پنجاب کا53 کھرب 35 ارب روپے کا بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 جون ۔2025 ) پنجاب کے وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمان نے مالی سال 2025-26 کے لیے 53 کھرب 35 ارب روپے کا بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا ہے مجموعی بجٹ میں سے 27 کھرب 6 ارب روپے غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں جن میں پنشن اور تنخواہیں شامل ہیں انہوں نے بتایا کہ ان غیر ترقیاتی اخراجات میں 6 فیصد اضافہ کیا گیا ہے صوبائی حکومت نے موجودہ سرمایہ جاتی اخراجات کے لیے 590 ارب روپے مختص کیے ہیں .
(جاری ہے)
پنجاب اسمبلی میں صوبائی وزیرخزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا وزیرخزانہ نے بجٹ تقریر کا آغاز موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کیا صوبائی وزیرخزانہ نے کہا کہ میں حالیہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دوران قومی مفادات کے تحفظ پر سیاسی اور عسکری قیادت کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں مجتبیٰ شجاع الرحمان نے کہ کہ ہم نے جاری مالی سال کے دوران 6,104 منصوبے مکمل کیے ہیں انہوں نے بتایا کہ حکومت لاہور میں 72 ارب روپے کی لاگت سے نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ قائم کررہی ہے . صوبائی حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے ترقیاتی اخراجات کی مد میں 1.24 کھرب روپے مختص کیے ہیں جو کہ مالی سال 2024-25 کے 842 ارب روپے کے مقابلے میں 47 فیصد زیادہ ہے وزیرخزانہ نے کہا کہ یہ بجٹ پنجاب کی تاریخ میں ایک تزویراتی تبدیلی کی علامت ہے، یہ صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ ہے آئندہ مالی سال کے لئے صوبہ پنجاب کو وفاقی حکومت سے 4,062.2 ارب روپے موصول ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ صوبائی حکومت نے اپنے ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن کا ہدف 828.2 ارب روپے مقرر کیا ہے . پنجاب حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے 740 ارب روپے کا تخمینی صوبائی فاضل بجٹ رکھا ہے جو وفاقی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کی روشنی میں تجویز کیا گیا ہے وزیرخزانہ نے کہا کہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس صوبائی سرپلس بجٹ کا حصول براہِ راست ایف بی آر کے ریونیو ہدف سے مشروط ہے پنجاب حکومت نے بلدیاتی اداروں کے لیے 764.2 ارب روپے مختص کیے جبکہ ویسٹ مینجمنٹ اور میونسپل کارپوریشنز کے لیے بالترتیب 150 ارب اور 20 ارب روپے کی خصوصی گرانٹس دی جائیں گی . صوبائی حکومت نے سماجی تحفظ کے پیکیج کے تحت 70 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی ہے . صوبائی وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمان نے کہا کہ پنجاب کے وسائل کا درست استعمال کیا جا رہا ہے، عوامی خدمت کا تاریخی پیکیج پیش کر رہے ہیں، معاشی نظم و ضبط کی وجہ سے گورننس بہتر ہورہی ہے، ای ٹینڈرنگ اور گڈ گورننس کی وجہ سے کوئی اسکینڈل نہیں بنا، بجٹ میں صحت،تعلیم اور زراعت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے . مجتبیٰ شجاع الرحمان نے کہا کہ گزشتہ سال کی طرح بجٹ 26-2025 بھی ٹیکس فری ہے، ماحولیاتی تبدیلی جیسے سنگین مسئلے کے خلاف اقدامات کیے گئے ہیں، آئی ٹی اور صنعتی شہر آباد ہورہے ہیں، بجٹ 26-2025 پنجاب میں ترقی کے نئے ریکارڈ قائم کرے گا اور عوام کو ریلیف ملے گا پنجاب اسمبلی میں بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ مریم نواز پنجاب کو غربت اور بے روزگاری سے پاک کر رہی ہیں، نوجوانوں کے لیے ترقی کے راستے کھول دیے، پنجاب میں طلبہ کوبلا تفریق لیپ ٹاپ دیے گئے، پنجاب میں دن رات ترقیاتی کام ہو رہے ہیں، پنجاب مریم نواز کی قیادت میں ترقی کررہا ہے. صوبائی وزیرخزانہ نے کہا کہ پنجاب میں مفت ادویات کے لیے خطیر رقم خرچ کی گئی، فوڈ نیوٹریشن پروگرام شروع کیا گیا ہے، سرگودھا میں نوازشریف کاررڈیالوجی انسٹیٹیوٹ بنایا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ بھارت کے خلاف فتح پرپوری قوم کو