اسرائیل کا تہران میں امام حسین یونیورسٹی پر حملہ، سینٹری فیوج پروڈکشن سائٹ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
اسرائیلی فوج نے تہران پر رات بھر جاری رہنے والے حملوں میں امام حسین یونیورسٹی کو نشانہ بنایا جبکہ ایک سینٹری فیوج پروڈکشن سائٹ، متعدد اسلحہ ساز فیکٹریوں پر حملوں اور متعدد ایرانی ڈرونز مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔
ایرانی نیوز ویب سائٹس کے مطابق، اسرائیل نے امام حسین یونیورسٹی کو بھی نشانہ بنایا ہے، جو کہ پاسداران انقلاب سے وابستہ ایک ادارہ ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ 50 سے زائد جنگی طیاروں نے رات بھر جاری رہنے والی کارروائیوں میں حصہ لیا، جن میں ایران کے ایک سینٹری فیوج پروڈکشن سائٹ سمیت متعدد ہتھیار ساز فیکٹریوں پر حملے شامل تھے۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران دارالحکومت تہران میں واقع سینٹری فیوج پروڈکشن سائٹ کا استعمال یورینیم کی افزودگی کی رفتار اور دائرہ کار بڑھانے کے لیے کر رہا تھا، جس کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری ہے۔
اسرائیلی فوج کے بیان کے مطابق نشانہ بنائی گئی ہتھیار ساز فیکٹریوں میں وہ سائٹ شامل ہے جہاں زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائلوں کے لیے خام مال اور پرزہ جات تیار کیے جا رہے تھے، جنہیں حالیہ عرصے میں ایرانی حکومت نے اسرائیل پر داغا ہے، خوجیر میزائل فیکٹری پر حملے کے بعد آگ لگ گئی۔
اسی طرح اسرائیلی فوج نے فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کے لیے سسٹمز اور پرزہ جات تیار کرنے والی تنصیبات کو بھی نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے، فوج نے کارروائی میں حصہ لینے والے طیاروں کے اڑان بھرنے کی ویڈیو فوٹیج بھی جاری کی ہے۔
اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ رات ایران سے اسرائیل کی جانب چھوڑے گئے 5 ڈرونز کو اسرائیلی فضائیہ نے تباہ کر دیا۔
اسرائیلی فوج کے مطابق 2 ڈرونز کو بحرِ مردار کے علاقے کے اوپر مار گرایا گیا، ایک ڈرون کو شمالی اسرائیل میں تباہ کیا گیا جبکہ گولان کی پہاڑیوں میں بھی سائرن بجنے کے بعد فضائیہ نے مزید 3 ایرانی ڈرونز کو مار گرایا ۔
تہران میں صبح 5 بجے کے قریب ایک شدید دھماکے کی آواز سنی گئی، جب کہ اس سے قبل سحر سے پہلے کے اندھیرے میں بھی کئی دھماکے ہو چکے تھے۔
ایرانی حکام نے ان حملوں کی کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی، اسرائیل نے اس سے قبل خبردار کیا تھا کہ وہ مہرآباد بین الاقوامی ہوائی اڈے کے جنوب میں واقع ایک رہائشی و صنعتی علاقے کو نشانہ بنا سکتا ہے، جہاں فوجی تنصیبات، دواساز کمپنیاں اور دیگر صنعتی ادارے موجود ہیں۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج نے کے مطابق
پڑھیں:
بلوچستان پر اسرائیلی توجہ پر توجہ کی ضرورت
کسی بھی دشمن یا ممکنہ حریف ریاست کو کمزور کرنے کا ایک آزمودہ طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کی نسلی ، علاقائی و مذہبی فالٹ لائنز اور اندرونی بے چینی کو بڑھاوا دیا جائے۔اس سلسلے میں جو مقامی طبقات یا گروہ سرگرم ہوتے ہیں ان میں سے کچھ نظریاتی ہوتے ہیں اور کچھ موقع پرست۔ کچھ ترغیبات کے پھندے میں الجھ کے کٹھ پتلی بن کے بعد میں نقصان اٹھاتے ہیں اور کچھ نظریاتی بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے صرف انھی بیرونی و اندرونی قوتوں کی اخلاقی و مادی حمائیت قبول کرتے ہیں جو ان کے نظریاتی اہداف پر اثرانداز ہونے یا انھیں بدلنے کی کوشش نہ کریں۔
