ایسے لوگوں کو للکارنا عدالتی ادارے کی خدمت کی شکل ہے، اندر سے تنقید آئین کی وفاداری کی جڑ ہے، بے وفائی نہیں
ججز کو عدلیہ اور قانون کی حکمرانی کو پامال کرنے کا خطرات کا مقابلہ کرنا ہے، ججوں کو لالچ کا شکار نہیں ہونا چاہیے

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے سروس کیس میں عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کا فرض ہے اپنی صفوں میں طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والوں کی نشاندہی کریں۔جسٹس منصور علی شاہ نے سروس کیس میں اپنے فیصلے نے کہا کہ ججز اخلاقی وضاحت اور ادارہ جاتی جرأت کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں، اندر سے تنقید آئین کی وفاداری کی جڑ ہے، بے وفائی نہیں۔انہوں نے لکھا کہ ایسے لوگوں کو للکارنا عدالتی ادارے کی خدمت کی اعلیٰ ترین شکل ہے، ججوں کو دیانتداری اور جرأت کے ساتھ کام کرنا ہے، ججز کواندروانی اور بیرونی تمام تجاوزات کا مقابلہ کرنا ہے۔فیصلہ کے مطابق ججز کو عدلیہ اور قانون کی حکمرانی کو پامال کرنے کا خطرات کا مقابلہ کرنا ہے، ججوں کو چھوٹے، قلیل مدتی فوائد کے لالچ کا شکار نہیں ہونا چاہیے، ایسے فوائد محض وہم اور عارضی ہوتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جج کا اصل اجر ادارے کے وقار اور عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے میں ہے، تاریخ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو اصول کے دفاع میں ثابت قدم رہے گا۔انہوں نے کہا کہ جج کی فقہی وراثت خوشامد پر نہیں، اصولی انحراف پر استوار ہوتی ہے، جب انصاف کی روح کو خطرہ عدالتوں مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے، عدالتوں کو آئینی اخلاقیات کا مینارہ اور جمہوری سالمیت کے محافظ ہونا چاہیے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تاریخ ان ججوں کو بری نہیں کرے گی جو اپنی آئینی ذمہ داری ترک کر دیتے ہیں، تاریخ ایسے ججز کو ناانصافی کے ساتھی کے طور پر یاد رکھے گی۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ محض تنازعات کے حل کا فورم نہیں، سپریم کورٹ قوم کا آئینی ضمیر بھی ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ نے ہونا چاہیے نے کہا کہ ججوں کو کرنا ہے ججز کو

پڑھیں:

غزہ: خوراک کی تلاش میں نکلے فاقہ کشوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 02 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ غزہ میں امدادی قافلوں کے راستوں اور 'غزہ امدادی فاؤنڈیشن' کے مراکز پر فلسطینیوں کو فائرنگ اور گولہ باری کا نشانہ بنانے کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی جہاں روزانہ بڑی تعداد میں شہری ہلاک و زخمی ہو رہے ہیں۔

اسرائیل کی فوج نے 27 جولائی کو غزہ کے مغربی علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے لیے جنگ میں روزانہ وقفے دینے کا اعلان کیا تھا۔

لیکن خوراک کے حصول کی جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دفتر نے بتایا ہے کہ 30 اور 31 جولائی کو شمالی غزہ کے سرحدی علاقے زکم اور موراغ جبکہ جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں امدادی قافلوں کے راستوں پر 105 فلسطینی ہلاک اور کم از کم 680 زخمی ہوئے۔

(جاری ہے)

Tweet URL

اس طرح، 27 مئی کے بعد خوراک کی تلاش میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد کم از کم 1,373 تک پہنچ گئی ہے جن میں 859 غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مراکز اور 514 امدادی قافلوں کے راستوں پر مارے گئے

