ایران نے امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کی تیاری مکمل کرلی: امریکی اخبار کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کی مکمل تیاری کر لی ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ اگر امریکا اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی میں براہ راست شامل ہوتا ہے، تو ایران حملوں کے لیے میزائل اور دیگر عسکری سازوسامان پہلے ہی تیار کر چکا ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ان حملوں کی ابتدا عراق سے ہو سکتی ہے، جبکہ ایران آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں نصب کرنے کی حکمت عملی بھی اپنانے پر غور کر رہا ہے۔
ادھر امریکا نے تقریباً تین درجن ری فیولنگ (ایندھن بھرنے والے) طیارے یورپ منتقل کر دیے ہیں، جو نہ صرف امریکی لڑاکا طیاروں کی معاونت کریں گے بلکہ ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ بمباری کی صورت میں طویل فاصلے تک کارروائی کی صلاحیت بھی بڑھا سکتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی حکام کو تشویش ہے کہ اگر جنگ کا دائرہ وسیع ہوا تو صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے، کیونکہ اسرائیل امریکی حکومت پر ایران کے خلاف مداخلت کا دباؤ ڈال رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق اگر امریکا فردو میں قائم ایران کی اہم جوہری تنصیب پر حملہ کرتا ہے تو اس کے ردعمل میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی جنگجو بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اس سے قبل بھی نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے جوہری ری ایکٹرز کو تباہ کرنے پر غور کر چکے ہیں۔ اخبار کے مطابق ایران کا فردو نیوکلیئر ری ایکٹر زیرِ زمین واقع ہے، اور اسے صرف امریکا کا 30 ہزار پاؤنڈ وزنی ‘بنکر بسٹر’ بم ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز ایران نے خبردار کیا تھا کہ جو بھی ملک اسرائیلی حملوں میں اس کا ساتھ دے گا، وہ اس کے سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔
جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“
سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