پناہ گزینوں کے حقوق کی عوامی حمایت برقرار, سروے رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 جون 2025ء) نازک علاقائی سیاسی حالات اور امدادی وسائل میں نمایاں کمی کے باوجود حصول تحفظ کے لیے پناہ گزینوں کے حقوق کی حمایت میں کمی نہیں آئی۔ 29 ممالک میں لیے گے جائزے کی رو سے لوگ سمجھتے ہیں کہ امیر ممالک کو پناہ گزینوں کی مدد کے حوالے سے مزید ذمہ داری لینی چاہیے۔
20 جون کو منائے جانے والے پناہ گزینوں کے عالمی دن سے قبل عالمی تحقیقی و مشاورتی ادارے 'اپسوس' نے بتایا ہے کہ ان ممالک میں 67 فیصد لوگ اس نقطہ نظر کے حامل ہیں کہ پناہ کے خواہش مند لوگوں کو ضروری مدد کی فراہمی ہونی چاہیے۔
اگرچہ یہ تعداد گزشتہ سال اس خیال کے حامی افراد کے مقابلے میں 2 فیصد کم ہے۔ تاہم، سویڈن، ارجنٹائن، نیدرلینڈز اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں پناہ گزینوں کے لیے عوامی سطح پر مضبوط حمایت برقرار ہے۔(جاری ہے)
Tweet URLاپسوس میں عوامی امور کے شعبے کی مینیجنگ ڈائریکٹر ٹرِن ٹو نے کہا ہے کہ اس جائزے سے پناہ کی فراہمی سے متعلق سامنے آنے والا لوگوں کا عزم حوصلہ افزا ہے۔
اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ پناہ گزینوں کے حوالے سے ترغیبات اور اپنے میزبان ممالک میں ان کے انضمام سے متعل قلوگوں میں پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پناہ گزینوں اور ان کے میزبان معاشروں میں متنوع نقطہ ہائے نظر کا ادراک کرتے ہوئے اس حوالے سے ایک مزید متوازن بیانیہ تشکیل دیا جانا چاہیے۔پناہ گزینوں کے عالمی دن پر اپسوس کے سالانہ عالمی جائزے کا مقصد ایسی معلومات مہیا کرنا ہے جن کی بدولت ایسی تعمیری بات چیت ہو اور ایسے طریقہ کار وضع کیے جا سکیں جن سے ناصرف پناہ گزینوں بلکہ ان کے میزبانوں کو بھی فائدہ پہنچے۔
پناہ گزین مخالف بیانیہامدادی وسائل میں بڑے پیمانے پر کمی اور دنیا بھر میں بعض سیاست دانوں کی جانب سے اور سوشل میڈیا پر پناہ گزینوں کو اپنے میزبان ممالک میں مسائل کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے سے ان کے لیے مشکلات کھڑی ہوئی ہیں۔
جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ 62 فیصد لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پناہ گزین خطرات سے بچنے کے لیے اپنا ملک نہیں چھوڑتے بلکہ معاشی فوائد حاصل کرنے کے لیے نقل مکانی کرتے ہیں۔
اس نقطہ نظر نے پناہ گزینوں کی سلامتی اور بہبود کے حوالے سے کئی طرح کے خدشات کو جنم دیا ہے اور 49 فیصد لوگ پناہ گزینوں کے لیے اپنے ملک کی سرحدیں مکمل طور پر بند کرنے کے حامی ہیں۔تاہم، اب بھی 40 فیصد لوگ میزبان معاشروں میں پناہ گزینوں کے مثبت کردار کا اعتراف کرتے ہیں۔ ایسے ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے جہاں 56 فیصد لوگ پناہ گزینوں کے حامی ہیں۔
جائزے کے مطابق، پناہ گزینوں کے حق میں عملی اقدامات کرنے والوں کی تعداد کم ہے جو 38 فیصد سے کم ہو کر 29 فیصد پر آ گئی ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے ہمدردانہ جذبات میں کمی آنا اور مالی وسائل کی قلت اس کے بنیادی اسباب ہیں۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد میں بڑے پیمانے پر کمی کے بعد انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور ترکیہ اس معاملے میں بین الاقوامی اداروں کی مزید شمولیت چاہتے ہیں۔
