Juraat:
2025-09-19@01:44:03 GMT

کوئی فرق نہیں

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

کوئی فرق نہیں

آواز
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی
ہمیشہ کہا جاتاہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے ۔اکثریت آبادی کا حال اور حالت ِ زار دیکھ کرہر دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان کو یقین آجاتاہے کہ واقعی پاکستان غریب ملک ہے لیکن دنیاکو اس بات پرمطلق یقین نہیں۔اب تو کوئی ہم پر اعتبار بھی نہیں کرتا الٹا مذاق اڑاتے ہیں۔ لمبے چوڑے پاکستانی وفود جب قیمتی لباس میں ملبوس بیرونی ممالک میں اپنے ہم وطن متاثرین کیلئے امدادکیلئے بات کرتے ہیں تو دنیا ہم پرہنستی ہے یہ ٹھاٹھ اور امداد کی اپیل۔ ۔واہ بھئی واہ۔ یہی حال غیرملکی سرمایہ کاری کا ہے ہماری اشرافیہ نے نہ جانے کون کون سے ممالک میں جزیرے خرید رکھے ہیں ،جب ہمارے بیشتر حکمرانوں نے اربوں کھربوں سے اپنے کاروبار لندن، دبئی، ملائشیا، سعودی عرب اور امریکہ میں شروع کررکھے ہیں تو کون پاگل پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا؟ اشرافیہ کی اسی منافقت نے پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیا ہے۔
ایک سوئس بینک ڈائریکٹر کا کہناہے کہ اس وقت پاکستان کی اشرافیہ کے98 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ رقم پاکستان میں انویسٹ کردی جائے تو30سال کیلئے پاکستان ٹیکس فری بجٹ پیش کر سکتاہے۔6کروڑ پاکستانیوں کیلئے روزگاراورملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔500سے زیادہ پاور پراجیکٹ کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجلی فری دی جا سکتی ہے، کراچی ، پشاور سمیت ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک چاررویہ سڑکوں پر مشتمل نئی ہائی وے بنائی جا سکتی ہے ۔یا ہر پاکستانی کو چار سال تک20000روپے ماہانہ وظیفہ دیا جا سکتاہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی مل سکتی ہے ۔اس انکشاف میں جن خیالات کااظہار سوئس بینک ڈائریکٹر نے کیا ہے یہ تو ایک خواب ہے جو پوری پاکستانی قوم دیکھ دیکھ کر تھک گئی ہے لیکن اس کی تعبیر آج تلک نہیں دیکھی۔
روز خوابوں میں ملاقات رہا کرتی تھی
ا ور خواب شرمندہ ٔ تعبیرہوا کرتے تھے
ایک اور خاص بات چوہدری نثار،عمران خان ، چوہدری برادران ،شریف فیملی ، الطاف حسین،طاہرالقادری اور آصف علی زرداری پر ہی موقوف نہیں ہمارے ملک کے ارکان ِ اسمبلی، سینیٹ ممبران حتیٰ کہ بلدیاتی اداروں کے چیئرمین وائس چیئر مین کی اکثریت تک کسی ایک کا بھی لائف اسٹائل عوام جیسا نہیں ہے اور تو اور ہمارے مذہبی رہنما جو قوم کو دن رات سادگی کا بھاشن دیتے نہیں تھکتے ۔ان کے حالات دیکھ لیں مولانا فضل الرحمن،مولانا طارق جمیل، مولانا تقی عثمانی، شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہرالقادری جیسے رہنما تو خیر نامی گرامی ہیں، ان کا ذکر ہی چھوڑیں جو ان کی بی کیٹاگری کے مذہبی رہنما ہیں ان کا لائف سٹائل کا اندازہ لگا لیں۔ حقیقت آشکار ہوجائے گی ۔پھر اس ملک کے گدی نشینوںکا جائزہ لیں اکثرپیروں کی اربوں پائونڈ کی جائدادیں برطانیہ کے مہنگے ترین علاقوںمیں ہیں۔ یہ پھر بھی اپنے غریب مریدین سے چندہ لینا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ25میں سے20کروڑ عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، انہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ۔عام آبادیوںمیں رہنے والے سیوریج کے ابلتے گٹروں سے پریشان ہیں۔ برسات کے دنوںمیں ان کے لئے نمازکے لئے مساجد جانا مشکل ہوجاتاہے ۔