WE News:
2025-06-17@20:26:45 GMT

اسرائیل۔ایران جنگ میں امریکی شمولیت کے کیا امکانات ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

اسرائیل۔ایران جنگ میں امریکی شمولیت کے کیا امکانات ہیں؟

اسرائیل ایران جنگ کے تناظر میں مشرقِ وسطٰی کی صورتحال کافی کشیدہ ہو چکی ہے اور ایک طرف مغربی ممالک جو اسرائیل کی حمایت میں سرگرم ہیں وہیں دوسری طرف روس ایران کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی چنگاری مشرقِ وسطٰی میں تیسری جنگ عظیم کا باعث بن سکتی ہے۔

اس مفروضے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکا اور برطانیہ نے خلیج میں اپنی فوجی موجودگی میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے لیکن بظاہر دوںوں ممالک یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ اضافہ خطے میں اُن کے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے نہ کہ اسرائیل ایران جنگ میں حصہ لینے کے لیے۔ خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بار بار یہ کہنا ہے کہ اُنہیں اس جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن وہ ایران سے جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: اسرائیل ایران تنازع پانچویں روز میں داخل، بڑی جنگ کا خدشہ، خامنہ ای کو صدام جیسے انجام کی دھمکی

حال میں اسرائیل۔ایران جنگ کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم صرف جنگ بندی نہیں بلکہ اس سے اچھا حل چاہتے ہیں جو کہ تنازع کا مکمل خاتمہ کرے۔ گو کہ یہ ابھی تک  وضاحت طلب بات ہے کہ مکمل خاتمے سے صدر ٹرمپ کی کیا مراد تھی لیکن اُن کے عمومی بیانات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاید پاکستان اور بھارت کی طرح سے اس جنگ کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کی جانب سے فوجی موجودگی میں اضافہ

امریکا نے اہم بحری تجارتی شاہراہ آبنائے ہرمز میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے۔ امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس نمٹز کو جنوبی چین کے سمندر سے مشرقِ وسطٰی منتقل ہونے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے جبکہ مشرقِ وسطٰی میں امریکی طیارہ بردار بحری بیڑہ یو ایس ایس کارل ونسن بھی پہلے سے موجود ہے۔یہ دونوں بحری بیڑے 44 سے 75 ہوائی جنگی جہاز ساتھ لیے پھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے 4 سے 6 ڈسٹرائر شپس تعینات اور آبدوزوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے خلیجی ممالک میں امریکی فوجیوں کی تعداد بھی 34000 سے بڑھ کر 50000 ہو چُکی ہے۔ برطانیہ نے مختلف فوجی اڈوں پر اپنے مختلف اقسام کے لڑاکا طیاروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے لیکن برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ اضافہ برطانوی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے۔

امریکا ایران پر دباؤ کے ساتھ ساتھ جنگ کی تیاری بھی کر رہا ہے: سابق سفیر مسعود خان

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب ایمبیسیڈر مسعود خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا، اسرائیل۔ایران جنگ کو لے کر 2 نکاتی حکمتِ عملی پر کام کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ ایران پر دباؤ بڑھا رہا ہے کہ ایران امریکی شرائط کے تحت معاہدہ کر لے۔ دوسری طرح وہ جنگ کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ مجموعی طور پر اس وقت مشرقِ وسطٰی کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر اس جنگ کے دائرہ کار میں اضافہ ہوا اور آبنائے ہرمز میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو امریکا جنگ میں شریک بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری صورت میں پس پردہ سفارت کاری جاری ہے اور جنگ بندی بھی ہو سکتی ہے لیکن اُس کے لیے امریکا کو قیادت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

مغربی دنیا کی حکمتِ عملی سمجھ سے بالاتر ہے: نائلہ چوہان

ایران میں پاکستان کی سابق سفارتکار نائلہ چوہان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکا محتاط پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ اُن کی اِس جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن اسرائیل امریکا کو اس جنگ میں ملوّث کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تک آبنائے ہرمز میں امریکا کی فوجی موجودگی میں اضافے کی بات ہے تو اُس کا سبب یہ ہے کہ امریکا اس اہم تجارتی راستے کو محفوظ رکھنا چاہتا کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جہاں سے خلیجی ممالک معدنی تیل اور دیگر برآمدات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران اگر آبنائے ہرمز کو بند کرنا چاہے گا تو یہ اُس کے اپنے مفاد کے خلاف ہو گا اور اُنہیں آبنائے ہرمز کو بند نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری طرف برطانیہ نے بھی خلیجی ممالک اور سائپرس میں ایئر فیلڈز پر اپنے جنگی طیارے بھیجے ہیں جن کے بارے میں برطانیہ کا کہنا ہے کہ یہ خطّے میں برطانوی مفادات کے تحفظ کے لیے بھیجے گئے ہیں۔

