اسرائیل کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں حالات کشیدہ ہو گئے ہیں، چینی وزیر خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
بیجنگ : چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے بالترتیب مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی اور عمانی وزیر خارجہ بدر بن حمد البوسیدی سے فون پر بات کی۔ جمعرات کے روزمصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا کہ موجودہ علاقائی صورتحال خطرناک ہے۔ اسرائیل کا ایران پر حملہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مصر اس کی مذمت کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ ایرانی جوہری مسئلہ جلد از جلد سیاسی حل کے راستے پر واپس آئےگا۔ وانگ ای نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں حالات اچانک کشیدہ ہو گئے ہیں۔ مصر نے حال ہی میں 20 عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا مشترکہ بیان جاری کرنے میں پیش قدمی کی اور چین اس کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ وانگ ای نے نشاندہی کی کہ اس وقت عالمی برادری بالخصوص علاقائی ممالک کو مزید اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے اور مزید مستقل اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ چین مصر کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ جیسے کثیرالجہتی پلیٹ فارمز پر رابطے کو مضبوط بنانے، بات چیت اور مذاکرات کو فروغ دینے اور امن کے لیے مسلسل کوششیں کرنے کے لیے تیار ہے۔ عمانی وزیر خارجہ بدر بن حمد البوسیدی نے کہا کہ عمان کو موجودہ صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ چین نے ہمیشہ انصاف اور بین الاقوامی برادری میں امن کو برقرار رکھا ہے۔ عمان چین کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کی بحالی میں چین کے زیادہ اثر و رسوخ کا منتظر ہے۔ وانگ ای نے کہا کہ چین نے فوری طور پر اسرائیل کی جانب سے طاقت کے استعمال کی مخالفت کا اظہار کیا ہے اور امید ہے کہ عمان اور اسلامی ممالک متحد ہو کر امن اور بات چیت کے فروغ کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔ چین عمان اور دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ رابطے کو مزید مضبوط کرے گا اور اقوام متحدہ اور دیگر پلیٹ فارمز پر مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کے لیے تعمیری کردار ادا کرے گا۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایران پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف امریکا میں احتجاج
مظاہرین کا امریکی صدر ٹرمپ سے جنگ میں نہ الجھنے کا مطالبہ
جیسے جیسے ٹرمپ انتظامیہ مشرقِ وسطی میں اسرائیل کی جنگ میں مزید عملی کردار ادا کرنے پر غور کر رہی ہے، اسی تناظر میں واشنگٹن میں وائٹ ہائوس کے باہر مظاہرین جمع ہو گئے ہیں جو امریکا کو ایران اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ میں براہِ راست مداخلت سے روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ ایران پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ساتھ ہی امریکا کی جانب سے اسرائیل کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرنے پر بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
مظاہرے کے شرکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکا جنگ میں براہِ راست عسکری طور پر شامل نہ ہو، کیونکہ ایسا اقدام مشرق وسطی میں تنازعے کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت امریکا کے تین طیارہ بردار بحری بیڑے (aircraft carrier groups) مشرقِ وسطی میں موجود ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیڑے صرف دفاعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے چاہئیں، نہ کہ جارحانہ کارروائیوں کے لیے۔مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا:”No War with Iran”, "Stop Funding War Crimes”, "Diplomacy Not Bombs”۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے نے ایک خطرناک اور غیر متوقع صورتحال پیدا کر دی ہے اور امریکا کی براہ راست مداخلت دنیا کو ایک وسیع تر جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔سول سوسائٹی اور امن کے حامی گروپوں نے بھی مظاہرے کی حمایت کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوجی کارروائی کے بجائے سفارتی راستہ اختیار کرے تاکہ مشرق وسطی میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