔ ہم اس کی دم میں دھاگہ باندھتے اور اسے ہوا میں گھماتے۔ وہ گھومتی، گنگناتی، اور ہمارے بچپن کی فضاؤں کو موسیقی بخشتی۔

 

یہ سب کچھ معمولی لگتا ہے، مگر آج جب یاد آتا ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور دل کہتا ہے:

"کاش وہ دن لوٹ آئیں.

.. وہ دوست، وہ کھیل، وہ بارشیں، وہ بےفکری!"

عید سے کچھ دن پہلے دوستوں کو کارڈز دیے جاتے۔ لڑکے ایک دوسرے کو فلمی ہیروز کے پوسٹ کارڈ دیتے، جیسے کوئی بڑا تحفہ ہو۔ پھر جیسے جیسے عمر بڑھی، کرکٹ، فٹبال اور ہاکی نے جگہ لے لی۔ گرمیوں کی راتوں میں بجلی چلی جاتی تو چھپن چھپائی کھیلنے نکل جاتے — تب "امپریس" یا "بھنڈا" جیسے الفاظ کے معنی نہیں معلوم ہوتے تھے، مگر دل کی نیت صاف ہوتی تھی۔

کرکٹ کے میچ میں پچاس پیسے کی آئس کریم کی شرط لگتی تو جی جان سے کھیلا جاتا۔ کبھی لسی کی شرط ہوتی، جو اُس وقت چار روپے کی مل جاتی تھی۔

روز سائیکل پر بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ لائبریری جانا، آڈیو کیسٹس خریدنا ،بغیر بلائے خوب تیار ہو کر شادی ہال میں جا کر کھانا کھانا، ہوٹل میں ایک پلیٹ نہاری تین دوست مل کر کھاتے اور تین بار گریوی ڈلواتے —گھر سے دور جا کر سگریٹ پیتے۔ یہ سب یادیں نہیں، زندگی کا حاصل تھیں۔

سوسائٹی میں عید میلادالنبی ﷺ، جشنِ آزادی، اور دفاعِ پاکستان پر خود پروگرام کرتے، دوستوں کے ساتھ ملیر ندی تک پیدل جاتے اور امرود توڑ کر کھاتے۔ راتوں کو تاش کی محفلیں جمتی تھیں، ون ڈِش پارٹیاں ہوتیں، کبھی کسی کی مرغی چوری کر کے گھرکے باہر پکائی جاتی — زندگی میں ذائقہ تھا، رنگ تھے، شرارتیں  تھی، بےفکری تھی۔

پکنک بھی سادہ ہوتی — ملیر سٹی سے کلری جھیل جانے والی بس میں بیٹھ کر جاتے، راستے سے کھانا خریدتے اور قدرتی مناظر کے درمیان بیٹھ کر کھاتے۔ آج ہزاروں روپے خرچ کر کے بھی وہ مزہ نصیب نہیں ہوتا۔

دوست آج بھی ہیں...
وہی نام، وہی چہرے، وہی آوازیں — مگر اب وہ قہقہے صرف ایموجیز میں رہ گئے ہیں، اور ملاقاتیں صرف "آن لائن" کی صورت۔ دوستی اب بھی ہے، لیکن اب وہ صرف موبائل کی اسکرین پر جگمگاتی ہے، وہ گہرائی، وہ بےساختگی، وہ لمس... کہیں کھو گیا ہے۔

مگر ان خالص لمحوں، ان جذبات، اور ان بےلوث تعلقات کو ہمیشہ کے لیے امر کیا ہے فلموں کی موسیقی نے۔
کتنے ہی نغمے دوستی کو مقدس رشتہ بنا کر پیش کرتے ہیں — وہ گانے صرف دھنیں نہیں، بلکہ ہمارے بچپن، لڑکپن اور جوانی کی یادوں کا آئینہ ہیں۔ جب بھی وہ دھنیں بجتی ہیں، دل ماضی کی گلیوں میں لوٹ جاتا ہے، جہاں دوستی صرف لفظ نہیں، زندگی کا سب سے خوبصورت رنگ ہوا کرتی تھی۔

ذیل میں ہم دوست اور دوستی پر بنے ہوئے کچھ مشہور نغمے آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
سنیں، پڑھیں اور محسوس کریں کہ ہمارے شاعروں، موسیقاروں اور گلوکاروں نے دوستی جیسے پاکیزہ رشتے کو کس طرح لازوال گانوں میں ڈھالا ہے۔


???? "احسان میرے دل پہ تمہارا ہے دوستوں"
 فلم: گابن (1966)

???? "دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا"
 فلم: سنگم (1966)

???? "میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے"
 فلم: آئے دن بہار کے (1966)

???? "یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے"
 فلم: شعلے (1975)

???? "اے یار سن یاری تیری"
 فلم: سہاگ (1979)

