متحدہ عرب امارات میں نئے ہجری سال پر سرکاری تعطیل کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ابوظہبی: متحدہ عرب امارات نے اسلامی نئے سال 1447 ہجری کے آغاز پر یکم محرم کو سرکاری تعطیل کا اعلان کر دیا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق حکومت کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہےکہ جمعہ 27 جون کو ملک بھر میں سرکاری ادارے بند رہیں گے۔
فیڈرل اتھارٹی فار گورنمنٹ ہیومن ریسورسز (FAHR) کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تعطیل کا اطلاق صرف پبلک سیکٹر کے ملازمین پر ہوگا، جس کے نتیجے میں انہیں جمعہ، ہفتہ اور اتوار کی تین دنوں پر مشتمل طویل تعطیلات ملیں گی۔ سرکاری دفاتر پیر 30 جون سے دوبارہ کھلیں گے۔
واضح رہے کہ اسلامی کیلنڈر قمری مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے اور نیا ہجری سال ماہ محرم کی پہلی تاریخ سے شروع ہوتا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں مذہبی مواقع پر سرکاری تعطیلات کا اعلان کیا جانا ایک معمول ہے، جس کے تحت عوام اور سرکاری ملازمین کو اہم دینی مواقع پر سکون و عبادت کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
اس اعلان کو عوامی سطح پر خوشی سے سراہا جا رہا ہے کیونکہ اس سے شہریوں کو دینی عبادات اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع میسر آئے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن
ملتان میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے، پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ خیر المدارس ملتان میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیراہتمام جنوبی پنجاب کے ملحقہ دینی مدارس کا عظیم الشان اجتماع خدماتِ تحفظِ مدارسِ دینیہ کنونشن کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اجلاس میں جنوبی پنجاب کے چار ہزار سے زائد مدارس و جامعات کے مہتممین اور ذمہ داران نے شرکت کی۔ کنونشن میں کہا گیا کہ مدارس کے خلاف ہتھکنڈے بند کریں ورنہ کفن پہن کر اسلام آباد کا رخ کرلیں گے، اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سرپرست مولانا فضل الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اسلامی نظام کے لئے پنجاب والے اٹھیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں مجبور نہ کیا جائے ہم سڑکوں پر آکر اسلام آباد کی طرف رخ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا مقصد نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بھڑکانا ہے۔ لیکن وفاق المدارس اور جمعیت علمائے اسلام نے نوجوانوں کو امن و استحکام کا پیغام دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بیرونی طاقتیں ان اداروں سے خائف ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا، لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر آج تک قانون سازی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ قوتیں ملک میں ایسے ماہرینِ شریعت نہیں دیکھنا چاہتیں جو شریعت کے مطابق قانون سازی کر سکیں۔ انہوں نے حقوقِ نسواں، نکاح کی عمر، گھریلو تشدد، اور وقف قوانین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب بیرونی دباو کے نتیجے میں بنائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے حکومت پنجاب کے آئمہ کرام کو دیے جانے والے 25 ہزار روپے ماہانہ وظیفے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ رقوم ضمیر خریدنے کی کوشش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے خبردار کیا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