نائلہ چوہان نے کہا کہ روس ایران کی حمایت کر رہا ہے اور اگر جنگ بڑھی تو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس وقت دارومدار اس بات پر ہے کہ ایران کس طرح سے ردعمل دیتا ہے۔ اسرائیل کو آج تک مشرقِ وسطٰی میں کسی ملک نے اُس طرح سے جواب نہیں دیا جس طرح حالیہ کچھ دنوں میں ایران کی جانب سے آیا لیکن تباہی سہنے کا اُس میں حوصلہ نہیں۔ اسرائیل یہ کہہ رہا ہے کہ وہ یہ جنگ مغربی مفادات کی خاطر لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ایرانی وہ قوم ہے جن کی 8 سال عراق کے ساتھ جنگ رہی۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل جو ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کو شہید کرنا چاہتا ہے اُسے یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ اُنہیں شہید کر بھی دے گا تو شوری کونسل نئے رہبر کا انتخاب کر لے گی۔ لیکن جہاں تک یہ سوال ہے کہ آیا صدر ٹرمپ امریکا کو اس جنگ میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اِس کا جواب ہی نہیں کیونکہ فی الحال ایسا نظر نہیں آتا۔ جب صدر ٹرمپ جلدی میں جی 7 سمٹ چھوڑ کر چلے گئے تو فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون نے کہا کہ وہ اسرائیل۔ایران جنگ بندی کے لیے گئے ہیں لیکن صدر ٹرمپ نے اِس بات کا بُرا منایا اور کہا کہ اُنہیں ابھی اس سے زیادہ اہم کام کرنے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امریکا ایران ایران اسرائیل جنگ 2025 کشیدگی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا ایران ایران اسرائیل جنگ 2025 کشیدگی اسرائیل ایران جنگ میں امریکی کہنا ہے کہ چاہتے ہیں کر رہا ہے نے کہا کہ کہا کہ ا ہے کہ ا ا نہیں لیکن ا نہیں ا کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

ایران اسرائیل جنگ

گزشتہ سوا مہینے میں میری تین پیشن گوئیاں مسلسل پوری ہوئی ہیں ۔ پہلی 6مئی کو انڈین حملہ۔ دوسری پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کی تاریخ ۔تیسری حال ہی میں ایران پر اسرائیل کے حملے میں کہا گیا تھا کہ دنیا ایک ایسے 7سالہ دور میں داخل ہو رہی ہے جو 2032تک جاری رہے گا۔

جب یہ مکمل ہو گا تو ایسی تبدیلیاں آچکی ہونگی کہ دنیا پہچانی ہی نہیں جائے گی۔ اگرچہ اس فیز کا آغاز 7 جولائی سے ہو جائے گا لیکن ہوسکتا ہے کہ اس کے اثرات جون سے ہی شروع ہو جائیں ۔ اور ایسا ہی ہوا کہ 13جون کو صبح 6بجے اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا ۔ پیشگوئی کے الفاظ کے مطابق اس طرح سے سنسنی دھماکا خیز خبر کا آغاز ہو گیا ۔

اس سے بھی پہلے کے کالم میں لکھ چکا تھا کہ ایران امریکا جوہری ڈیل ہو یا نہ ہو پورے مشرق وسطی کے خطے میں برصغیر تک ایسی بڑی تبدیلیاں آئیں گی جو اس پورے علاقے کا ناک نقشہ تبدیل کردیں گی ۔خاص طور پر سیاسی ، معاشی اور عسکری طور پر ۔اس تمام منصوبے پر عملدر آمد کا آغاز 2006 میں اسرائیل کے لبنان پر حملے سے ہوا جس کو امریکی بلیک وزیر خارجہ کنڈو لیزا رائس نے ری برتھ آف مڈل ایسٹ سے تعبیر کیا۔

اگر چہ کہ یہ حملہ ناکام ہوا ۔ لیکن اس پر کام مسلسل جاری رہا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل کو عسکری اور خاص طور پر ٹیکنالوجیکل طور پر جدید سے جدید تر بنانے کا کام جاری رکھا ۔ 18سال تک یہ کام جاری رہا۔ یہاں تک کہ اسی ٹیکنالوجیکل برتری سے ایرانی اتحادیوں ، حماس، حزب اﷲ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ اب اسرائیل کے لیے میدان صاف تھا ۔ 2006 میں بھی یہی منصوبہ تھا کہ اسرائیل ، لبنان کو فتح کرکے شام تک پہنچ جائے اور وہاں سے سیدھا ایران پہنچ کر رجیم چینج منصوبہ مکمل کرے ۔ جیسا کہ یوکرائن میں امریکی CIA رجیم چینج سازش کرکے کٹھ پتلی یوکرائنی کامیڈین صدر کو لائی اور جسے سامراجی میڈیا نے جمہوریت کا محافظ قرار دیا ۔