مشترکہ کوششوں کی ضرورت'یو این ایچ سی آر' کے ڈائریکٹر برائے خارجہ تعلقات ڈومینیک ہائڈ کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کے حوالے سے ہمدردی کے جزبات اور عملی اقدامات میں واضح فاصلہ دیکھا جا سکتا ہے۔ لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ تحفظ کا حصول تمام انسانوں کا حق ہے اور امیر ممالک کو یہ حق یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے لیکن موجودہ معاشی صورتحال اور عالمگیر سیاسی ماحول میں پناہ گزینوں کے لیے حمایت کم ہونے لگی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتوں، اداروں، نجی شعبے اور عوام کی جانب سے پناہ گزینوں کے مسائل کا حل نکالنے اور انہیں امید دینے کے لیے متحدہ کوششوں کے بغیر امدادی نظام قائم نہیں رہ پائے گا۔
یہ جائزہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب دنیا میں نقل مکانی پر مجبور لوگوں کی تعداد 122 ملین تک جا پہنچی ہے، ان میں 42.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پناہ گزینوں کے لیے میں پناہ گزینوں کے حوالے سے ممالک میں فیصد لوگ کہ پناہ ہیں کہ
پڑھیں:
امارات،سنگاپوراور ناروے اے آئی کے استعمال میں نمایاں، پاکستان بہت پیچھے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سنگاپور،ناروے، متحدہ عرب امارات، نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) کے عالمی استعمال میں نمایاں برتری حاصل کر لی ہے۔ جبکہ پاکستان اس دوڑ میں کافی پیچھے ہے جہاں آبادی کا صرف ایک محدود حصہ روزمرہ زندگی میں اے آئی ٹولز استعمال کر رہا ہے۔
رپورٹ میں 170 ممالک میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے فروغ، اس کے استعمال اور سرکاری و نجی شعبوں میں اس کے انضمام کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے مطابقمتحدہ عرب امارات اور سنگاپور میں کام کرنے والے 50 فیصد سے زائد افراد باقاعدگی سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس استعمال کر رہے ہیں، جس سے یہ دونوں ممالک عالمی درجہ بندی میں سرِفہرست قرار پائے ہیں۔جبکہ پاکستان میں اے آئی کا استعمال 15 فیصد سے بھی کم ہے، جہاں بیشتر افراد اب تک آرٹیفیشل انٹیلیجنس کام یا تعلیم کے لیے استعمال نہیں کر رہے۔یہ انکشاف مائیکروسافٹ کے اے آئی اکنامی انسٹیٹیوٹ کی نئی رپورٹ ’اے آئی ڈیفیوشن رپورٹ 2025ء‘ میں کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے فروغ میں سست رفتاری کی بنیادی وجوہات انٹرنیٹ کی محدود رسائی، ڈیجیٹل مہارتوں کی کمی اور پاکستان کی علاقائی زبانوں میں اے آئی ٹولز کی عدم دستیابی ہیں۔ جن ممالک میں لوگ اپنی زبان، جیسے انگریزی یا عربی میں اے آئی استعمال کر سکتے ہیں، وہاں اس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
مسلم ممالک میں متحدہ عرب امارات سب سے آگے ہے، اس کے بعد سعودی عرب، ملائشیا، قطر اور انڈونیشیا نمایاں ہیں، جو آرٹیفیشل انٹیلجنس کی تعلیم، ڈیٹا سینٹرز اور حکومتی پروگرامز میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل بھی اُن 7 ممالک میں شامل ہے جو جدید آرٹیفیشل انٹیلجنس ماڈلز تیار کر رہے ہیں، اسرائیل ساتویں نمبر پر ہے جبکہ امریکا، چین، جنوبی کوریا، فرانس، برطانیہ اور کینیڈا اس فہرست میں اس سے آگے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان ابھی آرٹیفیشل انٹیلجنس تیار کرنے والے ممالک میں شامل نہیں، تاہم بہتر ڈیجیٹل تعلیم، انٹرنیٹ سہولتوں اور مہارتوں کے فروغ کے ذریعے وہ اس میدان میں اپنی پوزیشن بہتر بنا سکتا ہے۔ تجویز کیاگیاہے کہ امیر اور غریب ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اے آئی کے فرق کو کم کیا جائے تاکہ تمام اقوام اس جدید ٹیکنالوجی کے فوائد سے یکساں طور پر مستفید ہو سکیں۔