سلام پیش کرتا ہوں، پاک فوج نے تاریخی کامیابی حاصل کی، جنگ کے دوران وزیراعلیٰ نے پنجاب میں قائدانہ کردار ادا کیا، اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی مذمت کرتے ہیں، ایران پر بلا جواز حملہ قابل مذمت ہے. انہوں نے کہا کہ پنجاب بھر میں سڑکیں بن رہی ہیں، الیکٹرک بسیں چل رہی ہیں، تعلیم، صحت، زراعت اور دیگر شعبوں پر خصوصی توجہ دی ہے مجتبیٰ شجاع الرحمان کا کہنا تھا کہ تعلیم کا بجٹ 148 ارب روپے رکھا گیا ہے، یہ پچھلے بجٹ کی نسبت 127 فیصد زیادہ ہے، صحت کا بجٹ 181 ارب روپے رکھا ہے، موجودہ مالی سال کی نسبت 131 فیصد زیادہ ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ موجودہ مالی سال کی نسبت 47 فیصد زائد ہے. صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے 764.2 ارب روپے رکھے ہیں، ویسٹ مینجمنٹ کے لیے 150 ارب اور میونسپل کارپوریشن کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں، عوام کو سماجی تحفظ کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے 70 ارب روپے کا الگ پیکیج رکھا ہے ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز ہیلتھ کلینکس کے منصوبے میں توسیع کی جائے گی، سوشل سیکٹر شعبے کے لیے 494 ارب روپے مختص کیے ہیں،جو ترقیاتی بجٹ کا 40 فیصد ہے، ایف ڈی پی کے تحت پنجاب کے لیے 4062.2 ارب روپے کی وفاقی ترسیلات کا تخمینہ لگایا گیا ہے، اپنی صوبائی آمدن کی مد میں پنجاب نے 828.2 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے. انہوں نے کہا کہ ہونہار اسکالرشپ پروگرام کے ذریعے 15 ارب روپے کی لاگت سے طلبہ کو وظائف دیں گے، لیپ ٹاپ پروگرام کے لیے 15.1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، کسان کو آئندہ 2 تین سال میں زراعت کے شعبے میں جاری منصوبوں کے ثمرات ملیں گے، صوبے میں پانی کے ذخائر بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں پنجاب حکومت کی بجٹ دستاویزات کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا اور ریٹائر ملازمین کی پنشن میں 5 فیصد اضافہ کیا گیا نئے مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 811.8 ارب روپے، صحت کے لیے 630.5 ارب روپے جبکہ 129.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں. پنجاب اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہوکرنعرے بازی کی اپوزیشن راہنماﺅں کا کہنا تھا کہ شریف خاندان عوام کو بیوقوف سمجھتا ہے مرکزمیں شہبازشریف حکومت کی معاشی پالیسیاں ملک اور قوم کو اقتصادی طور پر تباہ کررہی ہیں جبکہ پنجاب میں نون لیگ کریڈٹ لینے کی بھونڈی کوشش کررہی ہے. انہوں نے کہاکہ بجلی ‘گیس‘پیٹرول اور بنیادی ضروریات کی اشیاءکی قیمتوں میں تین سالوں کے دوران ہزاروں گنا کے حساب سے اضافہ ہوا ہے پی ڈی ایم حکومت سے لے کر فارم47والی حکومت تک شہبازشریف حکومت کی ناکام معاشی پالیسوں اور کرپشن نے ملک کو دیوالیہ کردیا ہے شہری بھیک مانگنے پر آگئے ہیں مریم نوازہمت کریں اور اپنے چچا کے خلاف ایک قرارداد اسمبلی میں لے کرآئیں اپوزیشن ان کی حمایت کرئے گی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے وزیرخزانہ نے کہا کہ ارب روپے مختص کیے شجاع الرحمان نے صوبائی حکومت نے خزانہ نے کہا کہ انہوں نے کہا ارب روپے کی کیے گئے ہیں ارب روپے کا اسمبلی میں مریم نواز کہ پنجاب کے دوران حکومت کی مالی سال کیا گیا کیے ہیں گیا ہے کے لیے کا بجٹ
پڑھیں:
سندھ اور خیبرپختونخوا کا صوبائی بجٹ
سندھ حکومت کے مالی سال 2025-26کا بجٹ پیش کردیا گیا، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے کے دوران صوبے کا بجٹ پیش کیا، صوبائی بجٹ میں 38ارب 45کروڑ روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے جب کہ صوبائی بجٹ کا کل تخمینہ 34کھرب 50ارب روپے ہے۔
سندھ کے بجٹ میں گریڈ ایک سے 22تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس شامل کرنے جب کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں7 فیصد اضافہ کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ سندھ کے محاصل کا تخمینہ 676ارب روپے لگایا گیاہے جس میں 288ارب روپے کے صوبائی محصولات (علاوہ صوبائی جی ایس ٹی) اور 388ارب روپے کے صوبائی سروس ٹیکس اور زرعی ٹیکس شامل ہیں۔
