data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان بہت سارے معاملات میں دنیا سے مختلف اور یکتا ہے، اور مختلف معاملات میں حیرت انگیز ریکارڈ کا حامل ہے، وہ عالمی معاملات، سیاست اور تجارت ہوں یا کورونا جیسی وبا، پاکستان نے ان سب معاملات میں حسن وخوبی سے کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف دنیا میں اپنے شہریوں کے جان مال، عزت آبرو کے معاملے میں جنگیں ہوچکیں اور چھوٹے چھوٹے ممالک نے قوم کی غیرت، بیٹیوں کی عزت اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے سے بڑی طاقتوں سے پنجہ آزمائی کی اور قومی غیرت کا تحفظ کیا۔ لیکن اس معاملے میں پاکستان کے تقریباً تمام حکمران بشمول فوجی آمر اور سویلین ناکام ہی ہیں، اور وہ معاملہ ہے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا، اسے ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے چند ڈالروں کے عوض فروخت کردیا، اس کے بعدکئی سال تک اس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا کہ بگرام کے ایک قیدی نے رہائی کے بعد انکشاف کیا کہ میں نے وہاں ایک قیدی خاتون کی چیخیں سنی ہیں، شاید وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں، اور پھر برطانوی صحافی ایوون ریڈلی نے سابق وزیر اعظم عمران خان (اس وقت وزیر اعظم نہیں تھے) کے ساتھ پریس کانفرنس میں عافیہ کی وہاں موجودگی کی تصدیق کی، اس کے بعد جنرل پرویز کے ایک وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی نے اس امر کی تصدیق کردی کہ عافیہ کو بیچا گیا ہے۔
اس وقت سے آج تک عافیہ کا معاملہ حکومتی ایوانوں کی غلام گردشوں ہی میں گردش کررہا ہے، یہ بات اگرچہ ہر ایک کی سمجھ میں آرہی ہے کہ ڈور کہاں سے الجھی ہوئی ہے لیکن اس کا اظہار کوئی برملا نہیں کرتا۔ جب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے بعد سویلین حکومت آئی اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے ان کو یہ سمجھانے میں کافی دقت ہوئی کہ عافیہ پاکستانی ہے اور اس کے پاس کوئی دوسری شہریت نہیں ہے۔ عافیہ کی سزا کے بعد امریکی وکیل ٹینا فوسٹر پاکستان آئیں اور اس نے بتایا کہ امریکی صدر عافیہ کو رہا کر نے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ پاکستانی صدر، وزیر اعظم، وزیر خارجہ، کوئی بھی ایک جملہ لکھ دے، جی ہاں بس ایک جملہ، اور جملہ بھی بے ضرر سا، کہ ’’عافیہ صدیقی پاکستانی ہے اس کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کردیا جائے‘‘، لیکن دنیا بھر کی ڈگریوں کے حامل، پڑھے لکھے لوگوں سے یہ ایک جملہ نہیں لکھا جاسکا، اور عافیہ واپس نہ آسکی۔
ایک مرتبہ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں عافیہ رہائی کا مقدمہ زیر سماعت ہے، جسٹس اعجاز اسحاق نے مسلسل پیچھا کیا ہے اور ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ، ماریہ کاری اور فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق، جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان اور عوام کی بڑی تعداد کے دباؤ کا یہ نتیجہ نکلا کہ بیس سال بعد ڈاکٹر فوزیہ اور ڈاکٹر عافیہ کی ملاقات ہوگئی، وکیل کو رسائی مل گئی، لیکن اس عرصے میں بیٹی کے دیدار کو ترستی عصمت صدیقی کی آنکھیں بند ہوگئیں، اور وہ اللہ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر پہنچ گئیں اللہ نے یقینا ان کے دل کو تسلی دیدی ہوگی کہ جنت میں دونوں کی ملاقات ہوگی۔