جنازے قبرستان لے جانا کوئی ان غریبوںسے پوچھے زندگی کی ، بنیادی سہولتوں کے لئے عام آدمی پریشان ہے۔ مہنگائی ،بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ،بیماری اورغربت نے عوام کی اکثریت کا ناک میں دم کررکھاہے جبکہ ہمارے غریب سے غریب ایم پی اے، سنیٹر، ایم این اے کے وسائل اتنے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جب ان کی حالت اور حالات عام آدمی جیسے نہیں ہیں تو پھر انہیں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے آشنائی کیسی ؟انہیں عوامی مسائل کیا خبر؟ اور عوام کی فلاح کیلئے سوچنا کیسا؟ غریبوں کی دکھ بھری داستان سن کر وہ تو یہی کہیں گے کہ بیوقوفو! روٹی نہیں ملتی تو کیا ہوا ڈبل روٹی کھا لیا کرو۔ اس وقت ملک میں جمہوریت کے جتنے دعوے دارہیں یا جو لیڈرعوام کو مختلف سبز باغ دکھا رہے ہیں۔جو غریب کی بات کررہے ہیں غربت کے خلاف جدوجہد کے داعی ہیں سب کے سب۔۔ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔تمام کے تمام حمام میں ایک جیسے۔ ان کے قول وفعل میں تضادہے ۔عوام کے ساتھ ٹوپی ڈرامہ ہورہاہے کوئی غربیوں سے ہمدردی جتاکر، کوئی اسلام کا نام لے کر،کوئی سسٹم کو گالیاں دے کر اپنا الو سیدھا کررہاہے ۔ ان کا ”طریقہ ٔ واردات” مختلف ہو سکتاہے مشن اور پروگرام ایک جیساہے جیسے سب بھیڑوں کے منہ ایک جیسے ہو تے ہیں۔ا ن کے پاس بڑے بڑے محلات ہیں غریب کو کرائے کا مکان بھی نہیں ملتا
خداوند تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری، سلطانی بھی عیاری
عوام کی محبت کا دم بھرنے والوں میں ایک عمران خان بھی ہیں جن کے پاس لاہور کے علاوہ میانوالی اور اسلام آبادبنی گالہ میں کئی سو ایکڑوں پر مشتمل محلات ہیں۔ میاں نوازشریف فیملی کے پاس بھی ماڈل ٹاؤن ،مری ، لندن میں بڑے بڑے محلات ہیں ، جاتی عمرہ میں تو مربعوں پرمحیط فارم، اوروسیع و عریض گھر۔ اسی طرح سابقہ صدر آصف علی زرداری کے پاس کراچی ،لاہور،دئبی اور فرانس میں عالیشان محلات ہیں سرے محل بھی ان کی ملکیت ہے صرف لاہور کا بلاول ہائوس100کنال کا بتایا جاتاہے ۔چوہدری پرویز الہٰی اور چوہدری شجاعت کے پاس گجرات ،لاہور اوربیرون ِ ممالک میں گھرموجود ہیں۔ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین کے برطانیہ میں مہنگے فلیٹس، شیخ الاسلام طاہرالقادری کی کنیڈا اور لاہور میں عالیشان رہائش ہے اور تو اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے خاندان کی سینکڑوں کنال اراضی ، گاڑیاں ،قیمتی رہائش گاہیں اور نہ جانے کیا کیا ،اعلانیہ غیر اعلانیہ کی بات بس چھوڑ ہی دیں۔
اب آپ کے سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ ہمارے سب کے سب قومی رہنماؤں کا رہن سہن عام آدمی کی زندگی سے کوئی میل کھاتا ہے یا نہیں لیکن اس کے باوجود سب عوام کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں سب میں کوئی فرق نہیں ہے؟ ایک جیسے وعدے ، ایک جیسے دعوے ایک جیسا حکمرانی کا انداز کچھ بھی نہیں مختلف نہیں عوام تو بے چارے اتنا ہی کہہ سکتے ہیں خدارا !پاکستان پررحم کھائیں آزادی کو مبہم نہ بنائیں آج الحمداللہ پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت ہے لیکن ہمارے حکمران ایٹم بم کو کشکول میں رکھ کر دنیا سے کبھی امداد، کبھی قرضے اور کبھی بھیک مانگتے پھرتے ہیں اس کے علاوہ نصف صدی سے کرپٹ عناصر نے پاکستان کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیاہے یہ الگ بات ہے کہ
