ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس: سپریم کورٹ کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سننے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی اور تبادلے سے متعلق اہم آئینی مقدمے کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کی۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ججز کے تبادلے کے لیے ایڈوائس وفاقی کابینہ دے سکتی ہے اور مصطفیٰ ایمپکس فیصلے کے مطابق ’وفاقی حکومت‘ سے مراد بھی ’کابینہ‘ ہی ہے۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا مصطفیٰ ایمپکس فیصلے کے بعد آئین کے آرٹیکل 48 میں استعمال ہونے والا لفظ ’وزیرِاعظم‘ غیر مؤثر ہو چکا ہے؟
یہ بھی پڑھیں:
عدالت نے کہا کہ درخواست گزار وکلاء نے سنیارٹی اور حلف سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے پر تفصیلی دلائل نہیں دیے اور نہ ہی فیصلے میں کسی غیر قانونی پہلو کی نشاندہی کی گئی۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کراچی بار کی نمائندگی کرتے ہوئے جواب الجواب دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی ذیلی شقیں تبادلے سے متعلق ہیں، اور مستقل ٹرانسفر آئینی طور پر ممکن نہیں۔
فیصل صدیقی کے مطابق تبادلہ نئی تقرری نہیں ہوتا، اور عارضی تبادلہ کے باوجود جج کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر خاموشی ممکن نہیں کیونکہ اس کیس میں تین سابق چیف جسٹسز، موجودہ چیف جسٹس، وزیراعظم اور صدر بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں:
فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ ایسا ہے جیسے اندھا آدمی اندھیرے کمرے میں ایک ایسے سوراخ کو تلاش کر رہا ہو جو پہلے ہی چھپا ہوا ہو، انہوں نے اس نکتے پر زور دیا کہ آرٹیکل 194 کے الفاظ اس کیس کی کلید ہیں اور ٹرانسفر کی صورت میں جج کو نیا حلف لینا پڑے گا، تاہم یہ تقرری نہیں بلکہ ایک عارضی منتقلی ہے۔
جسٹس مظہر نے سوال کیا کہ اگر جج دوبارہ حلف لے تو کیا وہ جونیئر ہو جائے گا؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ ایسا نہیں، اور جج واپس جا کر اپنی پرانی سنیارٹی پر ہی برقرار رہتا ہے۔
دورانِ سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے ریپریزنٹیشن میں تبادلے پر آنے والے ججز کو ’ڈیپوٹیشنسٹ‘ قرار دیا، جس پر افسوس کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سماعت میں شامل کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کل سنا جائے گا، منیر اے ملک نے کہا کہ وہ ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل کا الگ سے جواب دیں گے، جبکہ فیصل صدیقی نے بھی جواب الجواب کے لیے دوبارہ موقع مانگا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کراچی بار کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا جواب الجواب مکمل کر لیا ہے، کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل ادریس اشرف کل اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فیصل صدیقی نے کرتے ہوئے نے کہا کہ
پڑھیں:
شہدائے ماڈل ٹاؤن کی 11 ویں برسی، ملک بھر میں دعائیہ تقاریب
بانی سرپرست تحریک منہاج القرآن کا پریس کانفرنس میں کہنا ہے کہ آج 17 جون 2025ء ہے۔ 5 سال گزر جانے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہوا۔ لاہور ہائیکورٹ میں 5 سالوں میں 5 بنچ ٹوٹ چکے۔ دونوں طرف کے وکلاء جرح مکمل کر چکے ہیں، صرف فیصلہ سنانا باقی ہے مگر تاریخ ہی نہیں دی جا رہی۔ نہ جانے کیوں قاتلوں کے چہروں سے پردے نہیں اٹھنے دیئے جا رہے۔ اسلام ٹائمز۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کی 11 ویں برسی پر عوامی تحریک کی ملک بھر کی تنظیمات نے دعائیہ تقاریب منعقد کیں۔ راہ نماؤں نے شہداء کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں اور درجات کی بلندی کیلئے دعائیں کیں۔ مرکزی دعائیہ تقریب مرکزی سیکرٹریٹ پر منعقد ہوئی جس میں خرم نواز گنڈاپور سمیت مرکزی قائدین اور بڑی تعداد میں کارکنان نے شرکت کی۔ تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر 3 جنوری 2019ء کو جے آئی ٹی بنی جس کے سربراہ اے ڈی خواجہ تھے۔ جے آئی ٹی نے تین ماہ کام کیا، دونوں طرف کے 281 افراد کے بیانات قلمبند کئے گئے ان میں سابق وزیراعظم اور موجودہ وزیراعظم کے بیانات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اپنا کام مکمل کر کے چالان عدالت میں پیش کرنیوالی تھی کہ ایک ملزم ہیڈ کانسٹیبل کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے وکلاء اس آرڈر کیخلاف سپریم کورٹ گئے۔ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے 13 فروری 2020ء کو نیا آرڈر جاری کیا کہ 3 ماہ کے اندر ترجیحاً کیس نمٹایا جائے۔ سپریم کورٹ کے اس حکم کے تحت 13 مئی 2020ء کو فیصلہ ہو جانا چاہیے تھا مگر آج 17 جون 2025ء ہے۔ 5 سال گزر جانے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہوا۔ لاہور ہائیکورٹ میں 5 سالوں میں 5 بنچ ٹوٹ چکے۔ دونوں طرف کے وکلاء جرح مکمل کر چکے ہیں، صرف فیصلہ سنانا باقی ہے مگر تاریخ ہی نہیں دی جا رہی۔ نہ جانے کیوں قاتلوں کے چہروں سے پردے نہیں اٹھنے دیئے جا رہے۔
دریں اثناء پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے دعائیہ تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک کر انصاف کے عمل کو روکا گیا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے ورثاء مسلسل انصاف مانگ رہے ہیں۔ اے ٹی سی، لاہور ہائیکورٹ، سپریم کورٹ میں سینکڑوں پیشیاں بھگت چکے مگر غیر جانبدار تفتیش کا ابتدائی مرحلہ بھی شروع نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ عوامی تحریک کے امن اور قانون پسند کارکنان حصولِ انصاف کے لئے قانونی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب تک انصاف نہیں مل جاتا یہ جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