جیسے ہم نے پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں دیکھا۔ مغربی استعماری طاقتوں نے سلطنتِ عثمانیہ کو منتشر کرنے کے لیے عرب قوم پرستی کو بڑھاوا دیا۔بعد از جنگ خود مختاری و حکمرانی کے سبز باغ دکھائے گئے اور جب سلطنت ختم ہو گئی تو مشرقِ وسطی کو اپنی مرضی کی سرحدوں میں بانٹ دیا گیا ( یہ عمل اب تک جاری ہے) ۔
یوں ترک اور عرب اور عرب بمقابلہ عرب ایک دوسرے سے بدظن ہو کر دوسروں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔استعماری طاقتوں نے کبھی ایک کی سرپرستی کی تو کبھی اس کے حریف کی۔اس کھیل نے پورے خطے کو کیسے کیسے جغرافیائی ، سیاسی و ثقافتی گھاؤ لگائے۔آج کے حالات میں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔
نوآبادیاتی طاقتوں کا وارث اسرائیل نہ صرف اسی کلاسیکی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے بلکہ بقول شخصے اسے ’’ نیکسٹ لیول ‘‘ پر لے گیا ہے۔اسرائیل مخالف متحدہ عرب مسلم محاز اور فلسطینیوں کی بین العرب غیر متزلزل ریاستی حمائیت ماضی کا قصہ ہیں۔
گذری پون صدی میں پہلے فلسطین کی جبری تقسیم ہوئی۔پھر مزید عرب علاقے ہتھیائے گئے اور پھر ان میں سے کچھ علاقے بطور احسان واپس کر کے شکست خوردہ ریاستوں کو اپنا ممنون بنانے کی کوشش ہوئی۔
مثلاً کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے تحت مقبوضہ سینا کی واپسی اور سالانہ فوجی و اقتصادی امداد کا دانہ ڈال کے مصر کو اسرائیل مخالف متحدہ عرب فرنٹ سے علیحدہ کیا گیا۔لبنان میں خانہ جنگی کو ہوا دی گئی تاکہ اسرائیل کی شمالی سرحد کا تحفظ ہو سکے اور پی ایل او کو بھی بیروت سے نکالا جا سکے۔ بغداد کی مرکزی بعثی حکومتوں کے مظالم کے خلاف جاری شمالی عراق میں آباد کردوں کی تحریک کو بھی اسرائیل نے بذریعہ شاہ ایران اور پھر براہِ راست خاموش مدد کے ذریعے لبھانے کی کوشش کی۔
شام سے چھینی گئی گولان کی پہاڑیوں کو ہڑپ کیا گیا اور پھر الاسد خاندان کے مکمل زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے نہ صرف شام کا بچا کھچا عسکری ڈھانچہ تتر بتر کیا بلکہ مقبوضہ گولان سے متصل شام کے جنوبی صوبے السویدا میں آباد دروزوں کے تحفظ کے نام پر ایک فوجی بفر زون قائم کر لیا۔
اب اسرائیل شام کے شمالی حصے میں آباد کردوں پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ جنوب سے شمال تک ’’ ڈیوڈ کاریڈور ‘‘ بنایا جائے اور اسرائیل کو ترکی کی گردن پر گرم گرم پھونکیں مارنے کی براہِ راست سہولت مل جائے۔شام کو کم ازکم چار حصوں میں بانٹ کے ایک مستقل خانہ جنگی کی کیفیت برقرار رکھی جائے۔دمشق میں کوئی ایسی مرکزی حکومت مستحکم نہ ہو سکے جو آگے چل کے اسرائیل کے لیے دوبارہ خطرہ بن جائے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جو ریاست فلسطینیوں کے حقِ خوداختیاری کو ٹینکوں تلے کچل رہی ہے اسی ریاست کے دل میں ان دنوں آس پاس کے ممالک میں آباد محروم اقلیتوں کی خود مختاری کا درد جاگ اٹھا ہے۔
اس تناظر میں الجزیرہ ویب سائیٹ پر شایع ہونے والی یہ رپورٹ نظر سے گذری کہ اسرائیل ایران کو کمزور کرنے کے لیے نہ صرف ایرانی بلکہ پاکستانی بلوچستان کی بے چینی کو بھی ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
فلسطینی تجزیہ کار عبداللہ موسویس کے مطابق واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( میمری ) نے بارہ جون کو بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ ( بی ایس پی ) قائم کرنے کا اعلان کیا۔
اس پروجیکٹ کا تعارف یوں کرایا گیا کہ بلوچستان ( ایرانی و پاکستانی ) نہ صرف یورینیم ، تیل ، گیس ، تانبے ، کوئلے اور دیگر قیمتی دھاتوں سے مالامال خطہ ہے بلکہ یہاں گوادر اور چاہ بہار کی دو قدرتی گہری بندرگاہیں بھی ہیں۔یوں اس خطے کا جغرافیہ ایرانی کنٹرول ، اس کی ایٹمی خواہشات اور اس تناظر میں پاکستان سے اس کے خطرناک ایٹمی مراسم پر اثرانداز ہونے کے لیے مثالی ہے۔
