ایران پر حملے کی تیاری یا مذاکرات سے فرار؟ٹرمپ نے ’’بہت دیر ہوچکی‘‘ کہہ کر اشارہ دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اب ایران سے مذاکرات کرنے کا وقت ختم ہو چکا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر ایران کو بات چیت ہی کرنی تھی تو وہ 2 ہفتے پہلے کرتا، اب دیر ہوگئی، لہٰذا اس عمل اک اب کوئی فائدہ نہیں۔
ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ تہران کی جانب سے ان سے رابطے کی کوشش کی گئی ہے، مگر انہوں نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ وقت گزر چکا ہے۔ امریکا برسوں سے ایران کی دھمکیوں کا سامنا کر رہا ہے اور اس کے باوجود جوہری مذاکرات کا حصہ بنا رہا، لیکن اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
ٹرمپ نے ایران پر الزام عائد کیا کہ وہ وقت ضائع کرتا رہا اور جب بات چیت کے لیے مناسب لمحہ تھا، تب خاموشی اختیار کی، اب جب کہ ایران کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے اور اسے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے، وہ بات چیت کی میز پر آنا چاہتا ہے، مگر اب دیر ہو چکی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے یہ بیان ایسے وقت میں جاری کیا، جب وہ جی سیون سربراہ اجلاس کے دوران اچانک کینیڈا سے واپس چلے ّئے تھے اور اُن کی اس غیر متوقع روانگی نے عالمی میڈیا میں ہلچل مچا دی تھی۔ بعدازاں انہوں نے خود اس فیصلے کو کسی بڑی پیش رفت سے جوڑا تھا۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ وہ پیش رفت ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق ہی کوئی فیصلہ ہے، جو اگر جنگ کی جانب اشارے ہے تو اس کے مزید سنگین نتائج ہو سکتے ہیں خطے کی صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ نے وطن واپسی پر اپنی نیشنل سکیورٹی ٹیم سے ہنگامی اجلاس منعقد کیا، جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام پر ممکنہ حملے سے متعلق امور تھے اور اس حوالے سے اسرائیل کی ممکنہ شمولیت بھی زیر غور آئی ہے۔ اگرچہ اس اجلاس کے بعد کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا، تاہم صدر ٹرمپ کے بیانات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ امریکا اب ایران سے بات چیت کے بجائے جنگ کے پر تول رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے سخت بیانات محض الفاظ نہیں بلکہ ایک واضح پیغام ہیں جو تہران کے لیے دھمکی کے معنی رکھتے ہیں۔امریکا، جو پہلے بھی ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا چکا ہے، اب ممکنہ طور پر عسکری راستہ اختیار کرنے پر غور کر رہا ہے۔ دوسری طرف ایران کی حکومت اپنے بیانات میں امریکی دباؤ کو مسترد کرتی رہی ہے، تاہم اسے مگر اندرونی و بیرونی سطح پر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔
خراب ہوتی صورت حال مشرق وسطیٰ میں پہلے سے جاری عدم استحکام کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ اگر امریکا واقعی ایران کے جوہری مراکز کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس کے اثرات صرف ایران اور امریکا تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اسرائیل کی جنگ میں امریکی ممکنہ شمولیت اور ایران کے جوابی اقدامات ایک خطرناک جنگ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی سیاست میں ٹرمپ کی پالیسی ہمیشہ جارحانہ رہی ہے، خاص طور پر ایران کے حوالے سے۔ انہوں نے نہ صرف جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کی بلکہ مسلسل دباؤ بڑھایا،اور اب اسرائیلی جارحیت کی کھلی حمایت کرتے ہوئے جنگ میں شمولیت کے اشارے دینا بھی اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ کے تازہ ترین بیانات کے بعد عالمی برادری میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپی طاقتیں جو ہمیشہ مذاکرات کی حامی رہی ہیں، اب مشکل صورت حال میں ہیں۔ اس تمام منظرنامے میں یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ امریکا واقعی ایران کے خلاف عسکری اقدام کرے گا یا پھر یہ بیانات محض دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
ٹرمپ کی سیاست میں غیر متوقع اقدامات کوئی نئی بات نہیں، مگر جو بات واضح ہے وہ یہ کہ اب دونوں ممالک کے درمیان سفارتی دروازے تقریباً بند ہوتے جا رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے ایران کے بات چیت چکا ہے
پڑھیں:
امریکا کی ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں ، افراد اور کمپنیوں کی فہرست جاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا نے ایران کے خلاف اقتصادی دباؤ بڑھاتے ہوئے مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں اور اس حوالے سے افراد اور کمپنیوں کی نئی فہرست جاری کر دی گئی ہے، ان پابندیوں کا مقصد ایران کی مالی اور تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرنا اور اس کی خطے میں اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق امریکی محکمہ خزانہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران پر عائد پابندیاں اس کے ان اقدامات کا نتیجہ ہیں جو عالمی قوانین اور امریکی مفادات کے منافی سمجھے جاتے ہیں، نئی فہرست میں متعدد افراد اور کمپنیاں شامل ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ ایران کے غیر قانونی مالیاتی نیٹ ورکس، تجارت اور توانائی کے شعبے میں سرگرم ہیں اور ان کے ذریعے ایران اپنی معیشت کو پابندیوں کے باوجود سہارا دے رہا ہے۔
خیال رہےکہ امریکا نے چند روز قبل ہی ایرانی تیل اسمگلنگ میں ملوث شپنگ نیٹ ورک پر بھی سخت پابندیاں عائد کی تھیں۔ یہ نیٹ ورک مبینہ طور پر ایرانی تیل کو عراقی تیل ظاہر کرکے عالمی منڈی میں فروخت کرتا رہا ہے، جس سے ایران کو بڑی مالی مدد حاصل ہو رہی تھی۔
امریکی وزیر خزانہ نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ایران کے تیل پر مبنی آمدنی کے تمام ذرائع ختم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کی جانب سے امریکی پابندیوں سے بچنے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے گا اور واشنگٹن اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایران کی معیشت کو محدود کرنے کے اقدامات جاری رکھے گا۔
واضح رہےکہ ان پابندیوں کے نتیجے میں ایران کو خطے میں اپنی پالیسیوں اور سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، ایران ماضی میں بھی امریکی پابندیوں کے باوجود متبادل راستے تلاش کرتا رہا ہے اور امکان ہے کہ وہ اس بار بھی مختلف ذرائع سے اپنی تجارت اور آمدنی کے ذرائع کو جاری رکھنے کی کوشش کرے گا۔