کیا پھوٹے آلو واقعی زہریلے ہوتے ہیں؟ استعمال سے پہلے ضرور پڑھیں
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گھر میں رکھے رکھے پھوٹنے والے آلو اور پیاز کا استعمال اکثر لوگ معمول کی بات سمجھتے ہیں، لیکن طبی ماہرین کی تحقیق اس بارے میں کچھ مختلف اور اہم حقائق بتاتی ہے۔
آلو جب پھوٹنے لگتے ہیں، یعنی ان پر ننھے پودے (اسپراؤٹس) نکل آتے ہیں، تو ان میں گلائکوالکلائیڈز جیسی زہریلی کیمیکل کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہ کیمیکل آلو کو کیڑوں اور پھپھوندی سے بچانے کے لیے بنتا ہے، مگر انسان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسی حالت میں آلو کا ذائقہ کڑوا ہو سکتا ہے اور اس کے استعمال سے قے، متلی یا معدے کی تکالیف پیدا ہو سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق سبز آلو یا وہ جن پر پودے نکل آئے ہوں، استعمال نہیں کرنے چاہییں۔
البتہ برطانوی فوڈ اسٹینڈرڈ ایجنسی کا کہنا ہے کہ اگر آلو سخت اور خراب نہ ہو، تو اس کے اُگے ہوئے حصے کو کاٹ کر باقی حصہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ صرف تبھی جب آلو کے رنگ، سختی اور خوشبو میں کوئی فرق نہ آیا ہو۔
پیاز اور لہسن کے پھوٹنے کے معاملے میں اتنی سخت احتیاط کی ضرورت نہیں۔ یہ آلو کی طرح زہریلے نہیں ہوتے، اور اگر ان پر ننھے پودے نکل آئیں تو انھیں عام طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے — بشرطیکہ وہ نرم، سڑے یا بدبو دار نہ ہوں۔
اگر آلو یا پیاز کو زیادہ دن محفوظ رکھنا ہو تو کچھ اہم احتیاطی تدابیر کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ آلو کو ایسی جگہ رکھنا چاہیے جہاں روشنی کم ہو، جگہ خشک ہو اور درجہ حرارت ٹھنڈا ہو، تقریباً 3 سے 10 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان۔ آلو ذخیرہ کرنے سے پہلے ہرگز نہ دھوئیں، کیونکہ گیلا آلو جلد خراب ہو جاتا ہے۔ آلو کو پیاز کے ساتھ نہ رکھیں، کیونکہ پیاز نمی اور گیس خارج کرتا ہے، جو آلو کو جلد پھاڑ دیتا ہے۔ پیاز اور لہسن کو بھی خشک اور ہوادار جگہ پر رکھنا چاہیے تاکہ وہ زیادہ دیر محفوظ رہ سکیں۔ ان سب چیزوں کو اس طرح محفوظ کیا جائے کہ نہ دھوپ لگے، نہ نمی ہو، اور نہ قریب کوئی ایسی چیز ہو جو ان کے خراب ہونے کی رفتار کو تیز کرے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے‘ گوہر اعجاز
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 ستمبر2025ء)چیئرمین اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ اور سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ شرح سود کو برقرار رکھنا پاکستان کے ٹیکس گزاروں پر خطے کا مہنگا ترین بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے، پاکستان میں شرح سود خطے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے،شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے۔(جاری ہے)
اپنے بیا ن میں انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا ایماندار ٹیکس گزاروں مزید بوجھ ڈالنا ہے، مالیاتی خسارہ شرح سود کو مہنگائی کے مطابق کم کر کے قابو کیا جا سکتا ہے۔پرائیویٹ کاروبار اس صورت میں ترقی کر سکتا ہے جب اسے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے۔معاشی ترقی کے لیے فیصلہ کن مانیٹری پالیسی کی ضرورت ہے، پائیدار معاشی ترقی کے لیے یکساں مواقع ہونا ضروری ہیں۔پاکستان میں شرح سود خطے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے ، پاکستان میں مہنگائی 3فیصد اور شرح سود 11فیصد ہے، بھارت میں مہنگائی 1.5فیصد اور شرح سود 5.5فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش میں مہنگائی 8.3فیصد اور شرح سود 10 فیصد ہے۔