???? "سلامت رہے دوستاں یہ ہمارا"
 فلم: دوستانہ (1980)

???? "میرے دوست قصہ یہ کیا یو گیاا"
 فلم: دوستانہ (1980)

???? "او ہمدم اور ساتھی مجھے تیری دوستی پہ ناز ہے " 
پاکستانی  فلم ساتھی( 1980 )

???? "تیرا جیسا یار کہاں"
 فلم: یارانہ (1981)

???? " زندگی امتحان لیتی ہے "
 فلم: نصیب 1981)

???? "دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے"
 فلم: آخر کیوں (1985)

???? "اے میرے دوست لوٹ کے آجا"
 فلم: سورگ (1990)

???? "تیری دوستی سے ملا ہے مجھے"
 فلم: پیار کا سایہ (1991)

???? " دوستی کرتے نہیں دوستی ہو جاتی ہے "
 فلم: آرزو (1999)

???? "دل چاہتا ہے ہم نہ رہیں یاروں کے بن"
 فلم: دل چاہتا ہے (2001)

???? "دوستی ایسا ناتا جو سونے سے بھی مہنگا"

???? "یاروں، یہی دوستی ہے"


???? " دوست کیا خوب وفائوں کا "
نصرت فتح علی خان

ان نغموں میں صرف محبت یا وفا کی بات نہیں ہوتی، بلکہ یہ دوستی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں —
کہیں دوستی کا حلف،
کہیں اس کی بےلوثی،
کہیں دوست کی جدائی کا درد،
کہیں دوستی میں ہوئی بےوفائی کا کرب،
اور کہیں اس خالص رشتے کی قیمت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

جب بھی یہ دھنیں بجتی ہیں، دل ماضی کی گلیوں میں لوٹ جاتا ہے، جہاں دوستی صرف ایک رشتہ نہیں بلکہ زندگی کا سب سے خوبصورت رنگ ہوا کرتی تھی۔


پہلے دوستی وقت مانگتی تھی، خلوص مانگتی تھی۔ آج کی دوستی سگنل، کنکشن، اور "ریڈ" کے بلیو ٹک پر منحصر ہے۔
دوستی اب بھی ہے، پر وہ پرانا رومانس نہیں رہا — وہ سائیکل کی سواری، چھپ کر فلم دیکھنا، ایک ہی گلاس سے کوک پینا — اب صرف یادوں اور تصویروں میں رہ گیا ہے۔
یہ تحریر اُن لمحوں کے لیے ہے جو سچے تھے، اور اُن دوستوں کے لیے جو بغیر شرط، بغیر فیس، بغیر سٹیٹس ساتھ چلتے تھے۔
آج بھی اگر دل کسی پرانے گانے پر دھڑک جائے، تو سمجھ لیجیے، وہ پرانی دوستی کہیں نہ کہیں اب بھی سانس لے رہی ہے۔

آپ کی زندگی میں دوستی سے جڑی کوئی خوبصورت یاد ہے؟
یا کوئی ایسا نغمہ جسے سنتے ہی آپ کو اپنے پرانے دوست یاد آ جاتے ہیں؟
تو کمنٹ سیکشن میں ضرور بتائیں۔
کیونکہ دوستی صرف جینے کا نام نہیں، بلکہ اسے بانٹنے کا بھی نام ہے۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دوستوں کے ہوتی تھی کر کھاتے کے ساتھ اب بھی

پڑھیں:

