ایران اور اسرائیل کی جنگ۔۔۔ یقین کیجئے فتح حق کی ہی ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: تاریخ ہمیشہ ان اقوام کو یاد رکھتی ہے، جو اصولوں پر قائم رہیں، جو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں اور جنہوں نے انسانیت کا علم بلند رکھا۔ آج ایران اسی تاریخ کا ایک روشن باب لکھ رہا ہے۔ وہ باب جو بتائے گا کہ ایک دن ایسا آئے گا، جب فلسطین آزاد ہوگا، جب مسجد اقصیٰ میں امن کی اذانیں گونجیں گی، جب معصوم بچوں کی آنکھوں میں خوف نہیں بلکہ خواب ہوں گے اور جب دنیا کے مظلوم اپنی آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھیں گے۔ یقین کیجئے۔۔۔۔ فتح حق کی ہی ہوگی، کیونکہ یہ وعدہ صرف تاریخ کا نہیں بلکہ قدرت کا بھی ہے اور قدرت کے وعدے کبھی جھوٹے نہیں ہوتے۔ تحریر: محمد حسن جمالی
تاریخ کے سینے میں صرف واقعات ضبط نہیں، بلکہ مستحکم نظریات، ایمان اور استقامت کے بل بوتے پر حاصل ہونے والی کامیابیوں کی داستانیں محفوظ ہیں۔ آج مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی جو آگ لگی ہوئی ہے، وہ صرف دو ممالک کی جنگ نہیں، بلکہ دو نظریات کا تصادم ہے۔ ایک طرف وہ طاقت ہے، جو ظلم، غاصبانہ قبضے اور انسانی حقوق کی پامالی پر یقین رکھتی ہے اور دوسری طرف ایک ایسا ملک ہے، جو مظلوموں کی حمایت، خود مختاری اور عدل کے اصولوں کی بالادستی کے لئے عملی جدوجہد کر رہا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت، فلسطینی عوام پر مظالم اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی سازشوں کے مقابلے میں ایران ایک مضبوط آواز بن کر سامنے آیا ہے، جو نہ صرف فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے بلکہ ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنے کی ہمت بھی رکھتا ہے۔
یہ جنگ گولیوں اور میزائلوں سے کہیں زیادہ ایک بیانیے کی جنگ ہے۔ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ بیانیہ جیتنے والا ہی اصل فاتح ہوتا ہے۔ وہ قومیں جو حق، سچائی اور مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں، وقتی طور پر چاہے دب بھی جائیں، لیکن انجامِ کار فتح انہی کا مقدر بنتی ہے۔ اگرچہ اسرائیل طاقتور ہے، وسائل سے مالا مال ہے اور امریکہ سمیت دنیا کی ساری طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے، مگر ایمان، اصول اور قربانی کی طاقت سے بڑی کوئی طاقت نہیں۔ ایران کا مؤقف ہو یا فلسطین کے شہیدوں کا خون۔ یہ سب ہمیں ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ظلم کا خاتمہ قریب ہے اور فتح اس کی ہوگی، جو حق پر قائم ہے۔ اس جنگ کا فیصلہ صرف میدان میں نہیں بلکہ دلوں، ضمیروں اور تاریخ کے صفحات پر لکھا جائے گا۔ یقین کیجئے، فتح حق کی ہی ہوگی۔
دنیا کے منظرنامے پر جب ظلم اپنی آخری حد کو چھو لے، جب انسانیت سسکیاں لینے لگے، جب بچوں کے کھلونے خون آلود ہو جائیں، جب عبادت گاہیں ملبہ بن جائیں اور جب دنیا کے ضمیر پر خاموشی طاری ہو جائے، تب تاریخ کا قلم بیدار ہوتا ہے۔ اسرائیل جو ایک ناجائز اور قابض ریاست ہے، کئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کے خون سے اپنے محل تعمیر کرتا آیا ہے۔ اس کے ہر اقدام کے پیچھے ظلم، جبر، نسل پرستی اور طاقت کا غرور چھپا ہوا ہے۔ وہ قوم جو ہولوکاسٹ کی ہمدردی کے سائے میں دنیا کو مظلومیت کا تاثر دیتی رہی، آج خود مظلوموں کی قاتل بن چکی ہے، لیکن ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو قدرت اس کے خلاف کوئی ایسی قوت اٹھاتی ہے، جو نہ صرف ظالم کو للکارتی ہے، بلکہ انسانیت کی امید بھی بن جاتی ہے۔ اس وقت ایران وہی قوت ہے۔
