برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کی پہلی خاتون سربراہ کون ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ کی غیر ملکی انٹیلیجنس سروس یعنی ایم آئی6 کی سربراہی کے لیے بلیز میٹریویلی کا تقرر کیا گیا ہے۔ وہ برطانوی خفیہ ایجنسی کی 18ویں سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی۔
بلیز میٹروویلی 1999 سے ایم آئی6 کا حصہ ہیں اور اس وقت ٹیکنالوجی اور جدت سے متعلق شعبہ ’کیو سیکشن‘ کی سربراہی کر رہی ہیں، انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے سوشیالوجی کی تعلیم حاصل کی، اور مشرق وسطیٰ اور یورپ میں خفیہ آپریشنز میں حصہ لیا ہے، وہ برطانیہ کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی ایم آئی5 میں بھی مختلف عہدوں پر کام کر چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
اپنی نامزدگی پر بلیز میٹریویلی کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی سروس کی قیادت کا موقع ملنے پر فخر اور اعزاز محسوس ہو رہا ہے۔ ’ایم آئی5 اور جی سی ایچ کیو کے ساتھ مل کر ایم آئی6 برطانوی عوام کو محفوظ رکھنے اور ملک کے مفادات کو بیرونِ ملک فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ یہ تقرری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب برطانیہ کو بے مثال نوعیت کے خطرات مثلاً دشمن ممالک کی جاسوس کشتیوں کی موجودگی یا سائبر حملوں کا سامنا ہے۔
سابق سربراہ سر رچرڈ مور، جنہوں نے 2020 میں عہدہ سنبھالا تھا، تقریباً 5 سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد سبکدوش ہو رہے ہیں, وہ ایک سفارتکار کی حیثیت سے ترکیہ میں برطانیہ کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔
مزید پڑھیں:
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ایم آئی5 اور جی سی ایچ کیو کی قیادت پہلے بھی خواتین سنبھال چکی ہیں، مگر ایم آئی6 کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے، اس تقرری کو بعض مبصرین نے ’زندگی میں فن کی عکاسی‘ قرار دیا ہے — جیسا کہ فلموں میں جیمز بانڈ کی باس یعنی ایم کا کردار، جسے طویل عرصے تک جوڈی ڈینچ نے نبھایا تھا۔
بلیزمیٹریویلی کا موجودہ کردار ایم آئی6 کے کیو برانچ کی سربراہی ہے، وہی کیو جسے جیمز بانڈ فلموں میں نئی ٹیکنالوجی فراہم کرنے والے ماہر کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایم آئی5 ایم آئی6.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایم ا ئی5 ایم ا ئی6 ایم ا ئی6 ایم ا ئی5
پڑھیں:
ایران پر اسرائیلی حملہ اسرائیل کے ساتھ امریکا بھی ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اب بھی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسرائیل اکیلا ایران پر حملہ کیسے کر سکتا ہے ۔ایران نے آئی اے ای اے کی قرارداد کو ’سیاسی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور کہا کہ وہ یورینیم افزودگی کے لیے ایک نیا مرکز کھولے گا۔یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ٓآئی اے ای اے میں میں قرار داد پیش کر نے واکے ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکا کی جانب سے ایران حملہ کر نے کے اعلان کے باوجود اسرائیل سے ایران پر حملہ کرانے ضرورت کیوں پیش آئی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ٓآئی اے ای اے میں کسی بھی قرارداد پر حملہ کرنے سے قبل اس قرارداد کی منظوری سلامتی کونسل سے ضروری ہے ۔ اے ای اے کی قراردار میں ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، اس سلسلے میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ یہ یورینیم جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔جوہری توانائی اور یورینیم افزودگی کے عالمی نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے ایران کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کی منظوری دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہا ہے۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے 35 رکنی بورڈ آف گورنرز نے منظور کیا، جن میں 19 ارکان نے اس کی حمایت میں، تین نے مخالفت جس میں روس شامل ہیں اور چین جبکہ 11 ممالک نے غیر جانبداری اختیار کی جبکہ دو ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ایران کے خلاف جمعرات 12جون کو منظور کی جانے والی اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایران حالیہ برسوں میں اپنے جوہری پروگرام میں نمایاں تیزی لایا ہے، خاص طور پر اس تاریخی معاہدے کے بعد جس کے تحت عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پایا تھا کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرے گا اور بدلے میں اس پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم کی جائیں گی۔