data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (کامرس )پاکستان کیمیکلز اینڈ ڈائز مرچنٹس ایسوسی ایشن (پی سی ڈی ایم اے) کے چیئرمین سلیم ولی محمد نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی بڑھتی ہوئی کمپلائنس کی شرائط پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ موجودہ پالیسی گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ریونیو کے ہدف حاصل کرنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔انہوں نے پی سی ڈی ایم اے اراکین کے ساتھ پوسٹ بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر نے تاجر برادری سے مشاورت کے بغیر غیر آزمودہ کمپلائنس کے ضابطے متعارف کروائے ہیں۔ہر ہفتے نئے تقاضے عائد کیے جا رہے ہیں مگر ٹیکس دہندگان مارچ اور اپریل 2025 کے درست سیلز ٹیکس ریٹرن فائل کرنے میں ابھی بھی مشکلات کا شکار ہیں۔انہوں نے خاص طور پر 2025-26 کے وفاقی بجٹ میں شامل کیے گئے نئے الیکٹرانک انوائسنگ اور ای فائلنگ سسٹم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات اسٹیک ہولڈرز کی رائے کے بغیر کاروباری اداروں کی مشکلات کو نظر انداز کرتے ہوئے نافذ کیے گئے ہیں۔ ایف بی آر کو مزید ماہانہ کمپلائنس کے بوجھ ڈالنے کی بجائے پہلے موجودہ فائلنگ کے مسائل حل کرنے چاہیے۔پی سی ڈی ایم اے اراکین نے ایف بی آر افسرص ان کو دیے گئے اضافی صوابدیدی اختیارات پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ سلیم ولی محمد نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے پاس کسی بھی ایف بی آر افسر کے اختیارات کے غلط استعمال کی شکایت کرنے کا کوئی مناسب فورم موجود نہیں ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ تجارتی تنظیموں اور ایف بی آر کی مشترکہ کمیٹی بنائی جائے جو کسی بھی جبری کارروائی کا جائزہ لے سکے۔اگرچہ ایسوسی ایشن نے بجٹ میں نان فائلرز کے خلاف کارروائی اور اہل/غیر اہل ٹیکس دہندگان کی نئی درجہ بندی کو سراہا لیکن انہوں نے واضح کیا کہ کمپلائنس کے مسائل حل کیے بغیر ریونیو کے اہداف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ غیر واضح پالیسیاںکاروباری اداروں اور ایف بی آر دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کرتے ہوئے ایف بی ا ر انہوں نے

پڑھیں:

جی7 اجلاس میں صدر ٹرمپ کا غیر متوقع قدم، جنگ بندی کی کوشش یا نئی کشیدگی؟

امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر گروپ آف سیون یعنی جی7  اجلاس میں قیام مختصر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ سربراہانِ مملکت کے ساتھ عشائیے کے بعد وطن واپس روانہ ہو جائیں گے۔

امریکی صدارتی ترجمان کیرولین لیوٹ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بتایا کہ کئی امور پر پیش رفت ہوئی، لیکن مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے باعث صدر ٹرمپ عشائیے کے بعد وطن واپس جا رہے ہیں، انہوں نے اجلاس میں پیش کیے گئے ایران-اسرائیل کشیدگی میں کمی سے متعلق مشترکہ اعلامیے پر دستخط سے بھی انکار کر دیا ہے۔

جی7 اجلاس میں پہلے ہی روس-یوکرین جنگ اور ایران-اسرائیل کشیدگی جیسے عالمی تنازعات پر رکن ممالک کے مابین واضح اختلافات موجود تھے، ٹرمپ کی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی کھلی حمایت اور G7 اتحادی ممالک پر درآمدی محصولات عائد کرنے کی پالیسی نے ماحول مزید کشیدہ بنا دیا۔

یہ بھی پڑھیں:

تاہم فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ٹرمپ کی اچانک روانگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی روانگی دراصل مثبت پیش رفت ہے، کیونکہ اس کا مقصد جنگ بندی کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے۔