یہ صرف دو ریاستوں کی جنگ نہیں، بلکہ دو نظریات کی ٹکر ہے۔ ایک طرف استعمار، سرمایہ دارانہ مفاد اور سیاسی منافقت ہے؛ دوسری طرف مزاحمت، خودداری، غیرتِ انسانی اور ایمانی جرات ہے۔ ایران کا کردار ایک معمولی ریاستی پالیسی سے بڑھ کر عالمی سطح پر ضمیر کی گھنٹی بن کر ابھرا ہے۔ ایران کی جرات، غیرتِ انسانی و مسلمانی اور استقامت و بہادری نے آج نہ صرف اسلامی دنیا کو چونکا دیا ہے، بلکہ مغرب کے باضمیر انسانوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایران نے اپنے موقف سے یہ ثابت کیا کہ فلسطین کی حمایت صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ انسانیت کا تقاضا ہے۔ وہ قوم جس نے نہ صرف عالمی پابندیاں جھیلیں، بلکہ ہر جارحیت کا جواب وقار اور اصولوں کے ساتھ دیا، وہی آج مظلوموں کی ڈھارس بھی ہے اور ظالموں کے لیے بے چینی کا سبب بھی۔
ایران کی بہادری اور غیرت کا سب سے بڑا مظہر اس کی استقامت ہے۔ 45 سال سے زائد عرصے سے ایران پر شدید پابندیاں عائد ہیں، اس کے سائنسدانوں کو قتل کیا گیا، اس کی معیشت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، مگر اس قوم نے نہ صرف اپنی نظریاتی خودی کو زندہ رکھا، بلکہ سائنسی، عسکری اور ثقافتی میدان میں خود کفالت حاصل کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔ ایران کی ایٹمی ترقی، میزائل ٹیکنالوجی اور علاقائی اثر و رسوخ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایمان، علم اور استقلال مل کر پہاڑ بھی ہلا سکتے ہیں۔ ایران وہ پہلا اسلامی ملک ہے، جس نے اسرائیل پر نہ صرف لفظی مذمت کی حد تک اظہار کیا، بلکہ کھل کر اسرائیل پر کمر شکن حملہ کرکے دنیا کو دکھا دیا کہ مظلوموں کی حمایت صرف نعروں سے نہیں بلکہ عمل سے کی جاتی ہے۔
ایران نے اسرائیلی جارحیت کے ردِعمل میں براہِ راست حملہ کرکے وہ کام کر دکھایا، جو آج تک کوئی اسلامی ریاست نہ کرسکی۔ ایران نے اسرائیل اور امریکہ کے گھمنڈ کا بت توڑ کر عالمی منظرنامے پر ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ ایک ایسی مثال جو صرف اسلامی دنیا ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر آزاد ضمیر انسان کے لیے بھی پیغام رکھتی ہے کہ اگر نیت میں اخلاص ہو تو طاقتور دشمن کے خلاف بھی کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔ ایران کی اس عملی جرات کے مقابلے میں باقی اسلامی دنیا کی خاموشی نہ صرف افسوسناک ہے، بلکہ ایک لمحہ فکریہ بھی ہے۔ وہ ریاستیں جو بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں، وہ حکمران جو امت مسلمہ کی قیادت کے خواب دیکھتے ہیں، وہ سب کہاں تھے، جب فلسطینی بچے ملبے تلے دفن ہو رہے تھے۔؟ کہاں تھے وہ نعرے، وہ اجلاس، وہ قراردادیں جب مسجد اقصیٰ کو پامال کیا جا رہا تھا۔؟
ایران نے صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے یہ ثابت کیا کہ مظلوموں کی حمایت ایک زندہ ضمیر کا تقاضا ہے اور باقی مسلم دنیا کی خاموشی دراصل ان کی بے حسی، مفادات پرستی اور خوف کا آئینہ ہے۔ آج جب دنیا دھوکے، فریب اور مصلحتوں کے جال میں الجھ چکی ہے، ایران کی استقامت ایک امید کی کرن ہے۔ ایران نے دکھایا کہ اگر ایک قوم اپنے اصولوں پر ڈٹ جائے تو وہ عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتی ہے۔ فلسطین کی حمایت ایران کے لیے صرف سیاسی بیانیہ نہیں، بلکہ ایک دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کا نام آج مظلوموں کے دلوں میں امید کی طرح دھڑکتا ہے اور ظالموں کے دلوں میں خوف کی طرح۔
تاریخ ہمیشہ ان اقوام کو یاد رکھتی ہے، جو اصولوں پر قائم رہیں، جو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں اور جنہوں نے انسانیت کا علم بلند رکھا۔ آج ایران اسی تاریخ کا ایک روشن باب لکھ رہا ہے۔ وہ باب جو بتائے گا کہ ایک دن ایسا آئے گا، جب فلسطین آزاد ہوگا، جب مسجد اقصیٰ میں امن کی اذانیں گونجیں گی، جب معصوم بچوں کی آنکھوں میں خوف نہیں بلکہ خواب ہوں گے اور جب دنیا کے مظلوم اپنی آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھیں گے۔ یقین کیجئے۔۔۔۔ فتح حق کی ہی ہوگی، کیونکہ یہ وعدہ صرف تاریخ کا نہیں بلکہ قدرت کا بھی ہے اور قدرت کے وعدے کبھی جھوٹے نہیں ہوتے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فتح حق کی ہی ہوگی مظلوموں کی یقین کیجئے نہیں بلکہ کی حمایت ایران کی ایران نے تاریخ کا رکھتی ہے دنیا کے جب دنیا دنیا کو کے خلاف کہ ایک بھی ہے ہے اور کی جنگ
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں کوئی بات چیت نہیں ہورہی اور نہ ہی ہوگی
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔16 جون 2025ء )سینئر سیاسی رہنماء سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں کوئی بات چیت نہیں ہورہی اور نہ ہی ہوگی، فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، بھارت سے جنگ کے بعد فوج کا مورال بلند ہے۔ انہوں نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔بھارت سے جنگ کے بعد فوج کا مورال بلند ہے، اسٹیبلشمنٹ جس کو فوج کہتے اس کا مورال آسمان تک بلند ہے، پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہے، قوم یوم تشکر منا رہی ہے۔ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔پی ٹی آئی سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جب ملک کو آئی ایم ایف، ایس آئی ایف سی ، اور جنگ کے موقع پر ضرورت تھی اس وقت آپ نے ساتھ نہیں دیا۔(جاری ہے)
اب کیا ضرورت ہے؟ بانی اور اسٹیبلشمنٹ میں کوئی بات نہیں ہورہی اور نہ ہی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے سیاست عمران خان، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے سیاست سیکھی ہے، مولانا فضل الرحمان ان سب کے سیاسی گرو ہیں، میں منافق نہیں ہوں، اگر ضرورت پڑی تو میں ان کے پاس بھی جاؤں گا۔ مزید برآں سینیٹرفیصل واوڈا نے کہا ہے کہ تاجروں کی گرفتاری والی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا، چھوٹے کاروبار والوں کو تحفظ دینا ضروری ہے۔ سینیٹ اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ بجٹ پر کچھ زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، مشکل حالات میں بجٹ پیش ہوا ہے، درخواست کی تھی پراپرٹی پرسیون ای کا ٹیکس ہٹایا جائے۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظرکسانوں کیمسائل پرتوجہ دینا ہوگی، کسانوں سے متعلق پالیسی موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر بنائی جائے، این ایف سی ایوارڈ کے لیے صوبوں کو ساتھ بیٹھانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ امپورٹ پالیسی کو احتیاط سے بنائیں، اکانومی کو ڈاکومنٹڈ کرنا ضروری ہے، وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر نیک نیتی سے کام کررہے ہیں میری پہلے بانی پی ٹی آئی پھر آصف زرداری اور اب مولانا فضل الرحمن ٹریننگ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک سے تاجروں کی گرفتاری والی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا، چھوٹے کاروبار والوں کو تحفظ دینا ضروری ہے۔