میمری تھنک ٹینک اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس میں بیس برس خدمات انجام دینے والے کرنل یگال کرمون نے انیس سو اٹھانوے میں قائم کیا۔میمری کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عربی ، ترک اور فارسی میں شایع ہونے والے ترجمہ شدہ مضامین اور اقتباسات بھی ملتے ہیں۔ دو ہزار بارہ سے یہ تھنک ٹینک اسرائیل کے لیے حساس معلومات اکٹھا کرنے کا غیر اعلانیہ کام بھی کرتا ہے۔
مگر اس ویب سائٹ پر حقائق اور تجزیے کے نام پر بہت سے بلنڈرز بھی نظر آتے ہیں۔مثلاً یہی کہ بلوچستان مغربی دنیا کا فطری اتحادی ہے۔ حالانکہ یہاں کے لوگ اچھے سے جانتے ہیں کہ بیرک گولڈ اور بی ایچ پی بلیٹن جیسی دیگر مغربی کمپنیاں یہاں کی معدنی دولت کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔
اسی طرح میمری کے بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ میں جو مضامین مختلف ناموں سے شایع ہوتے ہیں ان میں ایک نام پروجیکٹ کے معاونِ خصوصی ، مصنف ، اسکالر ، پولٹیکل سائنٹسٹ میر یار بلوچ ہے۔ دعوی کیا گیا ہے کہ میر یار بلوچ کا ایکس اکاؤنٹ جنوبی ایشیا کے سب سے بااثر اور مقبول ٹویٹر اکاؤنٹس میں شامل ہے۔
اس اکاؤنٹ پر گزشتہ مئی میں یہ پوسٹ بھی لگی کہ چھ کروڑ بلوچ آپریشن سندور کی بھرپور حمائیت کرتے ہیں۔
میر یار بلوچ کے حوالے سے بھارتی ذرایع ابلاغ میں خبریں بکثرت شایع ہوتی ہیں۔مثلاً یہی کہ تمام بلوچ قوم پرست میر یار بلوچ کے ایکس اکاؤنٹ پر موجود اعلانِ آزادی سے متفق ہیں۔بلوچ نیشنل موومنٹ کے ایکٹوسٹ نیاز بلوچ نے خبردار کیا ہے کہ میر یار بلوچ سمیت کم ازکم چار ایسے فیک اکاؤنٹس ہیں جنھیں سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔
ہم سب ایران اسرائیل بارہ روزہ جنگ میں دیکھ چکے ہیں کہ ایرانی اسٹیبلشمنٹ میں اسرائیل (موساد ) نے کتنی گہری جڑیں بنائیں۔اگلے مرحلے میں ایران اور اس سے متصل پاکستان میں چلنے والی تحریکوں کو اسرائیل اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے اور اس بابت بھارت اور اسرائیل کے باہم خیالات اور وسیع تر اسٹرٹیجک ساجھے داری نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔
حالانکہ ان مقامی تحریکوں کے اٹھنے کے بنیادی اسباب داخلی ہیں۔مگر یہ کوئی نئی بات نہیں کہ جب حکومتیں ایسی تحریکوں کے پسِ پردہ حقیقی اسباب کو مسلسل نظرانداز کر کے ان کا کوئی متفقہ قابلِ قبول سیاسی و اقتصادی حل نکالنے کے بجائے محض طاقت کے استعمال پر تکیہ کرتی ہیں تو پھر کوئی بھی بیرونی طاقت اس آگ پر اپنے مفاد میں مزید تیل ڈال کے ہاتھ تاپ سکتی ہے۔
اسرائیل کو اس ایجنڈے سے یوں بھی دلچسپی ہے کہ وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ خومختاری کی خواہش مند علاقائی تحریکوں اور فلسطینی محرومی کی تحریک کسی مشترکہ نکتے کو اپنا محور بنا کے اس کے علاقائی عزائم کی راہ میں ایک اور دردِ سر پیدا کر دیں۔چنانچہ جس جس مقامی تحریک پر بظاہر ہمدرد بن کے ہاتھ رکھا جا سکتا ہے رکھ دیا جائے تاکہ وہ فلسطینیوں سے کسی بھی مرحلے پر اظہارِ یکجہتی کے بارے میں سوچے ہی نا۔
اگر واقعی وہ ریاستیں جو فلسطین کے حقِ خود اختیاری کی دل سے حامی ہیں اور خود بھی علیحدگی پسندی کی تحریکوں کا سامنا کر رہی ہیں۔انھیں سمجھ داری برتتے ہوئے پہلے اپنے گھر کے حالات ٹھیک کرنے ہوں گے تاکہ کوئی بھی خود غرض طاقت ان کی اس کمزوری کو اپنے ایجنڈے کا ایندھن نہ بنا سکے۔
خود ان تحریکوں کی قیادت کو بھی کسی بھی دوست نما سے ہاتھ ملاتے وقت دس بار سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ مصافحہ ان کی اب تک کی کوششوں پر پانی نہ پھیر دے اور مطلبی محسن اپنا کام نکال کے چلتا بنے۔
مگر وہ جو کہتے ہیں کہ سب سے مشکل کام سب سے آسان بات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)