لیکن 2018 میں ٹرمپ کی سابق حکومت نے اس سے یکطرفہ طور پر اس سے دستبردار ہو گیا تھا۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ ’بورڈ آف گورنرز اعلان کرتا ہے کہ سنہ 2019 سے ایران میں متعدد خفیہ مقامات پر غیر اعلانیہ جوہری سرگرمیوں کے بارے میں ایجنسی کے ساتھ مکمل اور بروقت تعاون فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ایران کی متعدد ناکامیاں، بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ حفاظتی معاہدے کے تحت ذمہ داریوں کی عدم تعمیل ہے۔‘
مئی کے وسط تک ویانا میں قائم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایران کے افزودہ یورینیم کا مجموعی ذخیرہ 9,247.6 کلوگرام تھا، جو 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ حد سے 45 گنا زیادہ ہے۔ان ذخائر میں سے تقریباً 408.6 کلوگرام یورینیم 60 فیصد تک افزودہ کیا جا چکا ہے، جو 90 فیصد کی اس سطح کے بالکل قریب ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی تعریف کے مطابق، ایران کے پاس اب تقریباً اتنا افزودہ مواد موجود ہے کہ اگر اسے مزید خالص کیا جائے تو تقریباً 10 جوہری بم تیار کیے جا سکتے ہیں۔قراردار میں ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جسے جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے آئی اے ای اے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایران کے پاس 60 فیصد تک خالص یورینیم افزودہ ہے، جو کہ ممکنہ طور پر نو جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک خط بھیجا تھا جس میں ایران کی جانب سے یورپی ممالک کے بیانات کو مسترد کیا گیا تھا۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باغی نے اپنے ردعمل میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی ایران کے خلاف قرارداد کی ’مذمت‘ کی ہے۔اسماعیل باغی نے اس قرارداد کو ’ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کو استعمال کرنے کا ایک ذریعہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس قرارداد کا مقصد ’ایران کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت پر شکوک شبہات پیدا کرنا ہے۔‘
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے ایران کے خلاف قرارداد کے بعد ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلمی نے کہا کہ یہ قرارداد تہران پر ’دباؤ ڈالنے‘ کے لیے منظور کی گئی ہے تاکہ ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘ کی جا سکے۔اْن کا کہنا تھا کہ ’ہم جو مشاہدہ کر رہے ہیں وہ تین یورپی ممالک کی سیاسی کارروائیوں کا ایک سلسلہ ہے، جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہیں، اور ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل بااثر صیہونی حکومت کی خدمت کر رہے ہیں تاکہ ہم پر پابندیوں کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ایران کا اصرار ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں مکمل طور پر پرامن ہیں اور وہ کبھی بھی جوہری ہتھیار بنانے یا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
یاد رہے کہ چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے ایک تاریخی معاہدے کے تحت، ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے اور آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی طرف سے مسلسل اور مضبوط نگرانی کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور اس کے بدلے اقتصادی پابندیوں میں نرمی حاصل کی تھی۔
ایران کا کہنا تھا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے ’این پی ٹی‘ کے تحت آئی اے ای اے کے ساتھ دیگر حل طلب معاملات پر بھی مدد دینے کو تیار ہے۔تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 ء میں اپنی پہلی مدت کے دوران اس جوہری معاہدے کو ترک کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس معاہدے نے ایران کو ایٹمی بم بنانے سے روکنے کے لیے بہت کم کام کیا اور اس کے بعد امریکانے ایران پر عائد پابندیوں کو مزید سخت کر دیا تھا۔
ایرانی مسلح افواج کے سربراہ محمد باقری شہید
پاسدران انقلاب کی ایرو سپیس فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ شہید