ہم صیہونیوں پر کوئی رحم نہیں کریں گے: ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
تہران(نیوز ڈیسک) ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف سخت جوابی کارروائی کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ایران صیہونی حکومت کو سخت جواب دے گا اور ان پر کوئی رحم نہیں کیا جائے گا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر انگریزی زبان میں کیے گئے اپنے پیغام میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ ہمیں دہشت گرد صیہونی حکومت کو ایک طاقتور جواب دینا ہو گا، ہم صیہونیوں پر کوئی رحم نہیں کریں گے۔
یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کو دی گئی دھمکیوں کے باوجود سامنے آیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ تہران اسرائیلی حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے پرعزم ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں سپریم لیڈر کا یہ بیان تہران کی جانب سے کسی بھی مزید حملے کی صورت میں سخت ردعمل کا عندیہ دیتا ہے۔
یاد رہے کہ ایران کی جانب سے آپریشن صادق سوم کی 10 ویں لہر کا آغاز ہوچکا ہے جس سے اسرائیلی ایئر بیسز پر بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا گیا جبکہ 13 جون سے اب تک ایرانی میزائل حملوں میں 14 اسرائلی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای تنہا پڑتے جا رہے ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جون 2025ء) چھیاسی سالہ، آیت اللہ علی خامنہ ای ایران کو اس کے سب سے خطرناک سیاسی اور دفاعی حالات میں کشتی کو پار لگانے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، باوجودیکہ وہ خود اسرائیل کے اہم اہداف میں سے ایک ہیں۔ ان کے کئی اعلیٰ فوجی اور انٹیلیجنس مشیر یا تو ہلاک ہوچکے ہیں یا لاپتہ ہیں، جس نے فیصلہ سازی کے بنیادی مرکز کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ایسے اقدامات کے خدشات کو جنم دیا ہے جو ممکنہ طور پر ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
حماس کے ساتھ جو کیا وہ ایران مت بھولے، اسرائیل کا انتباہ
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق، جس میں خامنہ ای کے انتہائی قریبی حلقے سے وابستہ پانچ افراد کا حوالہ دیا گیا ہے، پاسداران انقلاب کے سینیئر اہلکاروں کے ہلاک ہو جانے سے، جن پر سپریم لیڈر سب سے زیادہ بھروسہ کرتے تھے، نے ایک اہم اسٹریٹجک خلاء پیدا کر دیا ہے۔
(جاری ہے)
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے پیر کو اے بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ علی خامنہ ای کو ختم کرنے سے جنگ میں اضافہ نہیں ہو گا بلکہ یہ’’ختم‘‘ ہو جائے گی۔
غلط اندازے کا خطرہروئٹرز کی رپورٹ میں بیان کردہ ذرائع میں سے ایک، جو اکثر خامنہ ای کے ساتھ ملاقاتوں میں شریک رہے ہیں، نے خبردار کیا کہ صورت حال ایک نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’دفاعی اور داخلی استحکام کے معاملات پر ایران کے لیے غلط حساب کتاب کا خطرہ انتہائی خطرناک ہے۔
‘‘حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں میں، جس میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران شدت آئی ہے، کئی اعلیٰ کمانڈروں بشمول پاسداران انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی، ایران کے میزائل پروگرام کے سربراہ امیر علی حاجی زادہ اور اس کے اعلیٰ انٹیلی جنس سربراہ محمد کاظمی ہلاک ہو گئے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مذکورہ بالا تمام افراد ان 15-20 لوگوں میں شامل ہیں جنہیں خامنہ ای کی بنیادی مشاورتی ٹیم کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
