WE News:
2025-08-01@23:09:36 GMT

اسرائیل۔ایران جنگ میں امریکی شمولیت کے کیا امکانات ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

اسرائیل۔ایران جنگ میں امریکی شمولیت کے کیا امکانات ہیں؟

اسرائیل ایران جنگ کے تناظر میں مشرقِ وسطٰی کی صورتحال کافی کشیدہ ہو چکی ہے اور ایک طرف مغربی ممالک جو اسرائیل کی حمایت میں سرگرم ہیں وہیں دوسری طرف روس ایران کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی چنگاری مشرقِ وسطٰی میں تیسری جنگ عظیم کا باعث بن سکتی ہے۔

اس مفروضے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکا اور برطانیہ نے خلیج میں اپنی فوجی موجودگی میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے لیکن بظاہر دوںوں ممالک یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ اضافہ خطے میں اُن کے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے نہ کہ اسرائیل ایران جنگ میں حصہ لینے کے لیے۔ خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بار بار یہ کہنا ہے کہ اُنہیں اس جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن وہ ایران سے جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: اسرائیل ایران تنازع پانچویں روز میں داخل، بڑی جنگ کا خدشہ، خامنہ ای کو صدام جیسے انجام کی دھمکی

حال میں اسرائیل۔ایران جنگ کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم صرف جنگ بندی نہیں بلکہ اس سے اچھا حل چاہتے ہیں جو کہ تنازع کا مکمل خاتمہ کرے۔ گو کہ یہ ابھی تک  وضاحت طلب بات ہے کہ مکمل خاتمے سے صدر ٹرمپ کی کیا مراد تھی لیکن اُن کے عمومی بیانات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاید پاکستان اور بھارت کی طرح سے اس جنگ کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کی جانب سے فوجی موجودگی میں اضافہ

امریکا نے اہم بحری تجارتی شاہراہ آبنائے ہرمز میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے۔ امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس نمٹز کو جنوبی چین کے سمندر سے مشرقِ وسطٰی منتقل ہونے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے جبکہ مشرقِ وسطٰی میں امریکی طیارہ بردار بحری بیڑہ یو ایس ایس کارل ونسن بھی پہلے سے موجود ہے۔یہ دونوں بحری بیڑے 44 سے 75 ہوائی جنگی جہاز ساتھ لیے پھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے 4 سے 6 ڈسٹرائر شپس تعینات اور آبدوزوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے خلیجی ممالک میں امریکی فوجیوں کی تعداد بھی 34000 سے بڑھ کر 50000 ہو چُکی ہے۔ برطانیہ نے مختلف فوجی اڈوں پر اپنے مختلف اقسام کے لڑاکا طیاروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے لیکن برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ اضافہ برطانوی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے۔

امریکا ایران پر دباؤ کے ساتھ ساتھ جنگ کی تیاری بھی کر رہا ہے: سابق سفیر مسعود خان

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب ایمبیسیڈر مسعود خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا، اسرائیل۔ایران جنگ کو لے کر 2 نکاتی حکمتِ عملی پر کام کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ ایران پر دباؤ بڑھا رہا ہے کہ ایران امریکی شرائط کے تحت معاہدہ کر لے۔ دوسری طرح وہ جنگ کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ مجموعی طور پر اس وقت مشرقِ وسطٰی کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر اس جنگ کے دائرہ کار میں اضافہ ہوا اور آبنائے ہرمز میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو امریکا جنگ میں شریک بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری صورت میں پس پردہ سفارت کاری جاری ہے اور جنگ بندی بھی ہو سکتی ہے لیکن اُس کے لیے امریکا کو قیادت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

مغربی دنیا کی حکمتِ عملی سمجھ سے بالاتر ہے: نائلہ چوہان

ایران میں پاکستان کی سابق سفارتکار نائلہ چوہان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکا محتاط پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ اُن کی اِس جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن اسرائیل امریکا کو اس جنگ میں ملوّث کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تک آبنائے ہرمز میں امریکا کی فوجی موجودگی میں اضافے کی بات ہے تو اُس کا سبب یہ ہے کہ امریکا اس اہم تجارتی راستے کو محفوظ رکھنا چاہتا کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جہاں سے خلیجی ممالک معدنی تیل اور دیگر برآمدات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران اگر آبنائے ہرمز کو بند کرنا چاہے گا تو یہ اُس کے اپنے مفاد کے خلاف ہو گا اور اُنہیں آبنائے ہرمز کو بند نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری طرف برطانیہ نے بھی خلیجی ممالک اور سائپرس میں ایئر فیلڈز پر اپنے جنگی طیارے بھیجے ہیں جن کے بارے میں برطانیہ کا کہنا ہے کہ یہ خطّے میں برطانوی مفادات کے تحفظ کے لیے بھیجے گئے ہیں۔