'او ایچ سی ایچ آر' نے بتایا ہے کہ ایسی بیشتر ہلاکتیں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہوئیں جبکہ علاقے میں دیگر مسلح عناصر بھی موجود ہیں تاہم ایسے واقعات میں ان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں مردوں اور لڑکوں کی اکثریت ہے۔ ایسی کوئی اطلاعات نہیں کہ یہ فلسطینی کسی طرح کی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث تھے یا ان سے اسرائیلی فوج یا کسی اور کو خطرہ لاحق تھا۔ دفتر کا کہنا ہے کہ ان میں ہر فرد اپنی اور اپنے اہلخانہ کی بقا کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے ہلاک ہوا۔

انسانی ساختہ بحران

ادارے نے بتایا ہے کہ بچوں، معمر و جسمانی معذور افراد، بیماروں اور زخمیوں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد غذائی قلت اور بھوک سے ہلاک ہو رہی ہے۔

عام طور پر انہیں کوئی مدد میسر نہیں آتی اور وہ ایسی جگہوں تک پہنچنے سے قاصر ہوتے ہیں جہاں انہیں معمولی سی مقدار میں خوراک مل سکتی ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ یہ انسانی ساختہ انسانی بحران اور اسرائیل کی ایسی پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے جن کے نتیجے میں انسانی امداد کی مقدار میں بڑے پیمانے پر کمی آئی۔

جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم

'او ایچ سی ایچ آر' نے واضح کیا ہے کہ پرامن شہریوں پر دانستہ حملے اور بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اور امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالنا جنگی جرائم کے مترادف ہے۔

اگر ایسے افعال کا شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر اور منظم طور سے ارتکاب کیا جائے تو یہ انسانیت کے خلاف جرم کی ذیل میں آتا ہے۔

غزہ میں پیش آنے والے یہ واقعات، انسانی امداد کی فراہمی میں عائد کی جانے والی رکاوٹیں اور غزہ میں اسرائیلی فوج کا طرز عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل غزہ کے لوگوں کو ایسے حالات سے دوچار کر رہا ہے جن میں ان کے لیے انسانی گروہ کی حیثیت سے زندہ رہنا ممکن نہیں۔

ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ

'او ایچ سی ایچ آر' نے زور دیا ہے کہ غزہ میں ایسی تمام ہلاکتوں کی فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں اور ان کے ذمہ داروں کا محاسبہ عمل میں لایا جائے۔ مزید برآں، ایسے واقعات کا دوبارہ ارتکاب روکنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جانا بھی ضروری ہیں۔

قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ غرہ میں لوگوں کو ہر طرح کی ضروری مدد کی فراہمی میں سہولت دے اور علاقے میں ایسے حالات پیدا کرے جن میں امدادی اداروں کے لیے اپنا کام محفوظ اور آزادانہ طور سے انجام دینا ممکن ہو سکے۔

دفتر نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی ان پامالیوں کو روکنے کے لیے ہرممکن ذرائع سے کوششیں کر کے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کریں تاکہ شہریوں کی مزید اموات کو روکا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • حماس نے ہتھیار ڈالنے کو فلسطین کی آزادی سے مشروط کردیا
  • حماس نے ہتھیار ڈالنے کو فلسطین کی آزادی سے مشروط کردیا
  • غزہ: خوراک کی تلاش میں نکلے فاقہ کشوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری
  • غزہ میں دشمن کا آخری ہتھیار بھوک
  • مسائل کو جنگ، تشدد اور طاقت سے ہرگز حل نہیں کیا جا سکتا، میر واعظ
  • جنگ کے دوران پتہ چلا کہ ڈیجیٹل میڈیا بہترین ہتھیار ہے، بلاول بھٹو زرداری
  • سینئر وکیل کا قتل، فائرنگ کرنے والے ملزم کی نشاندہی ہوگئی
  • مودی حکومت نے روس سے تیل خریدنا بند کر کے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئے، کانگریس
  • پشاور میں چیف جسٹس آف پاکستان کی زیر صدارت اجلاس، عدالتی اصلاحات اور بار کے کردار پر زور
  • 9مئی مقدمات میں پی ٹی آئی رہنما ؤں کو سزائیں، بیرسٹر گوہر کا ردعمل بھی سامنے آگیا