بقول ہنگری کے وزیر اعظم کے اس کی وجہ یورپ اور امریکا کو 500سالہ سامراجی تسلط کا خاتمہ نظر آرہا تھا جس نے پوری دنیا کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے ۔ کیونکہ نئی ابھرتی ہوئی قوتیں روس اور چین ہیں ۔سابقہ امریکی صدر بائیڈن بلا وجہ راتوں رات افغانستان سے باہر نہیں نکلے جب انھیں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خبر دی کہ افغانستان میں 20سالہ امریکی جنگ کا فائدہ اٹھا کر روس اور چین عسکری اور معاشی طور پر ایک بڑی طاقت بن گئے ہیں۔یہ امریکی سامراج کے لیے ایک ہولناک خبر تھی۔ رجیم چینج منصوبوں کا امریکا بہت بڑا کھلاڑی ہے ۔

یہ اس کا محبوب مشغلہ ہے لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو قتل کرنا اس کے لیے ایک کھیل سے زیادہ نہیں ۔ حال ہی میں بقول ریٹائر ہونے والے ایک امریکی جنرل کے، کہ امریکا گزشتہ صدی میں ایک کروڑ سے زائد ریڈ انڈین کو بیدردی سے قتل کرچکا ہے ۔ اس ٹیکنالوجیکل جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادی پوری قوت سے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ایک طرف امریکا دوسری طرف اکیلا ایران جو پچھلے 45برسوں سے مسلسل اس سامراجی گٹھ جوڑ کا مقابلہ کر رہا ہے ۔ ایران کے نہ جھکنے پر سامراجی میڈیا اور اس کے کارندے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ایران کو ہی دہشت گرد قرار دے رہے ہیں ۔ مکر، فریب ، جھوٹ ، عیاری ، مکاری ، دھوکا ، ظلم امریکی سامراج کی سرشت میں شامل ہے ۔

اسرائیل کے ایران پر حالیہ حملے کو ہی دیکھ لیں ٹرمپ مسلسل کہتے رہے کہ میں نے اسرائیل کو کہا ہے کہ خبردار ایران پر حملہ نہ کرنا بس ہماری ڈیل ہونے والی ہے جب کہ اندر خانے نیتن یاہو کو سپورٹ کرتے رہے ، ایران پر حملے کے لیے ۔ ایک امریکی صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ ایران پر حملے کے لیے اسرائیل کو امریکا کی پوری حمایت حاصل ہے بلکہ اس معاملے میں امریکا گردن تک دھنسا ہوا ہے ۔

سابقہ امریکی صدر جوبائیڈن ہوں یا موجودہ یہ دونوں فلسطینیوں کو اس طرح سے مار رہے ہیں جیسے وہ کیڑے مکوڑے ہوں اور دنیا بے بس ۔ ان کے سُرخ سفید چہرے دیکھیں ، ان کے چمکتے دمکتے لباس اور اس پر جمہوریت اور انسانیت کے بھاشن ۔ امریکی سنیٹر برنی سینڈر نے کہا کہ اسرائیل کا ایران پر حملہ غیر قانونی ہے ۔ یہ اسرائیل کی امریکا کو اپنی جنگ میں گھسیٹنے کی سازش ہے۔ اس سے دنیا بھر میں امریکا کی ساکھ متاثر ہو گئی ہے ۔

اسرائیل ایران جنگ کے حوالے سے اہم تاریخیں 16جون، 18جون اور خاص طور پر 22-21-20 جون ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا جانتا ہے خامنہ ای کہاں چھپے ہیں لیکن فی الحال قتل نہیں کریں گے؛ ڈونلڈ ٹرمپ
  • ہمیں پتا ہے ایرانی سپریم لیڈر کہاں ہیں لیکن ابھی نشانہ نہیں بنانا چاہتے ، ٹرمپ کا دعویٰ
  • ایران مکمل سرنڈر کرے، خامنہ ای آسان ہدف، معلوم ہے کہاں چھپے ہیں، ٹرمپ
  • اسرائیل ایرانی جوہری پروگرام کو تباہ نہیں کر سکتا، بی بی سی
  • ایران پر دباؤ ڈالا جارہا ہے لیکن جھکنےکو تیار نہیں: ڈاکٹر قندیل عباس
  • امریکیوں کے خلاف تشدد کے امکانات بڑھ رہے ہیں، عراق میں امریکی سفارتخانے کا انتباہ
  • ایران اسرائیل جنگ
  • ایران اور اسرائیل جلد معاہدہ کریں گے، امریکی صدر کا دعویٰ
  • امریکہ ایران اسرائیل تنازع میں فریق نہیں ہے: ڈونلڈ ٹرمپ