کینیڈا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے باعث جلد از جلد واشنگٹن واپس جا رہے ہیں، دوسری جانب صدر ٹرمپ نے ایرانی عوام کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر خبردار کرتے ہوئے فوراً تہران خالی چھوڑنے کا بھی کہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اصل میں منگل کے آخر تک کینیڈا میں رہنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن پیر کی دوپہر تک یہ اشارہ دینا شروع کر دیا تھا کہ ان کی توجہ کسی اور طرف ہے کیونکہ وہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے اپنے اختیارات پر غور کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کناناسکس کے ریزورٹ ٹاؤن میں رہنماؤں سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ان کے خیال میں ایران بنیادی طور پر مذاکرات کی میز پر ہے جہاں وہ معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ ’جیسے ہی میں یہاں سے جاؤں گا، ہم کچھ کرنے جا رہے ہیں۔‘

ادھر وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکا اب تک اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں شامل نہیں، تاہم اگر امریکی مفادات کو نشانہ بنایا گیا تو سخت جواب دیا جائے گا۔

جی7 اجلاس میں اختلافات، ٹرمپ کا مشترکہ اعلامیہ پر دستخط سے انکار

جی سیون اجلاس میں یورپی رہنماؤں کی جانب سے ایران اور اسرائیل کے تنازع پر پیش کردہ مشترکہ اعلامیہ کو صدر ٹرمپ نے مسترد کر دیا ہے، اعلامیے میں اسرائیل کے دفاع کے حق اور ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے پر زور دیا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے دستخط نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اجلاس میں شرکت ہی یکجہتی کا اظہار ہے۔

روس کو ثالث بنانے پر بھی اختلاف

امریکی صدر نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو ثالثی کے لیے موزوں قرار دیا جبکہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے روس کے کردار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین جنگ میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کے باعث روس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر روس آج بھی جی7 کا حصہ ہوتا تو شاید یہ جنگ نہ ہوتی۔

امریکی فوجی کارروائی پر صدر ٹرمپ کی خاموشی

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف ممکنہ امریکی فوجی کارروائی کے سوال پر جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ایران جوہری ہتھیار بنائے، اور ہم اس میں کامیابی کی طرف جا رہے ہیں اور کچھ ہونے والا ہے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے 2 ماہ قبل ایران کو جوہری معاہدے پر دستخط کے لیے مہلت دی تھی، جو جمعہ کے روز مکمل ہوئی، اور اسی دن اسرائیل نے ایران پر غیر معمولی حملے شروع کر دیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امریکی صدر ایران جی7 ڈونلڈ ٹرمپ روس صدر پیوٹن کینیڈا

متعلقہ مضامین

  • 26نومبر احتجاج پر درج مقدمات؛ پی ٹی آئی رہنماؤں کی عبوری ضمانتوں پر توسیع
  • جی7 اجلاس میں صدر ٹرمپ کا غیر متوقع قدم، جنگ بندی کی کوشش یا نئی کشیدگی؟
  • ایران پر اسرائیلی حملے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں، شہباز شریف
  • وزیراعظم نے ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کی گرفتاری کے قوانین میں تبدیلی کرا دی
  • پنجاب کا 26-2025ء کیلئے5335 ارب روپے کا بجٹ پیش، اپوزیشن کا احتجاج
  • زرعی جنگلات پائیداراورلچکدار زراعت کی تعمیر کے لیے اہم ہیں.ویلتھ پاک
  • ایران کو اپنے دفاع اور جوابی کارروائی کا پورا حق ہے، ن لیگ کوئٹہ
  • ایران کا دفاعی موقف برقرار، سید عباس عراقچی کا دوٹوک اعلان
  • امریکہ بھر میں احتجاج، ڈھول بجاتے اور رقص کرتے مظاہرین کے ٹرمپ کیخلاف نعرے