لیکن ایک ایسا ظلم اب بھی جاری ہے جس کا کوئی جواز کسی کی سمجھ میں نہیں آتا اور وہ یہ ہے کہ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ عافیہ کے اغوا سے اب تک کے سارے مظالم کی ذمے دار پاکستانی حکومتیں ہی ہیں، اسی لیے طرح طرح کے بہانے تراشے جارہے ہیں، سرکاری افسروں کا رویہ تو نہایت قابل مذمت ہے، عدالت میں پیش ہوکر ایک مظلوم پاکستانی شہری کے بارے میں یہ کہنا کہ ہم نے عافیہ کے لیے بہت کچھ کرلیا، اب کیس بند کردیں شقاوت قلبی کی زندہ مثال ہے، بہر حال اسلام آباد ہائی کورٹ میں گزشتہ جمعہ کے روز امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے چند سوالات کے جوابات طلب کر لیے۔ کیا حکومت ِ پاکستان امریکی عدالت میں عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق عدالتی معاونت کا جواب جمع کروائے گی؟ کیا حکومت عافیہ صدیقی کی اپنی رہائی کے لیے دائر کردہ درخواست میں بطور معاون عدالتی بیان جمع کرانے کے لیے تیار ہے؟ تاکہ انہیں انسانی بنیادوں پر رہا کیا جا سکے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے ایڈوکیٹ عمران شفیق عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت کو ہدایت دی جائے کہ وہ امریکا میں عدالتی معاونت پر رضا مندی ظاہر کرے۔ حکومت پاکستان سے محض اتنا مطالبہ ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کی درخواست کے مندرجات سے قطع نظر محض مختصر سی استدعا کرے کہ عافیہ صدیقی کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا جائے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ اس معمولی سی استدعا سے حکومت پاکستان کو آخر کیا نقصان ہو سکتا ہے؟۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان گزشتہ ایک پیشی پر اسی عدالت میں بیان دے چکے ہیں۔ اٹارنی جنرل پہلے کہہ چکے حکومت امریکا میں عدالتی معاونت کی درخواست دائر کرے گی تو پھر اب کیا مسئلہ ہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے، اگر حکومت کی جانب سے صرف ایک جملہ لکھ دیا جائے کہ ہمیں عافیہ کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں اور ہم معاونت کریں گے تو پھر مشکل آسان ہو جائے گی، عدالت کے سوالات کو سامنے رکھیں اور غور کریں کہ جواب کیا آیا ہے یہ مثبت ہوگا یا منفی یا سرے سے جواب ہی نہیں آئے گا، ان تینوں صورتوں میں حکومت کی پوزیشن واضح ہوگی۔ ایک جملہ لکھ دیا تو سرخ رو اور انکار کیا تو سیاہ رو، اور خاموشی، (جو ناممکن ہے) تو منافقت عیاں ہوجائے گی۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جو سرکاری اہلکار عدالت میں پیش ہوتے ہیں وہ سرکار کے ملازم ہوتے ہیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے، جو بتایا اور ہدایت نامہ دیا جاتا ہے وہی عدالت میں آکر بولتے ہیں، عدالت نے ہدایت کی ہے کہ اگلی سماعت پر حکومتی موقف سے آگاہ کریں اور عدالت کو دلیل سے مطمئن کریں کہ اس میں حکومت کا نقصان کیا ہے؟ جب میاں صاحب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم کو خطوط لکھے کہ عافیہ کی رہائی کے لیے قانونی اقدامات کریں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ حکومت ملنے کے بعد حالات میں ایسی کیا تبدیلی ہے کہ حکمران جماعت کا موقف بدل گیا؟ ایسی نظیریں موجود ہیں کہ حکومت پاکستان ماضی میں ایسے معاون عدالتی بیان داخل کر چکی ہے۔ جب پہلے معاون عدالتی بیان داخل ہوتے رہے ہیں تو اب کیا پیچیدگی ہے۔ کسی ملک کی بیٹی بائیس سال سے غیر ملک میں قید ہو، اس کا کوئی پرسان حال نہ ہو، اور جب گھر والے اور عوام اپنی بہن، بیٹی کے لیے کھڑے ہوں تو عدالتی پیشیاں، تاریخیں وقت گزاری، ٹالم ٹول اور دھونس دھمکیاں، بہت کچھ کرلیا کا طعنہ، صرف ایک جملہ لکھنے سے بچنے کے لیے کہ عافیہ کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی میں معاونت کریں گے۔
