حکومت کی والدین کو ہدایت، 15 سال سے کم عمر بچوں کو ٹک ٹاک اور انسٹاگرام سے دور رکھیں
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
نیدرلینڈز کی حکومت نے خبردار کیا ہے کہ 15 سال سے کم عمر بچے اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خصوصاً ٹک ٹاک اور انسٹاگرام کا استعمال کریں تو وہ نفسیاتی اور جسمانی مسائل، ڈپریشن اور نیند کی خرابی جیسے خطرات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
وزارت صحت نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بچوں کو ان پلیٹ فارمز کے استعمال سے باز رکھیں اور ان کے ڈیجیٹل ڈیوائسز کے استعمال کے دورانیے پر بھی کڑی نظر رکھیں۔
العربیہ اردو کے مطابق، وزارت صحت نے بیان میں تجویز دی ہے کہ بچوں کا اسکرین ٹائم 20 منٹ سے زیادہ نہ ہو، اس کے بعد انہیں کم از کم 2 گھنٹے جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے۔ والدین کو ہدایت کی گئی ہے کہ رات کے وقت موبائل فون، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیجیٹل آلات بچوں کے کمروں سے دور رکھے جائیں۔
مزید پڑھیں: ٹک ٹاک کی بیوٹی ٹپس سے نوجوانوں کی جلد متاثر ہونے لگی، تحقیق
نگران نائب وزیر برائے کھیل و نوجوان، ونسنٹ کریمنز نے پارلیمنٹ کو ارسال کردہ ایک خط میں کہا ہے کہ یہ ایڈوائزری بچوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے مضر اثرات سے بچانے کی کوشش ہے۔ خط میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ٹک ٹاک اور انسٹاگرام کے استعمال کی کم از کم عمر 13 سال ہونی چاہیے، اور وہ بھی صرف رابطے کی حد تک۔
نیدرلینڈز کے اسکولوں میں پہلے ہی طلبہ کے لیے موبائل فون، اسمارٹ واچز اور ٹیبلٹس کے استعمال پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
رواں سال مئی میں 1400 سے زائد ڈاکٹروں اور ماہرین نے ایک عوامی خط پر دستخط کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ 14 سال سے کم عمر بچوں کو موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے، جبکہ 16 سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال کی مکمل پابندی عائد کی جائے۔
واضح رہے کہ آسٹریلیا پہلے ہی 16 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی لگا چکا ہے، جبکہ فرانس، ڈنمارک اور سویڈن بھی اسی طرز کی قانون سازی اور سفارشات پر کام کر رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آسٹریلیا انسٹاگرام ٹک ٹاک نیدرلینڈز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آسٹریلیا انسٹاگرام ٹک ٹاک نیدرلینڈز سال سے کم عمر بچوں کے استعمال بچوں کو ٹک ٹاک
پڑھیں:
اے پی ڈی اے کا وزیراعظم سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی پالیسی پر نظرِ ثانی کا مطالبہ
— فائل فوٹوآل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن (اے پی ڈی اے) کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے حکومت کی جانب سے کمرشل بنیادوں پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دینے کے فیصلے کو درست سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا ہے کہ اس پالیسی کے کچھ پہلو ایسے ہیں جو خود نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں اور ان پر فوری نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔
ایچ ایم شہزاد نے اپنے بیان میں کہا کہ 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی (RD) عائد کرنے کا فیصلہ انتہائی غیر منطقی ہے کیونکہ استعمال شدہ گاڑیاں پہلے ہی دنیا کی بلند ترین شرحِ ٹیکس یعنی 122 فیصد سے 475 فیصد تک ٹیکس کا بوجھ اٹھا رہی ہیں۔ مزید بوجھ ڈالنے سے یہ کاروبار ناصرف تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا بلکہ صارفین کے لیے گاڑیاں ناقابلِ خرید بھی ہو جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کے ساتھ ایسی شرائط منسلک کی گئی ہیں جو براہِ راست کاروباری طبقے اور بالخصوص اوورسیز پاکستانیوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ اوورسیز پاکستانی پہلے ہی TR، گفٹ اور بیگیج اسکیم کے تحت گاڑیاں لا کر پاکستان کے لیے قیمتی زرمبادلہ فراہم کر رہے ہیں، اس لیے ان کے مفادات کا تحفظ ناگزیر ہے۔
چیئرمین APMDA نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے پر فوری مکالمہ کرے تاکہ پالیسی کو بہتر بنا کر تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے ایک ’ون-ون سیچوایشن‘ پیدا کی جا سکے۔
انہوں نے وزیراعظم پاکستان سے پرزور اپیل کی کہ آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے نمائندہ وفد کو ملاقات کا وقت دیا جائے تاکہ وہ براہِ راست اپنے مطالبات، مشکلات اور حقائق سے حکومت کو آگاہ کر سکیں۔