WE News:
2025-11-03@08:04:10 GMT

اسرائیل۔ایران جنگ میں امریکی شمولیت کے کیا امکانات ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

اسرائیل۔ایران جنگ میں امریکی شمولیت کے کیا امکانات ہیں؟

اسرائیل ایران جنگ کے تناظر میں مشرقِ وسطٰی کی صورتحال کافی کشیدہ ہو چکی ہے اور ایک طرف مغربی ممالک جو اسرائیل کی حمایت میں سرگرم ہیں وہیں دوسری طرف روس ایران کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی چنگاری مشرقِ وسطٰی میں تیسری جنگ عظیم کا باعث بن سکتی ہے۔

اس مفروضے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکا اور برطانیہ نے خلیج میں اپنی فوجی موجودگی میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے لیکن بظاہر دوںوں ممالک یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ اضافہ خطے میں اُن کے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے نہ کہ اسرائیل ایران جنگ میں حصہ لینے کے لیے۔ خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بار بار یہ کہنا ہے کہ اُنہیں اس جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن وہ ایران سے جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: اسرائیل ایران تنازع پانچویں روز میں داخل، بڑی جنگ کا خدشہ، خامنہ ای کو صدام جیسے انجام کی دھمکی

حال میں اسرائیل۔ایران جنگ کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم صرف جنگ بندی نہیں بلکہ اس سے اچھا حل چاہتے ہیں جو کہ تنازع کا مکمل خاتمہ کرے۔ گو کہ یہ ابھی تک  وضاحت طلب بات ہے کہ مکمل خاتمے سے صدر ٹرمپ کی کیا مراد تھی لیکن اُن کے عمومی بیانات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاید پاکستان اور بھارت کی طرح سے اس جنگ کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کی جانب سے فوجی موجودگی میں اضافہ

امریکا نے اہم بحری تجارتی شاہراہ آبنائے ہرمز میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے۔ امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس نمٹز کو جنوبی چین کے سمندر سے مشرقِ وسطٰی منتقل ہونے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے جبکہ مشرقِ وسطٰی میں امریکی طیارہ بردار بحری بیڑہ یو ایس ایس کارل ونسن بھی پہلے سے موجود ہے۔یہ دونوں بحری بیڑے 44 سے 75 ہوائی جنگی جہاز ساتھ لیے پھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے 4 سے 6 ڈسٹرائر شپس تعینات اور آبدوزوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے خلیجی ممالک میں امریکی فوجیوں کی تعداد بھی 34000 سے بڑھ کر 50000 ہو چُکی ہے۔ برطانیہ نے مختلف فوجی اڈوں پر اپنے مختلف اقسام کے لڑاکا طیاروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے لیکن برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ اضافہ برطانوی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے۔

امریکا ایران پر دباؤ کے ساتھ ساتھ جنگ کی تیاری بھی کر رہا ہے: سابق سفیر مسعود خان

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب ایمبیسیڈر مسعود خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا، اسرائیل۔ایران جنگ کو لے کر 2 نکاتی حکمتِ عملی پر کام کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ ایران پر دباؤ بڑھا رہا ہے کہ ایران امریکی شرائط کے تحت معاہدہ کر لے۔ دوسری طرح وہ جنگ کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ مجموعی طور پر اس وقت مشرقِ وسطٰی کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر اس جنگ کے دائرہ کار میں اضافہ ہوا اور آبنائے ہرمز میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو امریکا جنگ میں شریک بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری صورت میں پس پردہ سفارت کاری جاری ہے اور جنگ بندی بھی ہو سکتی ہے لیکن اُس کے لیے امریکا کو قیادت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

مغربی دنیا کی حکمتِ عملی سمجھ سے بالاتر ہے: نائلہ چوہان

ایران میں پاکستان کی سابق سفارتکار نائلہ چوہان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکا محتاط پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ اُن کی اِس جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن اسرائیل امریکا کو اس جنگ میں ملوّث کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تک آبنائے ہرمز میں امریکا کی فوجی موجودگی میں اضافے کی بات ہے تو اُس کا سبب یہ ہے کہ امریکا اس اہم تجارتی راستے کو محفوظ رکھنا چاہتا کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جہاں سے خلیجی ممالک معدنی تیل اور دیگر برآمدات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران اگر آبنائے ہرمز کو بند کرنا چاہے گا تو یہ اُس کے اپنے مفاد کے خلاف ہو گا اور اُنہیں آبنائے ہرمز کو بند نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری طرف برطانیہ نے بھی خلیجی ممالک اور سائپرس میں ایئر فیلڈز پر اپنے جنگی طیارے بھیجے ہیں جن کے بارے میں برطانیہ کا کہنا ہے کہ یہ خطّے میں برطانوی مفادات کے تحفظ کے لیے بھیجے گئے ہیں۔

