باتیں علی امین گنڈا پور کی
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہم ہتھیار لے کر آئیں گے، سینے پر گولی ماریں گے تو ان کی کمر پر گولی ماریں گے۔ علی امین گنڈا پور کا یہ تازہ فرمان سامنے آیا ہے بالکل ٹھیک کہا یہ ایسا کر سکتے ہیں، جس شخص کے پاس چند بوتلیں ہوں اور یہ پکڑی جائیں تو شہد کی بوتلیں بن جائیں، آخر کوئی تو طاقت اس شخص کے پاس ہوگی ناں کہ بوتلیں نہ پکڑی جائیں تو ان کا کوئی اور ہی رنگ اور نشہ ہوتا ہے، پکڑی جائیں تو شہد کی بن جائیں۔ یہ کام کسی جادو سے کم نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے ان کے پاس جادو کی کوئی نئی قسم آئی ہوگی۔ علی امین ایک عوامی آدمی ہیں، اپنے علاقے میں یہ شیخ رشید کی مانند سیاست کرتے ہیں لہٰذا ان کے بیانات کو بھی بالکل اسی طرح لیا جائے جیسے شیخ رشید کے بیانات ہوتے تھے یا ہوتے ہیں۔ عمران خان کے ہامی کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت اصولوں کی سیاست کی ہے۔ کرپشن نہیں کی، ایمان دار ہیں، جی دار ہیں، جرأت مند ہیں، جی ہوسکتا ہے کہ ایسے ہی ہوں جیسا کہ ان کے ہامی خیال کر رہے ہیں لیکن یہ دنیا ہے اور سیاست ہے یہاں دعوئوں کی نہیں عمل کی اہمیت ہے۔ دعوے تو ضیاء الحق نے بھی کیے تھے، پرویز مشرف نے کیا کم دعوے کیے تھے! نواز شریف ہوں یا دیگر سیاست دان کم دعویٰ کرتے ہیں؟ ہم ا ن کا عمل دیکھتے ہیں۔ ہم سے مراد عوام ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے اور یہ بات ریکارڈ پر ہے عمران خان کبھی بھی اس بات کو جھٹلا نہیں سکیں گے۔ ریفرنڈم میں انہوں نے پرویز مشرف کی حمایت اس لیے کی تھی کہ انہیں یقین دلایا گیا کہ وزارت عظمیٰ کے لیے وہی بہترین چوائس ہیں۔ پھر جب حالات نے پلٹا کھایا تو عمران خان صرف اپنی نشست میاں والی سے جیت سکے بلکہ ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ عمران خان کو جتوایا گیا ہے۔ اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا اس لیے تو کہہ رہا ہوں کہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات ہو۔
2002 کے عام انتخابات کی ’’بنیادی سائنس‘‘ یہ تھی جو بھی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اس کا کم از کم ایک امیدوار تو ضرور جیت جانا چاہیے اور اسے اسمبلی میں لایا جائے اسی لیے مولانا طارق اعظم، عبد الرئوف مینگل، علامہ طاہر القادری، عمران خان، شیخ رشید احمد جیسے راہنماء اسمبلی میں جیت کر آئے۔ راجا ظفر الحق ایک مدبر سیاست دان ہیں، جہاں دیدہ ہیں، انہیں بھی پرویز مشرف نے ملاقات میں کہا تھا، تیار ہوجائیں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالیے اسمبلی میں وہی آئے گا جس کے سر پر وہ ہاتھ رکھیں گے۔ راجا صاحب نے کہا کہ ابسلیوٹلی ناٹ۔ پھر کیا ہوا؟ انتخابات ہوئے تو راجا صاحب شکست کھا گئے۔ اس انتخابات میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی تاہم انہیں اتنی نشستیں مل گئیں کہ وہ اسمبلی سے باہر رہنے کا رسک نہیں لے سکتی تھیں۔ بس یوں کہہ لیں یہ ایسے انتخابات تھے جن میں سب کچھ پہلے سے طے تھا کہ کون کیا بنے گا اور کون کن نشستوں پر بیٹھے گا۔ ملک کی سیاست آج بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے سب کچھ طے ہے کہ کون کہاں بیٹھے گا؟ کون اندر ہوگا کون اندر نہیں ہوگا‘ باقی ہمارے سیاست دانوں کی مرضی ہے وہ جس طرح کے چاہیں بیان دے سکتے ہیں۔ بیان دینے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہاں مگر پابندی ہے کہ جو کچھ طے ہے اسے نہیں چھیڑنا بس ایک خاص دائرے میں رہ، جو بھی بیان دینے ہیں دیتے چلے جائو۔
ایک بات اگر پلے باندھ لی جائے تو اس ملک کی سیاست بھی درست ہوسکتی ہے وہ بات یہ ہے کہ سیاست دان اپنی ذمے داری پہچانیں۔ عوام کی طاقت سے جمہوریت لائیں۔ پارلیمنٹ میں آنے اور پھر حکومت کرنے کے لیے کسی سہارے کی تلاش میں نہ رہیں۔ اگر عوام انہیں مسترد کردیں تو عوام کا فیصلہ قبول کریں۔ کسی کے کہنے پر دھرنے نہ دیں، احتجاج کے لیے کنٹینر نہ سجائیں، ملک کو آگے چلنے دیں۔ عوام میں جائیں اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کریں تو اس ملک میں جمہوریت آسکتی ہے ورنہ نہیں آسکتی۔ الٹے بھی لٹک جائیں اس ملک میں جمہوریت نہیں آسکتی۔ یہ بات بھی سمجھ لیجیے جمہوریت ہوتی یا نہیں ہوتی، یہ نیم جمہوری نظام، کنٹرولڈ جمہوری نظام، ہائبرڈ جمہوری نظام، جمہوریت نہیں ہوتی، اسے بندوبست کہتے ہیں، ایک عارضی بندوبست، اسے جمہوریت کہنا ہی جمہوریت کی توہین ہے اور جو جو بھی اس طرح کے نظام کا حصہ ہے یا رہا ہے یا رہنے کا خواہش مند ہے وہ جمہوریت کا ہامی نہیں ہے وہ اپنے لیے کسی بندو بست کا منتظر ہے۔ سیاست دان اپنی سمت درست کرلیں تو سیاست دانوں کو سدھارنے والے اور انہیں چلانے، لانے اور نکالنے والے بھی اپنی سمت درست کرلیں گے۔
جب ملک کے سیاست دانوں کی ایک بڑی اکثریت یہ کہہ رہی ہو کہ ’’آجا تینوں اکھیاں اڈھیک دیاں دل واجاں مار دا‘‘ تو ان کا دل نہیں کرتا کہ سیاست دانوں کی آواز اور کوک سنیں لہٰذا کسی کو برا مت کہیں، سیاست دان خود درست ہوں، حقیقی معنوں میں عوام کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور ان کے ووٹ سے پارلیمنٹ میں آئیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر بجٹ بھی عوام کے لیے ہی آئیں گے آئی ایم ایف کے لیے نہیں۔ پھر جمہوری حکومت کی مرضی ہوگی، کسی کو توسیع دے نہ دے اور کوئی چوں بھی نہیں کرسکے گا۔ جو سیاست دانوں کی اپنی کوئی رائے نہ ہوگی تو جو قوت میں ہوگا رائے تو پھر اسی کی ہوگی۔ پھر وہی فیصلہ کرے گا کہ جمہوریت کو کس ناکے پر روکنا ہے جب اسلحہ اٹھا کر اسلام آباد چڑھائی کی دھمکی دی جائے گی اور اسے ہی سیاست سمجھا جائے گا تو پھر جان لیجیے جس کے لیے اسلحہ اٹھانے کی بات ہورہی ہے وہ بے چارہ ملاقاتیوں کے انتظار میں ہی بیٹھا رہے گا۔ کوئی اسے اصول پسند کہے یا نیلسن مینڈیلا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سیاست دانوں کی سیاست دان کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)