بجٹ:مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ہم بجٹ کا ڈی این اے تبدیل کریں گے تاہم ان کے اس فرمان کے باوجودوہ جو صبح شام مزدوری کرتا ہے، گلیوں میں ریڑھیاں لگاتا ہے، فیکٹریوں میں کام کرتا ہے، بجٹ 2025 میں اس کے لیے اتنا ہی ہے جتنا اسپتالوں میں بوتل بھر خون نکالنے کے بعد جوس کا ایک ڈبہ پکڑا دیا جاتا ہے۔ بجٹ کا ایک آنریری پہلو یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمارا بجٹ بناتے وقت بال اور بھویں مونڈنے کا اپنا شغف برقرار رکھا ہے۔ حکومت کے پاس گنجائش ہی نہیں تھی کہ اپنے ’’استعماری باوا‘‘ پر نظریں جمائے رکھنے کے علاوہ ادھر ادھر دیکھے۔ اس نیک چلنی کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو جس طرح فرہاد کی نظر سے دیکھے گا اس کے بعد 7 ملین ڈالر ملیں ہی ملیں۔ جس کے بعد ورلڈ بینک، سعودیہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور باقی دنیا سے بھی ہاتھ جوڑے بغیر قرض مل جائے گا۔ غریبوں کے کالے بال سفید ہو جائیں بجٹ میں اس کا پورا اہتمام موجود ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی طبیعت ایسی چونچال ہے جیسے غریب پر اس سے زیادہ احسان کسی نے کیا ہی نہ ہو:
ہم آخری گلاب ہیں دنیا کی شاخ پر
ترسیں گے ہم کو لوگ یہ اگلی بہار میں
اگر دل میں شریف برادران اور فوج سے بغض نہ ہو تو بجٹ کے معاملے میں حکومت کو کانٹوں پر گھسیٹنے اور دُر دُر ہُش ہُش کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں کیونکہ پچھلے عمرانی نیک بختوں نے کچھ چھوڑا ہی نہیں تھا سوائے پاکستان کو دیوالیہ کرنے کے۔ شہباز حکومت کا یہی کارنامہ بہت بڑا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پر بھی ڈال دیا لیکن بجٹ میں منظر نامے کو جتنا خوشگوار بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ غلط ہے، ایسا تب ہی ممکن ہے جب طوائف کے ہاتھ کی گلوری کھا کر دنیا کو دیکھا گیا ہو۔ ڈھائی تین فی صد جس گروتھ کا دعویٰ کیا گیا ہے اس پر سہرا بندھائی دینے کو دل کرتا ہے لیکن یہ غلط بیانی ہے، گروتھ حد سے حد ڈیڑھ فی صد تک پہنچی ہے۔ پانچ فی صد تک گروتھ لے جانے کے دعووںکا جہاں تک تعلق ہے حکومت کتنے ہی نئے اقدامات کرلے، قوانین منظور کرلے، دھمکیاں دے لے، سخت فیصلے کرلے، ٹیکس جمع، سبسڈیز کا خاتمہ اور اخراجات میں کٹوتیاں کرلے ایسا ممکن نہیں۔ گروتھ دو فی صد تک ممکن ہے۔
بجٹ پیش کرنے کے بعد اگلا مرحلہ بحث کا ہوتا ہے۔ بغیر بجٹ کے اپنی تنخواہوں میں چار سو فی صد اضافہ کرنے والے اراکین اسمبلی اب غریب ملازمین کی تنخواہیں دس فی صد بڑھانے پر بحث کریں گے۔ نوم چو مسکی نے کہا تھا ’’بجٹ کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ حکومت کو اصل میں کیا چیز عزیز ہے‘‘۔ حکومت کو سب سے زیادہ عزیز غربت کا خاتمہ ہے۔ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں وزراء، اسپیکرز، ڈپٹی اسپیکرز، وزراء اور دیگر اہم عہدیداروں کی غربت کا خاتمہ۔ جن کی تنخواہوں اور مراعات میں چار سو پانچ سو فی صد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ نیک بختو! اسی بات سے تو حکومت کو گالی پڑتی ہے۔ عوام اور مڈل کلاس میڈیا کو اپنے پیچھے لگانے کی اس سے بہتر کوئی ترکیب نہیں۔ جن کے لیے حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ جن کے لیے زندگی گزارنا ہارٹ اٹیک سے کچھ لمحے پہلے والی کیفیت ہوکر رہ گئی ہے۔ پھر حکومت نے غریبوں کے فائدے کی ہر چیز پر ٹیکس لگادیا ہے۔ بلکتے تڑپتے لوگوں نے بجلی کے بلوں سے بچنے کے لیے سولر لگوائے حکومت نے اس پر بھی 18 فی صد ٹیکس لگادیا۔ سولر سپلائرز سے جو بجلی حکومت 27 روپے فی یونٹ خریدتی اسے 10 روپے فی یونٹ کردیا گیا ہے۔ بینکوں سے رقم نکلوانے پر بھی ٹیکس لگادیے گئے ہیں۔ آن لائن خریداری پر بھی 18 فی صد ٹیکس لگادیا گیا ہے۔
اراکین اسمبلی، وزراء اور دیگر اہم عہدیداروں کی تنخواہوں میں اضافے پر حکومت نے جو چنچل سُر لگایا ہے اس نے محفل کو مزید پھڑکا کر رکھ دیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس اضافے کا نوٹس لے لیا ہے۔ سب کو علم ہے نوٹس تو نوٹس بورڈ پر ہی لگا رہے گا اضافہ چھم چھم کرتا بینکوں میں ٹرانسفر ہو جائے گا۔ یہ نوٹس ایسا ہی ہے جیسے بارش کے بعد چھتری کھولنا۔ اگر نوٹس لینے ہی سے مسئلے حل ہوجاتے تو ڈاکٹر مریضوں کو دوائوں کے نسخے دینے کے بجائے نوٹس دیتے، ڈاکو واردات کے بعد مظلوموں کے ساتھ سیلفی لے کر ڈاکا ڈالنے پر افسوس کا اظہار کرتے، قصائی بکرا ذبح کرنے کے بعد بکرے کی آنکھ میں پائے جانے والے آنسو پر افسوس کرتے۔ کتنا ہی دانتوں اور ہونٹوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا جائے طوائفوں کے محلے میں کھائے گئے کباب اور پیاز کے بھبکے اور پان کا رچائو نہیں جاتا۔
