اس برطانوی میڈیا نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ "اسرائیل کی ایران کے خلاف براہ راست جنگ نہ صرف تل ابیب کے لیے کوئی یقینی فوجی فتح حاصل نہیں کرے گی، بلکہ اسرائیل کو ایک طویل اور مہنگے علاقائی بحران میں الجھا سکتی ہے جب تک کہ مذاکرات اور ثالثی کی راہ کو تصادم پر ترجیح نہ دی جائے۔" اسلام ٹائمز۔ معروف برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے اپنے تجزیے میں اسرائیل کی ایران کیخلاف جنگ میں ناکامی کی 3 کلیدی وجوہات بیان کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ اسرائیل کے پاس ایران کے خلاف براہ راست جنگ میں مکمل فتح حاصل کرنے کے زیادہ امکانات نہیں ہیں۔ جریدے نے اپنے تازہ شمارے میں حالیہ عسکری پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے اسرائیل کی ایران پر غالب آنے کی ناکامی کی تین بنیادی وجوہات گنوائی ہیں:

1۔ ایران کی جغرافیائی وسعت، فوجی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے میں رکاوٹ  
اکانومسٹ لکھتا ہے: "ایران ایک وسیع اور گہرے اسٹریٹجک پھیلاؤ والا ملک ہے، جسے غزہ یا جنوبی لبنان کی طرح مختصر وقت میں محدود آپریشنز کے ذریعے مؤثر طریقے سے مفلوج نہیں کیا جا سکتا۔" میزائل بیسوں اور فوجی مراکز کا ملک بھر میں پھیلا ہونا، ایران کی حملہ برداشت کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے اور اسرائیل کے نشانہ بند حملوں کی افادیت پر سوال اٹھاتا ہے۔  

2۔ اسرائیل کے لیے طویل فاصلہ اور لاجسٹک مشکلات  
جریدے کے مطابق، "ایران اور اسرائیل کے درمیان ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ تل ابیب کے لیے وسیع اور مسلسل فوجی کارروائیوں کو انتہائی مشکل بنا دیتا ہے۔" اسرائیل کو اپنی حملہ آور صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے درمیانی اڈوں یا امریکہ کی فعال حمایت کی ضرورت ہوتی ہے، جو موجودہ حالات میں امریکی خارجہ پالیسی کے غیر یقینی ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے۔ 

3۔ بحران کے وقت ایران کے عوام کا نظام کے ساتھ وفاداری  
اکانومسٹ اپنے تجزیے میں مزید زور دیتا ہے کہ "اگرچہ ایران کے اندر معاشی اور سماجی حالات پر کچھ ناراضگی موجود ہے، لیکن بیرونی خطرے کے وقت سیاسی نظام کے گرد قومی یکجہتی اور اتحاد پیدا ہو جاتا ہے۔" یہ خصوصیت اسرائیل کے لیے تیزی سے رخنہ ڈالنے یا اندرونی انتشار کے منصوبوں کو مختصر مدت میں غیر مؤثر بنا دیتی ہے۔

اکانومسٹ کا خلاصہ  
اس برطانوی میڈیا نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ "اسرائیل کی ایران کے خلاف براہ راست جنگ نہ صرف تل ابیب کے لیے کوئی یقینی فوجی فتح حاصل نہیں کرے گی، بلکہ اسرائیل کو ایک طویل اور مہنگے علاقائی بحران میں الجھا سکتی ہے جب تک کہ مذاکرات اور ثالثی کی راہ کو تصادم پر ترجیح نہ دی جائے۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیل کی ایران اسرائیل کے ایران کے کے لیے

پڑھیں:

تل ابیب اور تہران پر حملوں اور جوابی حملوں کا سلسلہ جاری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جون 2025ء) اسرائیل نے تہران کے جنوب مغربی علاقے کے مکینوں کو انخلا کی وارننگ دے دی

پچاس لڑاکا طیاروں نے تہران میں گزشتہ رات بیس سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا

امریکا نے مشرق وسطیٰ میں مزید جنگی طیارے بھیج دیے ہیں

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹیں گے، جب تک ایران کا ایٹمی پروگرام ناکارہ نہ بنا دیا جائے

اسرائیل کی نئی وارننگ

اسرائیل نے تہران کے جنوب مغربی علاقے کے مکینوں کو انخلا کی وارننگ دے دی ہے۔

اطلاعات کے مطابق اسرائیل ان علاقوں میں واقع ایرانی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہتا ہے، اس لیے عام شہریوں کے وہاں سے نکل جانے کے لیے انتباہ جاری کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ایرانی میڈیا کے مطابق تہران اور دیگر بڑے شہروں سے ہزاروں افراد کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک دوسرے پر میزائل حملوں کا تبادلہ بدھ کو چھٹے روز بھی جاری ہے۔

ایرانی نیوز ویب سائٹس کے مطابق اسرائیل ایران کے مشرق میں پاسداران انقلاب سے وابستہ ایک یونیورسٹی اور تہران کے قریب ’خجیر‘ بیلسٹک میزائل تنصیب گاہ پر بھی حملے کر رہا ہے۔ اس اہم ایرانی فوجی تنصیب گاہ کو گزشتہ اکتوبر میں بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