نائلہ چوہان نے کہا کہ روس ایران کی حمایت کر رہا ہے اور اگر جنگ بڑھی تو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس وقت دارومدار اس بات پر ہے کہ ایران کس طرح سے ردعمل دیتا ہے۔ اسرائیل کو آج تک مشرقِ وسطٰی میں کسی ملک نے اُس طرح سے جواب نہیں دیا جس طرح حالیہ کچھ دنوں میں ایران کی جانب سے آیا لیکن تباہی سہنے کا اُس میں حوصلہ نہیں۔ اسرائیل یہ کہہ رہا ہے کہ وہ یہ جنگ مغربی مفادات کی خاطر لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ایرانی وہ قوم ہے جن کی 8 سال عراق کے ساتھ جنگ رہی۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل جو ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کو شہید کرنا چاہتا ہے اُسے یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ اُنہیں شہید کر بھی دے گا تو شوری کونسل نئے رہبر کا انتخاب کر لے گی۔ لیکن جہاں تک یہ سوال ہے کہ آیا صدر ٹرمپ امریکا کو اس جنگ میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اِس کا جواب ہی نہیں کیونکہ فی الحال ایسا نظر نہیں آتا۔ جب صدر ٹرمپ جلدی میں جی 7 سمٹ چھوڑ کر چلے گئے تو فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون نے کہا کہ وہ اسرائیل۔ایران جنگ بندی کے لیے گئے ہیں لیکن صدر ٹرمپ نے اِس بات کا بُرا منایا اور کہا کہ اُنہیں ابھی اس سے زیادہ اہم کام کرنے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امریکا ایران ایران اسرائیل جنگ 2025 کشیدگی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا ایران ایران اسرائیل جنگ 2025 کشیدگی اسرائیل ایران جنگ میں امریکی کہنا ہے کہ چاہتے ہیں کر رہا ہے نے کہا کہ کہا کہ ا ہے کہ ا ا نہیں لیکن ا نہیں ا کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

کریملن کا جوہری تجربات سے انکار، امریکی تجربات کی بحالی پر مناسب جواب دیا جائے گا، روس

روس نے کہا کہ اس کے حالیہ ہتھیاروں کے تجربات جوہری نوعیت کے نہیں، امریکا کی جانب سے تجربات کی بحالی کی صورت میں مناسب جواب دیا جائے گا۔

ماسکو ٹائمز کے مطابق کریملن نے جمعرات کے روز ان دعوؤں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ روس نے جوہری تجربات دوبارہ شروع کر دیے ہیں، یہ تردید اس وقت سامنے آئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 1992 کے بعد پہلی مرتبہ امریکا میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے رواں ماہ کے اوائل میں بیوریوسٹنک (Burevestnik) نامی ایٹمی توانائی سے چلنے والے کروز میزائل اور پوسائیڈن (Poseidon) زیرِآب ڈرون کے کامیاب تجربات کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایران کا ٹرمپ پر دوغلے پن کا الزام، جوہری تجربات کے اعلان کی مذمت

امریکی صدر ٹرمپ نے بدھ کے روز کہا کہ انہوں نے فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے پروگراموں کے مقابلے میں مساوی بنیاد پر امریکی جوہری تجربات شروع کرے۔

کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ روس کو کسی بھی ایسے ملک کے بارے میں علم نہیں جو اس وقت جوہری تجربات کر رہا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ماسکو کے حالیہ تجربات کو کسی طور بھی جوہری دھماکے کے طور پر تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ پیسکوف نے کہا کہ اگر کوئی بیوریو سٹنک کے تجربات کی بات کر رہا ہے، تو یہ جوہری تجربہ نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: یورپ پابندیاں ہٹائے، عالمی جوہری نگرانی تسلیم کرنے کو تیار ہیں، ایرانی وزیر خارجہ

انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکا سابق صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کے 1992 کے جوہری تجربات پر عائد مورٹوریم سے انحراف کرتا ہے تو روس بھی اسی کے مطابق ردِعمل دے گا۔

دونوں ممالک نے 1996 میں جامع جوہری تجربہ پابندی معاہدے (CTBT) پر دستخط کیے تھے، جس کا مقصد دنیا بھر میں جوہری تجربات کا خاتمہ ہے۔
روس نے یہ معاہدہ 2000 میں توثیق کیا، مگر امریکا نے آج تک اسے قانون کا حصہ نہیں بنایا۔ بعد ازاں صدر پیوٹن نے 2023 میں روس کی توثیق واپس لے لی، تاہم کریملن کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب جوہری تجربات کی بحالی نہیں ہے۔

سویت یونین نے آخری بار 1990 میں جوہری تجربہ کیا تھا، جبکہ روس نے اپنی تاریخ میں کبھی کوئی جوہری دھماکا نہیں کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی تجربات جوہری جوہری تجربات کریملن

متعلقہ مضامین

  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے
  • کریملن کا جوہری تجربات سے انکار، امریکی تجربات کی بحالی پر مناسب جواب دیا جائے گا، روس