ہمیشہ کہا جاتاہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اکثریت آبادی کا حال اور حالت ِ زار دیکھ کر ہم وطنوں کو اس کا یقین ہو جاتاہے لیکن دنیا ہماری حقیقت جان گئی ہے اسی لئے کوئی سیدھے منہ بات کرنا بھی پسندنہیں کرتا۔ یہ کتنی مضحکہ خیز صورت ہے کہ پاکستان ایک ملک غریب ہے اور اس کے لوگ امیر بلکہ امیر ترین۔ان میں سے کسی کو پاکستان پر ترس نہیں آتا پاکستانی شخصیات کے98 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں جس سے پورے پاکستان کے ہر شخص کیلئے بلا امتیاز دائمی خوشیاں خریدی جا سکتی ہیں لوگوں کو مہنگائی ،بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ، بیماری اورغربت سے نجات مل سکتی ہے لیکن اس کے بارے سوچنا بھی گناہ فرض کرلیا گیا ہے جو لجھے دار باتیں کرتاہے۔ غریبوں کے حقوق کی صدا بلند کرتاہے،روٹی کپڑا مکان دینے کے نعرے لگاتاہے لمبی چوڑی باتیں کرتاہے شیخ چلی کی طرح خیالی پلاؤ پکاتاہے۔ ہمارے معصوم ہم وطن اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں کچھ عرصہ بعد معلوم ہوتاہے یہ بھی راہبرکے روپ میں راہزن تھا کئی سر پیٹ لیتے ہیں کئی لوگوں میں اس کی بھی سکت نہیں ہوتی ،جس نظام میں یہ سب کچھ ہورہاہے آخر اس نے فناہوناہے ایک دن عروج کو زوال آناہے صرف عوام کی سوچ بدلنے کی دیرہے ان کے دن پھر جائیں گے جن لیڈروں کا لائف سٹائل عوام جیسا نہیں ان کو عوام کی نمائندگی کا بھی حق حاصل نہیں ہونا چاہیے یہ بھی قانون بننا چاہیے جن کی دولت کسی بھی انداز سے دوسرے ممالک میں موجودہو ان کو سرکاری و عوامی نمائندگی کیلئے نااہل قراردیدیا جائے یہی پاکستانی مسائل کا حل ہے اگر رعائت دینی ہے تو کوئی حد تجویزکرلیں اس کے بعد بے رحم احتساب۔جو اس کی زدمیں آئے اسے الٹا لٹکا دیا جائے۔ پاکستان کی بدولت یہ لوگ ارب کھرب پتی بنے ہیں اب پاکستان کو ریٹرن کرنے کا وقت آن پہنچاہے لگتاہے قرباتی کا موسم قریب ہے قربانی بھی دو چار افرادکی پھر قوم حقیقی تبدیلی کی منزل پا لے گی وگرنہ کچھ بھی نہیں ہونے والا۔پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت ہے لیکن ہمارے حکمران ایٹم بم کو کشکول میں رکھ کر دنیا سے کبھی امداد، کبھی قرضے اور کبھی بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ جس ملک میں ٹھنڈے پانی کی سبیل کے واٹرکولر پر رکھے گلاس کو زنجیرسے باندھنا پڑے اور لوگوں کو مسجد میں اپنی آخرت سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکرہو وہاں صدر یا وزیراعظم کی تبدیلی سے کیا فرق پڑے گا تبدیلی کیلئے ہر شخص کو اپنا اخلاق اور کردار تبدیل کرناہوگا ازخود یاڈنڈے کے زورپر اس کا فیصلہ بہرحال ہم نے خود کرناہے۔ اب بھی وقت ہے سوچنے کا ، سمجھنے کا،سنبھلنے کا،غورکرنے کا قدرت نے اگر ہماری رسی دراز کی ہے تو اس مہلت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ممالک میں محلات ہیں ایک جیسے بھی نہیں جا سکتی سکتی ہے ہے لیکن عوام کی ہے اور کے پاس

پڑھیں:

3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔

پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔

بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اورسعودی عرب کا دفاعی معاہدہ کسی ملک کیخلاف نہیں ،خواجہ آصف
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • پی سی بی نے ایشیا کپ کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا، ترجمان
  • ریاست کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہو سکتا، پیغام پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے ،عطاء تارڑ
  • ملکی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں :اسحاق ڈار
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • ’دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کی کوئی خودمختاری نہیں‘ نیتن یاہو کی پاکستان اور افغانستان پر تنقید