بجٹ میں حکومت نے ایک اور بڑا کارنامہ جو انجام دیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک غریب مزدور کوئی چیز خریدے گا اس پر بھی اتنا ہی ٹیکس ہے اور ایک ارب پتی خریدے گا اس پر بھی اتنا ہی ٹیکس ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کے ذریعے غریبوں اور امیروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ یہ وہ ترکیب ہے جو کثرت استعمال سے گھس گھس کر استرا بن گئی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے روٹی پر بھی ٹیکس ہو اور سانس لینے پر بھی۔ امیر تو یہ ٹیکس با آسانی اداکرکے زندہ رہ سکتے ہیں لیکن غریبوں کی زندگی ایک ایسی انوائس اور مالیاتی بل بن جاتی ہے جہاں ہر کام، ہر سانس، ہر نوالے، ہر حرکت، ہر خرید اور ہر استعمال پر ٹیکس دینا پڑتا ہے چاہے پیٹ کاٹ کردیں یا قرض لے کر۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکس ہوں اور وہ بھی امیروں پر، استطاعت رکھنے والوں پر نہ کہ غریبوں پر۔
بجٹ بہروپ نگر کا وہ طلسم ہے جس کے بعد ہر طرف دھواں ہی دھواں ہوتا ہے۔ ہر کوئی حکومت کے منہ پر کالک پوت رہا ہوتا ہے۔ ہم اس کالک اور بجٹ پر تبصروں کا کئی دن سے مطالعہ کررہے ہیں۔ تمام تبصروں میں آئی ایم ایف، عوام کے معاشی گلا گھونٹنے، اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں، حکمرانون کی عیاشیوں، مہنگائی، غربت میں اضافے، قرض، کرپشن، اشرافیہ کی سہولتوں میں اضافے، حکمران طبقے کی تنخواہوں میں اضافے اور عالمی مالیاتی اداروں کے ظلم وستم کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہیں بھی حتیٰ کہ دینی جماعتوں کے بیش تر تبصروں میں بھی 8200 ارب روپے کے سود کی مد میں ادائیگیوں پر کم ہی لعن طعن کی گئی تھی جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ ہے۔ سود کوئی چھوٹا گناہ نہیں ہے۔ ایک اسلامی ملک میں جہاں روزانہ پانچ وقت اللہ اکبر کی صدائوں میں مسلمانوں کو فلاح کے راستے کی نشاندہی کی جارہی ہو وہاں حکمران اتنا بڑا گناہ کررہے ہوں اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کررہے ہوں۔ یہ پہلی حکومت نہیں ہے جو ایسا کررہی ہے۔ حکومتیں فوجی ہو یا سویلین سب اس گناہ میں لتھڑی ہوئی ہیں۔
چھوٹے چھوٹے مسائل، فروعی اختلافات پر خوب بحثیں چل رہی ہوتی ہیں فتوی بٹ رہے ہوتے ہیں لیکن اتنے گھنائونے جرم پر کہیں کوئی تحریک نہیں۔ خاموشی ہی خا موشی۔ جیسے سود کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ایسے میں عالمی معاہدوں میں سود کی ادائیگی کی مجبوری کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اسلام میں ایسے کسی معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں جو اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی پر مبنی ہو۔ سود کے لیے یہ جواز دینا شرعاً ناجائز ہے۔ اگر ہماری حکومتیں ملک کی معیشت درست کرنا چاہتی ہیں تو اللہ کی آخری کتاب کی اس آیت پر غور کریں کہ ’’جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا میں اس کی معیشت تنگ کردوں گا‘‘۔ (طہ: 124) یہ ممکن نہیں کہ ایک ایسا بجٹ جس میں 47 فی صد اخراجات اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے لیے مختص ہوں وہ ملک وقوم کو فلاح دے سکے۔

متعلقہ مضامین

  • ساحر
  • بجٹ:مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
  • بجٹ اور ہم
  • پنجاب کا عوام دوست بجٹ کل صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا
  • ماحولیاتی معیارپرپورااترنیوالی گاڑیوں پر چیکنگ کےبعدماحول دوست سٹیکر چسپاں
  • سنت ابراہیمی
  • فلم ’لو گرو‘ کے گانے میں رمشا خان کی پرفارمنس کے چرچے
  • لو گرو؛ ‘رات کے سائے’ گانے میں رمشا خان کے رقص کے چرچے
  • وسطی ایشیا سے محبت” 2025 – چائنا میڈیا گروپ کے اعلی معیار کے فلم اور ٹیلی ویژن پروگراموں کی نشریات و نمائش کا آستانہ میں آغاز