جسٹس اعجاز اسحاق کا یہ سوال بظاہر عام سوال ہے لیکن درحقیقت بہت گہرا ہے کہ حکومت کا کیا نقصان ہے، اور کیا پیچیدگی ہے۔ اس پر کسی غور کی ضرورت نہیں، حکومت کیسے بنتی ہے پارلیمان کی تشکیل کیسے ہوتی ہے، آئین اور عوام کے خلاف فیصلے کیسے اور کہاں سے ہوتے ہیں، یہ جاننے والوں کو فوراً سمجھ میں آجائے گا کہ ایسا جملہ جس سے عافیہ کی رہائی کا امکان ہو لکھنے میں کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں، حکومت جاسکتی ہے، مقدمات کھل سکتے ہیں، عمران خان باہر اور یہ اندر ہوسکتے ہیں، اور مشکل تو یہ ہے کہ اتنے طاقتور حکمران کچھ بول بھی نہیں سکتے، گویا اظہار بھی مشکل ہے، چپ رہ بھی نہیں سکتے مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ پھر سوچ لیں یہ چھوٹا سا جملہ کیوں پندرہ سال سے بھاری پڑ رہا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عافیہ صدیقی کی ڈاکٹر عافیہ میں عافیہ عدالت میں ایک جملہ کی رہائی کہ حکومت عافیہ کی نہیں ا کے لیے کے بعد پر رہا
پڑھیں:
کراچی والوں کو بخش بھی دیں
حکومت سندھ نے پہلے سے عذابوں میں مبتلا ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے شہریوں پر ایک اور مزید مہربانی کی اور کراچی ٹریفک پولیس کے ذریعے نئے فیس لیس ای ٹریکنگ سسٹم (ٹریکس) کا نفاذ کرا دیا جس کے نتیجے میں صرف 6 گھنٹوں میں ایک کروڑ تیس لاکھ روپے کے ای ٹکٹس جاری ہو گئے اور کمائی کا ایک نیا طریقہ ہاتھ آ گیا جو شاید لاہور کی نقل میں کیا گیا ہے جہاں کشادہ اور خوبصورت سڑکوں پر گاڑیاں تیز رفتاری سے دوڑ رہی ہیں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی والوں سے ٹریکس کے ذریعے جو بھاری جرمانوں کے ذریعے آمدنی ہو رہی ہے وہ رقم سڑکوں اور شاہراہوں کے علاوہ اندرون شہر میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کی جا رہی ہے۔
کراچی میں ٹریکس کے ذریعے کمائی کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس کے ذریعے صرف 6 گھنٹوں میں ایک کروڑ 30 لاکھ روپے کے ای ٹکٹس جاری ہو گئے جس کی ملک بھر میں مثال نہیں ملتی کہ افتتاح کے بعد کسی اور شہر میں اتنی بڑی رقم کے ای ٹکٹس جاری ہوئے ہوں، جن کی تعداد 2600 سے زائد ہے جب کہ کراچی میں لاہور جیسی سڑکیں شاید چند ہی ہیں جو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی بجائے دیگر اداروں کے ماتحت ہوں۔
ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق شہر کے 30 فی صد علاقوں میں جدید کیمروں کی تنصیب کا کام مکمل کر لیا گیا ہے اور باقی 70 فی صد جن سڑکوں پر ٹریفک سگنل، لین مارکنگ، زیبرا کراسنگ اور اسٹاپ لائن موجود ہی نہیں، وہاں ای ٹکٹ جاری نہیں ہوں گے۔ یہ فیصلہ سندھ حکومت کا شہریوں پر احسان عظیم ہے، ورنہ کراچی کی ٹریفک پولیس نے نئے ناظم آباد اور ان علاقوں میں بھی جرمانے کیے ہیں جو نجی رہائشی منصوبے ہیں جہاں سڑکوں کی تعمیر کوئی بلدیاتی ادارہ نہیں بلکہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کراتی ہیں جو مضبوط اور پائیدار ہوتی ہیں۔
کراچی ٹریفک پولیس کے مطابق سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ کی خلاف ورزی، ہیلمٹ نہ استعمال کرنے پر کیے گئے جب کہ اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، لین لائن کی خلاف ورزیوں پر ہوئے ہیں۔ ٹریفک کے جدید خودکار نظام میں سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کو سافٹ ویئر سے منسلک کرکے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔
یہ بھی سو فی صد حقیقت ہے کہ کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی عام بنی ہوئی ہے اور پوش علاقوں والے فخریہ طور پر ٹریفک قوانین توڑتے ہیں اور جرمانے ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ لوگ مہنگی گاڑیوں اور لاکھوں روپے مالیت کی ہیوی بائیکس پر شوقیہ سفر کرتے اور جان بوجھ کر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے آ رہے ہیں۔