نائلہ چوہان نے کہا کہ روس ایران کی حمایت کر رہا ہے اور اگر جنگ بڑھی تو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس وقت دارومدار اس بات پر ہے کہ ایران کس طرح سے ردعمل دیتا ہے۔ اسرائیل کو آج تک مشرقِ وسطٰی میں کسی ملک نے اُس طرح سے جواب نہیں دیا جس طرح حالیہ کچھ دنوں میں ایران کی جانب سے آیا لیکن تباہی سہنے کا اُس میں حوصلہ نہیں۔ اسرائیل یہ کہہ رہا ہے کہ وہ یہ جنگ مغربی مفادات کی خاطر لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ایرانی وہ قوم ہے جن کی 8 سال عراق کے ساتھ جنگ رہی۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل جو ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کو شہید کرنا چاہتا ہے اُسے یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ اُنہیں شہید کر بھی دے گا تو شوری کونسل نئے رہبر کا انتخاب کر لے گی۔ لیکن جہاں تک یہ سوال ہے کہ آیا صدر ٹرمپ امریکا کو اس جنگ میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اِس کا جواب ہی نہیں کیونکہ فی الحال ایسا نظر نہیں آتا۔ جب صدر ٹرمپ جلدی میں جی 7 سمٹ چھوڑ کر چلے گئے تو فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون نے کہا کہ وہ اسرائیل۔ایران جنگ بندی کے لیے گئے ہیں لیکن صدر ٹرمپ نے اِس بات کا بُرا منایا اور کہا کہ اُنہیں ابھی اس سے زیادہ اہم کام کرنے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امریکا ایران ایران اسرائیل جنگ 2025 کشیدگی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا ایران ایران اسرائیل جنگ 2025 کشیدگی اسرائیل ایران جنگ میں امریکی کہنا ہے کہ چاہتے ہیں کر رہا ہے نے کہا کہ کہا کہ ا ہے کہ ا ا نہیں لیکن ا نہیں ا کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

ایران کی ایٹمی طاقت بننے کی صلاحیت ختم کردی ہے، ٹرمپ

وائٹ ہاؤس میں ریسلر ٹرپل ایچ اور دیگر کے ہمراہ تقریب سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ غزہ کی صورتحال خوفناک ہے، جس کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔  اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کی ایٹمی طاقت بننے کی صلاحیت ختم کردی ہے، اگر امریکہ کارروائی نہ کرتا تو ایران کچھ ہفتوں میں ایٹمی طاقت بن سکتا تھا۔ وائٹ ہاؤس میں ریسلر ٹرپل ایچ اور دیگر کے ہمراہ تقریب سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ غزہ کی صورتحال خوفناک ہے، جس کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ تقریب سے خطاب کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ کینیڈا نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے سے متعلق اعلان کرکے اچھا نہیں کیا، فلسطینی ریاست پر کینیڈا کا موقف ڈیل بریکر نہیں۔

 روس کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے کہا کہ روس یوکرین میں جو کچھ کر رہا ہے وہ بالکل قابل مذمت ہے اور اب یہ جنگ اب رُک جانی چاہیے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس پر پابندیاں عائد کرنے سے متعلق بھی عندیہ دیا۔ امریکی صدر نے فیزیکل فٹنس سے متعلق ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے۔ علاوہ ازیں امریکا میں صدارتی فٹنس ایوارڈ کو بحال کردیا گیا۔ واضح رہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری ایران اسلامی کی پالیسی کا حصہ نہیں، اور ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی حملے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھے۔

متعلقہ مضامین

  • قاتل مسیحائوں کی قتل گاہ
  • ڈیجیٹل لرننگ: فائدے، نقصانات، امکانات
  • ایران کی ایٹمی طاقت بننے کی صلاحیت ختم کردی ہے، ٹرمپ
  • ٹرمپ کی ٹیرف دھمکی کے بعد بھارت نے امریکا سے F-35 طیارے نہ خریدنے کا فیصلہ کرلیا
  • امریکا اور اتحادیوں کا ایران پر بیرون ملک قتل و اغوا کی سازشوں کا الزام
  • غزہ: رقصِ مرگ
  • امریکا نے فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او پر پابندیاں عائد کردیں
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی اقدامات کی روس کیجانب سے شدید مذمت
  • امریکا کا ایران سے تجارتی تعلقات اور تیل خریدنے پرچھ بھارتی کمپنیوں پر پابندیاں عائدکرنے کا اعلان
  • اب تو سوچ بدلیں کہ دنیا بدل گئی!