چینی صدر کا دورہ وسطی ایشیا ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دیتا ہے، چینی وزیر خا رجہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
چینی صدر کا دورہ وسطی ایشیا ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دیتا ہے، چینی وزیر خا رجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 19 June, 2025 سب نیوز
آستانہ :چینی صدر شی جن پھنگ کے دوسرے چین وسطی ایشیا سربراہ اجلاس کے دورے کے اختتام پر چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے کہا ہے کہ دوسرے چین وسطی ایشیا سربراہ اجلاس میں صدر شی کی شرکت رواں سال وسطی ایشیا میں چین کی سب سے اہم سفارتی پیش رفت ہے۔ صدر شی جن پھنگ نے 10 سے زائد کثیر الجہتی اور دوطرفہ سرگرمیوں میں شرکت کی اور پانچ وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان مملکت کے ساتھ تعاون کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا اور سوسے زائد تعاون کے نتائج حاصل کیے،
جن کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔جمعرات کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق وانگ ای نے کہا کہ اس سربراہی اجلاس کی سب سے نمایاں بات صدر شی جن پھنگ کی جانب سے “چین وسطی ایشیا اسپرٹ” کا اعلان تھی۔ وسطی ایشیا کے سربراہان مملکت نے متفقہ طور پر اس جذبے کے مطابق چین وسطی ایشیا میکانزم کی مزید ترقی کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ چھ ممالک کے سربراہان مملکت نے مشترکہ طور پر آستانہ اعلامیے پر دستخط کیے جو اس سربراہ اجلاس میں طے پانے والے اہم سیاسی اتفاق رائے کی عکاسی کرتا ہے۔ وسطی ایشیا کے ممالک ایک چین کے اصول پر عمل پیرا ہونے کا اعادہ کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں صرف ایک چین ہے اور تائیوان چین کا اٹوٹ حصہ ہے۔ تمام فریقین ” دہشت گردی، انتہاپسندی,علیحدگی پسندی” اور سرحد پار منظم جرائم پر مشترکہ طور پر کاری ضرب لگانےاور سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے پرعزم ہیں۔
وانگ ای کا کہنا تھا کہ اس سربراہ اجلاس کا سب سے منفرد موضوع چھ ممالک کے سربراہان مملکت کی جانب سے مشترکہ طور پر 2025 تا 2026 کو “چین وسطی ایشیا تعاون کی اعلی معیار کی ترقی کے سال” کا اعلان تھا۔ صدر شی جن پھنگ اور پانچ وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان مملکت نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے اعلیٰ معیار کےایکشن پلان پر دستخط کا مشاہدہ کیا۔ صدر شی جن پھنگ نے چین وسطی ایشیا تعاون کے فریم ورک کے تحت غربت میں کمی، تعلیمی تبادلے اور صحرا زدگی کی روک تھام اور کنٹرول میں تعاون کے تین بڑے مراکز کے قیام اور اگلے دو سالوں میں وسطی ایشیائی ممالک کو 3،000 تربیتی مواقع کی فراہمی کا اعلان کیا ۔ صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ترقیاتی تجربات اور جدید ترین تکنیکی کامیابیوں کا اشتراک کرنے کے لئے تیار ہے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے کہا کہ اس سربراہ اجلاس کا سب سے اہم اقدام چھ ممالک کے سربراہان مملکت کی جانب سے “مستقل خوشگوار ہمسائگی، دوستی اور تعاون کے معاہدے” پر دستخط کرنا تھا جو چھ ممالک کے درمیان تعلقات کی تاریخ میں ایک نیا سنگ میل ہے۔ سربراہ اجلاس کے دوران چین اور وسطی ایشیائی ممالک نے مقامی تعاون، افرادی آمدو رفت ، تعلیمی تبادلوں،ثقافت اور سیاحت سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کے نئے ثمرات کا سلسلہ طے پایا۔ چینی صدر شی جن پھنگ کے دورہ وسطی ایشیا نے چین وسطی ایشیا میکانزم کی ترقی کی قیادت کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک میں ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دیا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکہ پر عوامی اعتماد کی کمی یکطرفہ بالا دستی کے غروب ہوتے سورج کی نشاندہی ہے، عالمی میڈیا اگلی خبرسرکاری افسران اپنے اثاثے ظاہر کریں گے، سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کا بل سینیٹ سے منظور امریکہ پر عوامی اعتماد کی کمی یکطرفہ بالا دستی کے غروب ہوتے سورج کی نشاندہی ہے، عالمی میڈیا آئندہ بجٹ میں نان فائلروں پر جائیداد اور گاڑی کی خریداری پر پابندیاں لگانے کی تجویز کیش لیس اکانومی اور معیشت کی ڈیجیٹائیزیشن کیلئے اعلی سطحی کمیٹی قائم چین وسطی ایشیا روح کی روشنی میں تعاون کا نیا باب کھل گیا ریئر ارتھ میٹلز کی برآمدات پر چین کا اتنظام چین کو ایک ذمہ دار ملک ظاہر کرتا ہے، چینی میڈیا مالیاتی نگران قوانین اور دیگر احتیاطی میکانزم کو مزید مستحکم کیا گیا ہے، گورنر چینی مرکزی بینکCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: وسطی ایشیا کو فروغ
پڑھیں:
پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-4
محمد مطاہر خان
پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔
اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔
وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔
بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔
اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