پوش علاقوں کی امیر خواتین کے لیے بھی ٹریفک قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ بھی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرکے متعدد افراد کو کچل چکی ہیں اور نہایت امیر گھرانوں کی یہ خواتین گرفتار بھی ہو چکی ہیں اور پوش علاقوں کے نوجوان بھی اس سلسلے میں کم نہیں جب کہ شہر کے اندرونی علاقوں میں کمسن بچے گلیوں میں موٹر سائیکلیں اس کے باوجود دوڑاتے ہیں کہ وہاں سڑکوں کا وجود نہیں ہوتا اور راستے بھی ناہموار ہوتے ہیں اور ان کے والدین بھی اپنے کمسن بچوں کو موٹرسائیکلیں دے دیتے ہیں جن سے اکثر حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ٹریفک پولیس مرکزی شاہراہوں پر جلد 12 ہزار جدید کیمرے نصب کرے گی جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں پر بھاری جرمانے ہوں گے جن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تصور ٹریفک پولیس افسران کو بھی نہیں ہوگا۔
ٹریکس کا نشانہ شہر کی وہ اکثریتی آبادی بنے گی، جہاں سڑکوں کا وجود نہیں اور اگر سڑکیں ہیں تو وہ انتہائی تباہ حال ہیں جہاں جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں اور پیدل چلنے کے بھی قابل نہیں رہی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے ایک ڈی ایس پی کا کہنا ہے کہ ای ٹکٹس سسٹم حکومت نے جرمانہ وصولی کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے نافذ کیا ہے جب کہ اس سے قبل آئی جی پولیس کا ایک بیان میڈیا میں آیا تھا کہ ٹریفک خلاف ورزی پر ان کے خیال میں جرمانہ کم ہے جو کم ازکم ایک لاکھ روپے ہونا چاہیے اس بیان سے واضح ہے کہ حکومت کو کراچی کے لوگوں کا کتنا احساس ہے اور حکومت نے عوام پر احسان کرکے بیس ہزار تک جرمانہ مقرر کیا ہے جس کی وصولی ای ٹکٹس سے شروع بھی ہو گئی ہے۔
حکومت اور کراچی ٹریفک پولیس کی بے حسی یہ ہے کہ اجرک والی موٹرسائیکل نمبر پلیٹس کی طرح ٹریکس کا نفاذ بھی صرف کراچی پر کیا گیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں کراچی سونے کی چڑیا ہے جہاں کے لوگوں کے پاس پیسہ بہت ہے جو پہلے اجرک والی نمبر پلیٹس اور اب ای ٹکٹس سسٹم کے تحت وصول ہوگا جب کہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ کراچی میں سفری سہولتوں کا شدید فقدان ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد موٹر سائیکلوں کا استعمال کرتی ہے اور ان غریبوں کے پاس سفرکی جو کھٹارا بائیکس ہیں ان کی موجودہ پندرہ بیس ہزار روپے کی بھی مالیت نہیں ہے ان سے بھی ٹریفک خلاف ورزی پر جرمانہ بیس ہزار وصول کیا جائے گا۔
ایم کیو ایم اور مرکزی مسلم لیگ نے ای ٹکٹس سسٹم کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے اور شہریوں نے بھی ٹریکس پر انتہائی برہمی اور تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے اسے مزید کراچی دشمنی قرار دیا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کی دشمن بنی ہوئی ہے وہ پہلے کراچی کی صرف سڑکیں ہی تعمیر کرا دے پھر ٹریکس نافذ کرے۔
تباہ حال سڑکوں پر بے دردی سے جرمانے شہریوں پر ظلم کی انتہا ہے، اس لیے سندھ حکومت کراچی والوں کو اب تو بخش دے کیونکہ عالمی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اب کراچی رہائش کے قابل نہیں رہا، جس کے شہری تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور پی پی حکومت کراچی سے بے حسی پر اتری ہے، اب تو کراچی کو بخش دیا جائے اور سب سے پہلے کراچی والوں کو بنیادی سہولیات ہی فراہم کر دی جائیں۔