امریکی حملے کی صورت میں ایرانی ردعمل سخت ہو گا، خامنہ ای
سن انیس سو نواسی میں اقتدار میں آنے کے بعد سے، آیت اللہ علی خامنہ ای ایران کی مسلح افواج اور اہم ریاستی تقرریوں پر حتمی کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کی آہنی گرفت کے باوجود، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ باقاعدگی سے اپنے مشیروں سے مشورہ کرتے ہیں، مسابقتی نقطہ نظر کو سنتے ہیں، اور فیصلہ کرنے سے پہلے تفصیلی معلومات پر اصرار کرتے ہیں۔
رپورٹ میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں ایران پروگرام کے ڈائریکٹر الیکس واٹنکا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’’خامنہ ای کے بارے میں آپ دو باتیں کہہ سکتے ہیں: وہ انتہائی ضدی ہیں لیکن انتہائی محتاط بھی ہیں۔‘‘
ایک کھوکھلا دائرہقتل کا حالیہ سلسلہ ایسے وقت شروع ہوا جب ایران بہت زیادہ دباؤ میں ہے۔ مغربی پابندیوں کے تحت گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے گھر میں بڑھتی ہوئی بدامنی، اور اسرائیل کے ساتھ بڑھتا ہوا تنازع، جس نے ایرانی فوجی اور جوہری اہداف پر اپنے حملوں کو تیز کر دیا ہے۔
ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں: معاہدہ یا پابندیاں، ٹرمپ
خامنہ ای کی اقتدار پر گرفت نے تاریخی طور پر 1999، 2009 اور 2022 میں احتجاج کو کچلنے کے لیے پاسداران انقلاب اور اس کی بسیج ملیشیا پر انحصار کیا ہے۔ تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ معاشی پریشانی بدامنی کو مزید سنگین بناسکتی ہے۔
اگرچہ فوجی ہلاکتوں نے شہ سرخیوں میں جگہ پائی ہے، سیاسی اور سفارتی مشیر اب بھی کام کرنے والی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
خامنہ ای کے بااعتماد ساتھیوں میں خارجہ پالیسی کے تجربہ کار علی اکبر ولایتی، کمال خرازی، پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر علی لاریجانی اور انٹیلی جنس کے ہیوی ویٹ علی اصغر حجازی شامل ہیں۔پھر بھی، اہم فوجی شخصیات کی عدم موجودگی اور اسرائیلی حکومت کی کھلی دھمکیاں ایران کے سب سے اہم میدان، یعنی اس کی علاقائی فوجی حکمت عملی اور داخلی سلامتی میں ایک خطرناک صورت حال کی نشاندہی کرتی ہیں۔
خامنہ ای کے بیٹے مجتبیٰ کا عروجاقتدار کی اس تبدیلی کے سائے میں خامنہ ای کے بیٹے، مجتبیٰ خامنہ ای سامنے آئے ہیں، جن کے کردار میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران نمایاں طور پر وسعت آئی ہے۔
ایک درمیانے درجے کے عالم، مجتبیٰ پردے کے پیچھے متعدد دھڑوں، خاص طور پر پاسداران انقلاب کے ساتھ ایک طاقتور رابطہ کار بن گئے ہیں، کو ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ایران سے باہر بھی خامنہ ای کو نقصان ہوا ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ جو ان کے قریبی ساتھی تھے ستمبر میں اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔ دسمبر میں، ایران کے ’’محور مزاحمت‘‘ کے ایک اور اہم رکن شام کے بشار الاسد، کو باغیوں نے معزول کر دیا تھا۔
جیسا کہ خامنہ ای اپنی حکمرانی کے شاید سب سے زیادہ خطرناک مرحلے کا سامنا کر رہے ہیں، اس بار، ان بہت سے ہمدردوں کے نہ ہونے سے جن پر وہ کبھی انحصار کرتے تھے اور اسرائیل کی طرف سے ایران کے ’’محور مزاحمت‘‘ پر حملے کی وجہ سے وہ مزید تنہا ہو گئے ہیں۔
لبنان کے مسلح گروپ حزب اللہ، یمن کے حوثی باغی اور فلسطین کی حماس عسکری تنظیم کے ساتھ ساتھ ایران کے دیگر پراکسی اور ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو ’’محور مزاحمت‘‘ کہا جاتا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین