Jasarat News:
2025-06-17@02:28:47 GMT

بس ایک جملے کا انتظار

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان بہت سارے معاملات میں دنیا سے مختلف اور یکتا ہے، اور مختلف معاملات میں حیرت انگیز ریکارڈ کا حامل ہے، وہ عالمی معاملات، سیاست اور تجارت ہوں یا کورونا جیسی وبا، پاکستان نے ان سب معاملات میں حسن وخوبی سے کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف دنیا میں اپنے شہریوں کے جان مال، عزت آبرو کے معاملے میں جنگیں ہوچکیں اور چھوٹے چھوٹے ممالک نے قوم کی غیرت، بیٹیوں کی عزت اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے سے بڑی طاقتوں سے پنجہ آزمائی کی اور قومی غیرت کا تحفظ کیا۔ لیکن اس معاملے میں پاکستان کے تقریباً تمام حکمران بشمول فوجی آمر اور سویلین ناکام ہی ہیں، اور وہ معاملہ ہے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا، اسے ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے چند ڈالروں کے عوض فروخت کردیا، اس کے بعدکئی سال تک اس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا کہ بگرام کے ایک قیدی نے رہائی کے بعد انکشاف کیا کہ میں نے وہاں ایک قیدی خاتون کی چیخیں سنی ہیں، شاید وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں، اور پھر برطانوی صحافی ایوون ریڈلی نے سابق وزیر اعظم عمران خان (اس وقت وزیر اعظم نہیں تھے) کے ساتھ پریس کانفرنس میں عافیہ کی وہاں موجودگی کی تصدیق کی، اس کے بعد جنرل پرویز کے ایک وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی نے اس امر کی تصدیق کردی کہ عافیہ کو بیچا گیا ہے۔
اس وقت سے آج تک عافیہ کا معاملہ حکومتی ایوانوں کی غلام گردشوں ہی میں گردش کررہا ہے، یہ بات اگرچہ ہر ایک کی سمجھ میں آرہی ہے کہ ڈور کہاں سے الجھی ہوئی ہے لیکن اس کا اظہار کوئی برملا نہیں کرتا۔ جب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے بعد سویلین حکومت آئی اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے ان کو یہ سمجھانے میں کافی دقت ہوئی کہ عافیہ پاکستانی ہے اور اس کے پاس کوئی دوسری شہریت نہیں ہے۔ عافیہ کی سزا کے بعد امریکی وکیل ٹینا فوسٹر پاکستان آئیں اور اس نے بتایا کہ امریکی صدر عافیہ کو رہا کر نے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ پاکستانی صدر، وزیر اعظم، وزیر خارجہ، کوئی بھی ایک جملہ لکھ دے، جی ہاں بس ایک جملہ، اور جملہ بھی بے ضرر سا، کہ ’’عافیہ صدیقی پاکستانی ہے اس کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کردیا جائے‘‘، لیکن دنیا بھر کی ڈگریوں کے حامل، پڑھے لکھے لوگوں سے یہ ایک جملہ نہیں لکھا جاسکا، اور عافیہ واپس نہ آسکی۔
ایک مرتبہ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں عافیہ رہائی کا مقدمہ زیر سماعت ہے، جسٹس اعجاز اسحاق نے مسلسل پیچھا کیا ہے اور ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ، ماریہ کاری اور فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق، جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان اور عوام کی بڑی تعداد کے دباؤ کا یہ نتیجہ نکلا کہ بیس سال بعد ڈاکٹر فوزیہ اور ڈاکٹر عافیہ کی ملاقات ہوگئی، وکیل کو رسائی مل گئی، لیکن اس عرصے میں بیٹی کے دیدار کو ترستی عصمت صدیقی کی آنکھیں بند ہوگئیں، اور وہ اللہ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر پہنچ گئیں اللہ نے یقینا ان کے دل کو تسلی دیدی ہوگی کہ جنت میں دونوں کی ملاقات ہوگی۔
لیکن ایک ایسا ظلم اب بھی جاری ہے جس کا کوئی جواز کسی کی سمجھ میں نہیں آتا اور وہ یہ ہے کہ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ عافیہ کے اغوا سے اب تک کے سارے مظالم کی ذمے دار پاکستانی حکومتیں ہی ہیں، اسی لیے طرح طرح کے بہانے تراشے جارہے ہیں، سرکاری افسروں کا رویہ تو نہایت قابل مذمت ہے، عدالت میں پیش ہوکر ایک مظلوم پاکستانی شہری کے بارے میں یہ کہنا کہ ہم نے عافیہ کے لیے بہت کچھ کرلیا، اب کیس بند کردیں شقاوت قلبی کی زندہ مثال ہے، بہر حال اسلام آباد ہائی کورٹ میں گزشتہ جمعہ کے روز امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے چند سوالات کے جوابات طلب کر لیے۔ کیا حکومت ِ پاکستان امریکی عدالت میں عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق عدالتی معاونت کا جواب جمع کروائے گی؟ کیا حکومت عافیہ صدیقی کی اپنی رہائی کے لیے دائر کردہ درخواست میں بطور معاون عدالتی بیان جمع کرانے کے لیے تیار ہے؟ تاکہ انہیں انسانی بنیادوں پر رہا کیا جا سکے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے ایڈوکیٹ عمران شفیق عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت کو ہدایت دی جائے کہ وہ امریکا میں عدالتی معاونت پر رضا مندی ظاہر کرے۔ حکومت پاکستان سے محض اتنا مطالبہ ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کی درخواست کے مندرجات سے قطع نظر محض مختصر سی استدعا کرے کہ عافیہ صدیقی کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا جائے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ اس معمولی سی استدعا سے حکومت پاکستان کو آخر کیا نقصان ہو سکتا ہے؟۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان گزشتہ ایک پیشی پر اسی عدالت میں بیان دے چکے ہیں۔ اٹارنی جنرل پہلے کہہ چکے حکومت امریکا میں عدالتی معاونت کی درخواست دائر کرے گی تو پھر اب کیا مسئلہ ہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے، اگر حکومت کی جانب سے صرف ایک جملہ لکھ دیا جائے کہ ہمیں عافیہ کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں اور ہم معاونت کریں گے تو پھر مشکل آسان ہو جائے گی، عدالت کے سوالات کو سامنے رکھیں اور غور کریں کہ جواب کیا آیا ہے یہ مثبت ہوگا یا منفی یا سرے سے جواب ہی نہیں آئے گا، ان تینوں صورتوں میں حکومت کی پوزیشن واضح ہوگی۔ ایک جملہ لکھ دیا تو سرخ رو اور انکار کیا تو سیاہ رو، اور خاموشی، (جو ناممکن ہے) تو منافقت عیاں ہوجائے گی۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جو سرکاری اہلکار عدالت میں پیش ہوتے ہیں وہ سرکار کے ملازم ہوتے ہیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے، جو بتایا اور ہدایت نامہ دیا جاتا ہے وہی عدالت میں آکر بولتے ہیں، عدالت نے ہدایت کی ہے کہ اگلی سماعت پر حکومتی موقف سے آگاہ کریں اور عدالت کو دلیل سے مطمئن کریں کہ اس میں حکومت کا نقصان کیا ہے؟ جب میاں صاحب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم کو خطوط لکھے کہ عافیہ کی رہائی کے لیے قانونی اقدامات کریں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ حکومت ملنے کے بعد حالات میں ایسی کیا تبدیلی ہے کہ حکمران جماعت کا موقف بدل گیا؟ ایسی نظیریں موجود ہیں کہ حکومت پاکستان ماضی میں ایسے معاون عدالتی بیان داخل کر چکی ہے۔ جب پہلے معاون عدالتی بیان داخل ہوتے رہے ہیں تو اب کیا پیچیدگی ہے۔ کسی ملک کی بیٹی بائیس سال سے غیر ملک میں قید ہو، اس کا کوئی پرسان حال نہ ہو، اور جب گھر والے اور عوام اپنی بہن، بیٹی کے لیے کھڑے ہوں تو عدالتی پیشیاں، تاریخیں وقت گزاری، ٹالم ٹول اور دھونس دھمکیاں، بہت کچھ کرلیا کا طعنہ، صرف ایک جملہ لکھنے سے بچنے کے لیے کہ عافیہ کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی میں معاونت کریں گے۔
جسٹس اعجاز اسحاق کا یہ سوال بظاہر عام سوال ہے لیکن درحقیقت بہت گہرا ہے کہ حکومت کا کیا نقصان ہے، اور کیا پیچیدگی ہے۔ اس پر کسی غور کی ضرورت نہیں، حکومت کیسے بنتی ہے پارلیمان کی تشکیل کیسے ہوتی ہے، آئین اور عوام کے خلاف فیصلے کیسے اور کہاں سے ہوتے ہیں، یہ جاننے والوں کو فوراً سمجھ میں آجائے گا کہ ایسا جملہ جس سے عافیہ کی رہائی کا امکان ہو لکھنے میں کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں، حکومت جاسکتی ہے، مقدمات کھل سکتے ہیں، عمران خان باہر اور یہ اندر ہوسکتے ہیں، اور مشکل تو یہ ہے کہ اتنے طاقتور حکمران کچھ بول بھی نہیں سکتے، گویا اظہار بھی مشکل ہے، چپ رہ بھی نہیں سکتے مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ پھر سوچ لیں یہ چھوٹا سا جملہ کیوں پندرہ سال سے بھاری پڑ رہا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عافیہ صدیقی کی ڈاکٹر عافیہ میں عافیہ عدالت میں ایک جملہ کی رہائی کہ حکومت عافیہ کی نہیں ا کے لیے کے بعد پر رہا

پڑھیں:

مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛ سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث

مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛ سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث WhatsAppFacebookTwitter 0 16 June, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، جس میں اہم آئینی سوالات پر بحث کی گئی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13 رکنی آئینی بینچ نے سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے معاملے پر نظر ثانی کیس کی سماعت آج دوبارہ کی، جس میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت میں دلائل دیے۔

سماعت کے دوران دلچسپ جملوں کا تبادلہ بھی دیکھنے میں آیا، جب جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ اگر ان کا تبصرہ دل پر لیا گیا تو وہ اسے واپس لیتے ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’میری بیوی نے بھی سن لیا، اس نے ڈانٹا کہ کیا کر رہے ہو!‘‘ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ہنستے ہوئے کہا، ’’تو پھر آپ نے جسٹس کاکڑ کی بات تو نہ مانی۔‘‘ فیصل صدیقی کا جواب اور بھی دلچسپ تھا، انہوں نے کہا کہ ’’نہیں سر، جسٹس کاکڑ کی بات گاجر کی طرح تھی اور بیگم کی ڈنڈے کی طرح‘‘!۔

کیس کے سلسلے میں قانونی دلائل میں فیصل صدیقی نے بتایا کہ جسٹس ہاشم کاکڑ کی آبزرویشن کے بعد 13 صفحات کی سمری 100 صفحات کے عدالتی فیصلے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ مخصوص نشستوں کا معاملہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کی وجہ سے پیچیدہ ہوا۔ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا مفاد مخصوص نشستوں کے تناظر میں یکساں تھا، اسی لیے انہیں پی ٹی آئی کو ملنے پر اعتراض نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جب دونوں جماعتوں کا آئین اور ساخت الگ ہے تو مفاد ایک کیسے ہو سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال کیا کہ کیا کسی امیدوار نے خود عدالت میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ انہیں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا؟ فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ اکثریتی فیصلے میں اس پہلو کو بنیادی اہمیت حاصل نہیں تھی۔

فیصل صدیقی نے بینچ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ یہ نکتہ اہم ہے کہ آزاد امیدواروں کے حصے کی مخصوص نشستیں 3 جماعتوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ آیا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن لڑا یا نہیں؟ جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے یہ سوال موجود ہی نہیں تھا،تاہم فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اکثریتی فیصلے نے اس نکتے کو طے کیا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ باجود متعدد مواقع کے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر 13 جنوری کا عدالتی فیصلہ سامنے آیا۔ اسی دوران جسٹس جمال خان نے نشاندہی کی کہ دسمبر میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جا چکے تھے، لہٰذا یہ مؤقف درست نہیں کہ جنوری کے فیصلے نے امیدواروں کو آزاد کیا۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو 5 سال تک انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے لیے مہلت دی اور سننے کے بعد ہی انتخابی نشان نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا، جو پارٹی کی ڈی رجسٹریشن کا سبب نہیں بنتا۔

سماعت کے دوران تمام ججز نے آزاد امیدواروں، انتخابی نشان، انٹرا پارٹی انتخابات اور مخصوص نشستوں کی آئینی و قانونی حیثیت پر گہرائی سے سوالات اٹھائے، جب کہ فیصل صدیقی نے تمام نکات پر تفصیل سے دلائل دیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ 13 جنوری کو آیا کاغذات نامزدگی دسمبر میں جمع ہوئے تب بھی کچھ امیدواروں نے آزاد حیثیت دکھائی۔ بینچ کا سوال تو یہ ہے انتخابی نشان نہ ہونے پر بھی پی ٹی آئی جماعت تو موجود تھی۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کو پی ٹی آئی سے انتخابی نشان لے لیا تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کا تنازع تو یہ ہے کہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کر لیا، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا حق دعویٰ مسئلہ نہیں ہے۔ میں سنی اتحاد کونسل نہ پی ٹی آئی کا حامی ہوں بلکہ میں سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی حمایت کر رہا ہوں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ رول 94 کو کالعدم قرار دیا گیا کہ ریٹرننگ افسر آزاد ڈکلئیر نہیں کر سکتا۔ جب ریٹرننگ افسر کو اختیار نہیں تو سپریم کورٹ کو کیسے ہے کہ آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا قرار دے؟

فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا جواب جسٹس امین اور جسٹس جمال کے ایک فیصلے میں ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جو آزاد تھے انہوں نے سنی اتحاد کو جوائن کر لیا تھا ان کی واپسی کیسے ہو سکتی ہےاصل سوال یہ ہے۔ اس لیے آپ کو بار بار کہا جاتا ہے کہ تمام مراحل کے بعد کہ آزاد ارکان نے آپ کو جوائن کرلیا وہاں سے کیس شروع ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو تھا کہ آزاد ارکان نے سنی اتحاد کو جوائن کر لیا سیٹیں سنی اتحاد کو دیں، جس پر وکیل نے کہا کہ جی ایسا تھا لیکن اب میں نظر ثانی میں ایسا نہیں کر رہا ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اب آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بطور جواب گزار میں اب اپنا موقف تبدیل کر سکتا ہوں، جو مرضی پوزیشن لوں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شروع میں کہیں کسی مرحلے پر آپ نے یہ بات نہیں کی کہ انتخابی نشان نہیں ملا، یہ نہیں ہوا، وہ نہیں ہوا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد نے نشستیں مانگیں لیکن اکثریتی یا اقلیتی فیصلے میں غلط یا صحیح نشستیں پی ٹی آئی کو دے دیں۔ اس وقت آپ کی پوزیشن تبدیل ہے، اب آپ پی ٹی آئی کی طرف سے دلائل دے رہے ہیں۔ جب وہ پی ٹی آئی کے رکن بن گئے، تو آپ کے نہیں رہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ میں نہ تو ایس آئی سی کو نہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہا ہوں۔ میں بطور آفیسر آف کورٹ اکثریتی فیصلے کو سپورٹ کر رہا ہوں۔ میرا حق دعویٰ اب ایشو نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی درخواست فریق مقدمہ بننے کی تھی اس بارے میں قانون کیا کہتا یہ آپ کو اچھی طرح پتا ہے۔ ایک نکتہ یہ بھی دیکھ لیجیے گا کہ اپیل کی سطح پر ازخود نوٹس لے کر رول 94 کو سنے بغیر کالعدم کر دیا ۔

وکیل نے کہا کہ جی اس حوالے سے جسٹس جمال مندوخیل کا فیصلہ ہے ۔ 11 ججوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کہ پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کا فیصلہ غیر قانونی تھا ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جن 11 ارکان نے کہا وہ اتفاق صرف ان ارکان تک تھا جنہوں نے کاغذات نامزدگی اور پارٹی ٹکٹ پی ٹی آئی کا دیا ۔ صرف 14 پی ٹی آئی امیدوار تھے جنہوں نے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا ، لیکن ہم نے یہ فرض کیا کہ انہوں نے جمع کرایا ہو اور وہ ادھر ادھر ہوگیا ہو ۔ اس وجہ سے ہم نے 39 ارکان کو تصور کیا ۔

وکیل نے کہا کہ نمبر پر اختلاف ہے لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کا اختیار نہیں تھا ۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبردنیا کو اسرائیل کی جوہری صلاحیت کے بارے میں خوفزدہ ہونا چاہیے: خواجہ آصف دنیا کو اسرائیل کی جوہری صلاحیت کے بارے میں خوفزدہ ہونا چاہیے: خواجہ آصف ایرانی سپریم لیڈر زیرِ زمین پناہ گاہ منتقل، اسرائیلی حملوں کے بعد تہران میں ہنگامی صورتحال ایران نے موساد کے ایک ایجنٹ کو پھانسی دیدی امریکا، ایران-اسرائیل جنگ میں شامل ہوسکتا ہے: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کراچی: صدر میں کسٹمز کا چھاپہ، 3 کروڑ مالیت کے بھارتی ساختہ موبائل فونز اور دیگر اشیاء برآمد امریکا نے سفارتی عملے کو اسرائیل چھوڑنے کی ہدایت کردی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • قومی اسمبلی :قادر پٹیل کے نان فائلرز سے متعلق پالیسی پر طنزیہ جملے،  سپیکر بھی مسکراتے رہے 
  • نان فائلرز کو کوئی رشتہ نہیں دے گا، سموسے خریدیں تو ساتھ چٹنی نہیں ملے گی،قادر پٹیل کے نان فائلرز سے متعلق پالیسی پر طنزیہ جملے
  • حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی بجٹ سے ناخوش، حکومت سے بڑا مطالبہ کردیا
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛ سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث
  • قومی اسمبلی اجلاس:عبدالقادر پٹیل کے نان فائلرز پر طنزیہ جملے، اسپیکر ایاز صادق بھی مسکراتے رہے
  • پرتشدد ریلی کیس:عالیہ حمزہ، انتظار پنجوتھہ اور فلک ناز بلوچ کی عبوری ضمانتیں منظور
  • پرتشدد ریلی کیس: عالیہ حمزہ، انتظار پنجوتھہ اور فلک ناز بلوچ کی ضمانت منظور
  • عافیہ صدیقی کی رہائی پر کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا( عدالت کاحکومت سے استفسار)
  • ڈاکٹر عافیہ کی رہائی درخواست پر حکومت کو آخر کیا نقصان ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