صوبے کو آیندہ مالی سال نان ٹیکس ذرایع سے 52ارب 55 کروڑ روپے حاصل ہوں گے، سندھ کو آیندہ مالی سال وفاق سے مجموعی منتقلیوں کی مد میں 20 کھرب 95ارب روپے کی وصولیاں ہوں گی، سندھ حکومت آیندہ سال بجٹ اخراجات پورے کرنے کے لیے 33ارب 18 کروڑ روپے کا قرض لے گی، بجٹ میں 475نئی ترقیاتی اسکیموں کو شامل کیا گیا۔
سندھ حکومت نے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ترقیاتی کاموں کے لیے پیسے زیادہ رکھے گئے ہیں۔ بجٹ میںپونے پانچ سو کے قریب نئی ترقیاتی اسکیمیں شامل کی گئی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آیندہ مالی سال کے دوران سندھ میں ترقیاتی سرگرمیاں تیز ہوں گی جس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور روپے کی گردش میں بھی اضافہ ہو گا۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں وفاقی بجٹ کو سامنے رکھ کر اضافہ کیا گیا ہے۔
سندھ کو وفاق سے بھی تقریباً اکیس ارب روپے کی وصولیاں ہوں گی۔ یوں دیکھا جائے تو سندھ کے پاس خاصا ریونیو ہو گا۔ اسی لیے سندھ میں نئی ترقیاتی اسکیموں کو شامل کیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ وہی آتا ہے کہ شفاف نظام حکومت کا ہونا۔ اگر بجٹ میں بیان کیے گئے اہداف اور ان کے لیے مختص کی گئی رقوم پوری طرح خرچ ہو جائیں اور اس میں کسی قسم کی کرپشن نہ ہو تو اس کے بہت زیادہ مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ کام سندھ کی حکومت اور بیوروکریسی کا ہے کہ وہ تندہی کے ساتھ آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق اپنی ذمے داریاں ادا کرے۔
سندھ کے صوبائی بجٹ میں پانچ طرح کے ٹیکسز کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی، خدمات پر سیلز ٹیکس کی شرح 10فیصد سے کم کرکے 8 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی، کمرشل گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی سمیت انشورنس موٹیشن، سیلز سرٹیفکیٹ، ہیئر شپ سرٹیفکیٹس سمیت انشورنس اسٹامپ پر ڈیوٹی میں بھی کمی کی تجویز دی گئی، آیندہ مالی سال تعلیم کے شعبے کا کل بجٹ 523.73ارب روپے تجویز کیا گیا جو گزشتہ سال کے 458.2ارب روپے کے بجٹ سے 12.4فیصد زائد ہے آیندہ مالی سال اسکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے 4400 آسامیاں رکھی گئی ہیں، صحت کے شعبے کا بجٹ 326.5ارب روپے تجویز کیا گیا۔
میڈیکل ایجوکیشن کے لیے 18.2ارب روپے مختص کیے ہیں ہیلتھ سیکٹر میں آیندہ مالی سال صوبے میں 146.9ارب روپے کی گرانٹ کی بھی تجویز کا حصہ ہے۔ سندھ میں امن و امان اور سیکیورٹی پر آیندہ مالی سال کے بجٹ میں 179.7ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے، آیندہ مالی سال کے بجٹ میں سندھ کے دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں کے گھروں میں آف گرڈ سولر سسٹم کے لیے بلاک مخصوص کیا گیا ہے گھروں پر مبنی سولر سسٹم کے لیے بجٹ میں 25ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
سندھ کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ وسائل کے اعتبار سے شاید پورے پاکستان کا سب سے باوسائل صوبہ ہے۔ یہاں سے وافر مقدار میں گیس نکلتی ہے۔ تیل اچھی خاصی تعداد میں نکلتا ہے جب کہ کوئلے کے ذخائر عالمی رینکنگ میں آتے ہیں۔ کراچی پورٹ سٹی ہونے کے ناطے بہت زیادہ ریونیو کماتا ہے۔ سندھ کے ساحلی علاقوں میں نئی بندرگاہیں تعمیر کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ اگر سندھ پر پوری توجہ دی جائے تو آیندہ چند برس میں سندھ پاکستان کا سب سے امیر اور ترقی یافتہ صوبہ بن سکتا ہے۔