امریکی صدر ٹرمپ کا انتباہ

ایک اسرائیلی فوجی اہلکار کے مطابق پچاس لڑاکا طیاروں نے تہران میں گزشتہ رات بیس سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔

امریکی صدر ٹرمپ نے منگل کے روز سوشل میڈیا پر وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا، ’’اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔‘‘ انہوں نے لکھا، ’’ہمیں معلوم ہے کہ نام نہاد ’سپریم لیڈر‘ کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ ہم فی الحال انہیں ہلاک کرنے نہیں جا رہے لیکن ہمارا صبر ختم ہو رہا ہے۔‘‘

پھر صرف تین منٹ بعد ہی صدر ٹرمپ نے ایک اور پیغام میں لکھا تھا کہ ایران ’’غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے!‘‘

ٹرمپ کے اسرائیل اور ایران کے مابین فوجی کشیدگی پر بیانات کبھی دھمکی آمیز اور کبھی مصالحتی نظر آتے ہیں، جس سے صورت حال مزید بے یقینی کا شکار ہو گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق ٹرمپ اور ان کی ٹیم مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں، جن میں ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل کے ساتھ مل کر مشترکہ حملے کرنا بھی شامل ہے۔

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی فوجی کمک روانہ

امریکی حکام نے بتایا کہ امریکا نے مشرق وسطیٰ میں مزید جنگی طیارے بھیج دیے ہیں اور پہلے سے موجود طیاروں کی تعیناتی میں توسیع کر دی ہے۔

امریکا اب تک اس تنازعے میں براہِ راست ملوث نہیں ہوا البتہ امریکی فوج نے اسرائیل کی جانب آنے والے ایرانی میزائل مار گرانے میں مدد کی ہے۔

ایران کے علاقائی اثر و رسوخ میں کمی

ناقدین کا کہنا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کے کئی اہم فوجی اور سکیورٹی مشیر اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں، جس سے ان کا قریبی حلقہ کمزور ہو گیا ہے اور اسٹریٹیجک غلطیوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

اسرائیل کے مسلسل حملوں میں آیت اللہ علی خامنہ ای کے متعدد بھروسہ مند کمانڈرز اور حکمت عملی ساز ہلاک ہو چکے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اپنے قریبی متعمدین سے محروم ہو جانے سے چھیاسی سالہ رہنما اب تنہا پڑتے جا رہے ہیں۔

چھیاسی سالہ، آیت اللہ علی خامنہ ای ایران کو اس کے سب سے خطرناک سیاسی اور دفاعی حالات میں کشتی کو پار لگانے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، باوجودیکہ وہ خود اسرائیل کے اہم اہداف میں سے ایک ہیں۔

ان کے کئی اعلیٰ فوجی اور انٹیلیجنس مشیر یا تو ہلاک ہوچکے ہیں یا لاپتہ ہیں، جس نے فیصلہ سازی کے بنیادی مرکز کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ایسے اقدامات کے خدشات کو جنم دیا ہے جو ممکنہ طور پر ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل کے ایران پر یہ تازہ حملے 1979ء کے بعد ایرانی قیادت پر سب سے سنگین ضرب قرار دیے جا رہے ہیں۔

ایران کا ایٹمی پروگرام ختم کرنا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹیں گے، جب تک ایران کا ایٹمی پروگرام ناکارہ نہ بنا دیا جائے۔

ادھر امریکی صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ اگر ایران یورینیم کی افزودگی پر سخت پابندیاں مان لے، تو اسرائیلی حملے بند ہو سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جوہری توانائی کی ایجنسی (IAEA) نے بھی گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ایران معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور منگل کو اس ایجنسی نے تصدیق کی کہ اسرائیلی حملوں میں نطنز کی زیرِ زمین یورینیم افزودگی کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ایرانی فضائی حدود پر کنٹرول حاصل کر چکا ہے اور آنے والے دنوں میں مہم کو مزید وسعت دے گا۔

تاہم اسرائیل کے لیے پہاڑ کے نیچے قائم فردو جیسے گہرے جوہری مراکز کو تباہ کرنا امریکی تعاون کے بغیر مشکل ہو گا۔

ایرانی حکام کے مطابق گزشتہ چھ روز سے جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ایران میں تاحال 224 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اسرائیل نے اپنے 24 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خلیجی ممالک خبردار!امریکا کو فوجی اڈے دیے تو نتائج بھگتیں گے؛ ایران کی تنبیہ
  • ایران کے ساتھ کوئی نیا فوجی تعاون نہیں ہوا
  • کب جاگے گی امت؟
  • ایران پر ممکنہ فوجی حملے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں، سینئر امریکی حکام
  • ایران کیخلاف اسرائیل کی فوجی مدد کرنے کا سوچے بھی نہیں؛ روس نے امریکا کو خبردار کردیا
  • ایرانی جوہری مراکز کو تباہ کرنے میں اسرائیل کی فوجی مدد؛ ٹرمپ کا بیان سامنے آگیا
  • روس نے امریکا کو خبردار کر دیا
  • تل ابیب اور تہران پر حملوں اور جوابی حملوں کا سلسلہ جاری
  • ایران نے امریکی فوجی اڈوں پر حملوں کی منصوبہ بندی مکمل کر لی، امریکی اخبار کا دعویٰ