خیبرپختونوا حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے دو ہزار ایک سو انیس (2119) ارب روپے کا سرپلس بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا ہے، ترقیاتی اخراجات کے لیے پانچ سو سینتالیس (547)ارب جب کہ غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے ایک ہزار چار سو پندرہ (1415) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جب کہ 157 ارب روپے سرپلس بجٹ ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کا اعلان کیا ہے،سرکاری ملازمین کے لیے ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس 15 سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے، مزدور کی کم سے کم اجرت 40 ہزار روپے کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ آفتاب عالم نے بجٹ پیش کیا، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور بھی ایوان میں موجود تھے۔
اگر ترقیاتی بجٹ کے حجم کو دیکھا جائے تو یہ بہتر صورت حال کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ صوبے کے پاس سرپلس میں بھی ایک سو ستاون ارب روپے موجود ہیں۔ اصل مسئلہ یہ کہ ترقیاتی رقم کا ایماندارانہ اور شفاف میکنزم کے تحت خرچ ہے۔ اگر یہ رقم ایمانداری کے ساتھ خرچ ہو تو بہت سے ترقیاتی کام مکمل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح کم ازکم اجرت کا معاملہ بھی ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت اپنے صوبے میں اگر کم ازکم اجرت چالیس ہزار روپے ماہانہ پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے مزدوروں کو خاصا ریلیف ملے گا۔
صوبے کا غیرترقیاتی بجٹ ایک ہزار چار سو پندرہ ارب روپے ہے۔ اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں، مراعات اور دیگر الاؤنسز شامل ہوں گے۔ صوبے کے وزیراعلیٰ اور وزراء کی اولین ذمے داری یہ ہے کہ وہ صوبائی بیوروکریسی سے قانون کے مطابق پورا کام لیں۔ کیونکہ عوام کے ٹیکسوں سے کمائے ہوئے پیسے سرکاری ملازمین کو ادا کیے جاتے ہیں جب کہ وزیراعلیٰ، وزراء اور معاونین اور ارکان صوبائی اسمبلی وغیرہ کو جو تنخواہیں اور مراعات ملتی ہیں، وہ بھی صوبے کے عوام اپنی کمائی میں سے دیے گئے ٹیکسوں سے ادا کرتے ہیں۔ اس لیے حکومت اور صوبائی بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی آئینی اور قانونی ذمے داریاں ایمانداری اور تندہی سے ادا کریں۔
بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے اور حکومتی ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق صوبائی سالانہ ترقیاتی اخراجات کے لیے 195 ارب، ضلعی سالانہ ترقیاتی اخراجات کے لیے 39 ارب، ضم اضلاع کے لیے 39.60 ارب، ضم اضلاع کے اے آئی پی کے لیے 92.740 ارب، بیرونی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 177 ارب اور وفاقی حکومت کی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 3.47 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ میں تنخواہوں اور دیگر اخراجات کے لیے 1415ارب روپے رکھے گئے ہیں، تعلیمی بجٹ کو 327ارب سے بڑھاکر363ارب روپے کردیا گیا ہے جو جاری مالی سال سے 11 فیصد زائد ہے ۔
صوبے میں شرح خواندگی کے اضافے کے لیے تعلیمی ایمرجنسی نافذکر دی گئی ہے جس کے لیے پانچ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، محکمہ صحت کا بجٹ 232 ارب سے بڑھا کر 276 ارب کر دیا گیا ہے، بندوبستی اضلاع میں صحت کارڈ پلس کا بجٹ 28 ارب سے 35 ارب روپے کر دیا گیا ہے، ضم اضلاع کے لیے صحت سہولت پروگرام کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، پولیس کا بجٹ 124 ارب سے بڑھا کر 128 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
پولیس کے لیے اسلحہ، گاڑیاں اور دیگر خریداری کے لیے 13 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، سیف سٹی پروجیکٹ پشاور کے لیے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کی تعمیر کا منصوبہ بھی بجٹ کا حصہ ہے،خیبرپختونخوا حکومت نے پولیس میں سپاہی سے انسپکٹر تک عملہ کی تنخواہوں کو پنجاب پولیس کے مساوی کرنے اور پولیس شہداء پیکیج بڑھانے کا منصوبہ بجٹ میں شامل کردیا ہے۔
صوبے کا بجٹ بہتر نظر آتا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں اور وسائل کے اندر رہ کر جو کچھ کیا جاسکتا تھا، وہ صوبائی حکومت نے کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے جتنے وسائل ہیں، اتنے پورے کے پورے خرچ ہونے چاہئیں۔ اگر صوبائی حکومت اس بجٹ کے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو اس کے اچھے اثرات سامنے آئیں گے۔