جب افقِ تہران پرشب کی سیاہی گہری ہونے لگی،اورفضامیں معلق اذانِ مغرب کی بازگشت ابھی تھمی نہ تھی،اسی لمحے آسمان نے آتش فشاں کی صورت ایک نئی قیامت برپاہوتے دیکھی۔اسرائیلی جارحیت نے ایران کی فضائوں میں وہ آتش برسادی جس کی چنگاریاں صرف بارودنہیں،بلکہ ایک نئے عالمی بحران کااستعارہ ہیں۔ان حملوں کانشانہ فقط اینٹ وپتھر کی عمارات نہ تھیں،بلکہ وہ نظریے،وہ خواب اوروہ امیدیں تھیں جنہیں ایران برسوں سے اپنی جوہری پیش رفت کی صورت پروان چڑھارہاتھا۔اسرائیل نے تہران اوراس کے گردونواح میں کئی مقامات پرتباہ کن فضائی حملوں میں ایران کا جوہری پروگرام،وزارتِ دفاع کے دفاتر،تحقیقاتی تنصیبات، دیگرحساس عسکری تنصیبات اورتہران کافیول ذخیرہ،سبھی ایک جھلسادینے والے خواب کی مانندراکھ میں بدلنے کا دعویٰ کیاہے۔
ان حملوں کامقصدبظاہرایران کی جوہری استعدادکومحدودکرناتھالیکن درحقیقت یہ حملہ ایک بڑے سیاسی دائو کااظہارتھا،جس کی تہہ میں اسرائیل کی خفیہ حکمتِ عملی اوررجیم چینج کی مہم نظر آتی ہے۔ان حملوں میں ایران کی مسلح افواج کے سربراہ سمیت کئی اعلی عسکری افسران جاں بحق ہوئے،جن کی شہادت نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے کی عسکری وسیاسی فضاپر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔نیزان حملوں کے نتیجے میں ایران کی عسکری قیادت میں ایسی شخصیات لقمہ اجل بنیں،جن کے نام فقط رینک اور وردی نہیں،بلکہ قوم کی عسکری خود داری کااستعارہ تھے۔آذربائیجان صوبہ،جوکل تک باغوں اورپہاڑوں کی کہانی سناتاتھا،آج وہاں کی فضائیں ماتم کناں ہیں۔اکتیس لاشیں،جن میں تیس فوجی اورایک ریڈکراس کارضاکاربھی شامل۔یہ صرف اعداد نہیں،بلکہ انسانی المیے کے نوحے ہیں جنہیں تاریخ رقم کررہی ہے۔
ایران نے بھی خاموشی اختیارنہ کی۔جس طرح دجلہ وفرات کی گہرائیوں سے ابوالانواراٹھاکرتے تھے،ویسے ہی تہران کے عسکری اذہان نے صبروحکمت کی بجائے قوتِ بازوکوزبان دی۔ایک سوسے زائدمیزائل تل ابیب،حیفااوروسطیٰ اسرائیل کی زمین پرگویاقیامت کی گھنٹیوں کی مانندبرسے۔حیفاکی آئل ریفائنری میں شعلوں کی وہ زبانیں بلندہوئیں،جنہیں فقط کیمرے ہی نہیں،وقت کی آنکھ نے بھی محفوظ کرلیا۔ایران نے نہایت شدید اوربروقت ردِعمل دیا۔سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق،ایران نے100سے زائد بیلسٹک اورکروز میزائل تل ابیب، حیفااوروسطی اسرائیل پرداغے۔ حیفاکی آئل ریفائنری میں لگنے والی آگ کی ویڈیو عالمی میڈیانے تصدیق شدہ قراردی،جس سے حملے کی شدت اورایران کی عسکری مہارت کااندازہ لگایاجا سکتا ہے۔ ایران کے دعوے کے مطابق اسرائیلی حملے میں شہران کے آئل ڈپو اورتہران کے فیول ٹینکس بھی نشانہ بنے،مگروزارتِ تیل کااصرارہے کہ صورتحال قابومیں ہے۔
اس جوابی حملے میں اسرائیل میں کم ازکم دس افرادکی ہلاکت اورسوسے زائدافرادکے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔اسرائیل میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ تنصیبات کوبھی شدید نقصان پہنچا۔یہاں محض گنتی نہیں بلکہ وہ زخم ہیں جوایک قوم کی نفسیات پراپنے انمٹ نقوش چھوڑجاتے ہیں۔اسرائیلی معاشرہ صدمے کی اس کیفیت میں مبتلاہے،جہاں نیندایک مجرم بن جاتی ہے اورسکون فقط خوابوں کی بات ہوجاتاہے۔نیتن یاہو، جوماضی میں آہن کی طرح مضبوط دکھائی دیتاتھا،اب پردیس سےحالات کاکنٹرول سنبھالنے اوروہاں سے جنگی صورتحال کوکنٹرول کرنے کی کوشش کررہاہے۔ یقیناامریکاکی طرف سے مہیاکیاجانے والاآئرن ڈوم بھی اشک بار اورتھرتھرکانپ رہاہے کہ اس کے ناقابل تسخیرہونے کے سب دعوے پرزے ہوگئے۔
اقوام متحدہ میں ایرانی سفیرنے اسرائیلی حملوں میں78افراد ہلاک ہونے کی تصدیق کی،جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔خاص طورپرآذربائیجان صوبے میں31ہلاکتیں ہوئیں ،جن میں30 فوجی اور ایک ریڈ کراس اہلکارشامل ہیں۔اس سارے تناظر میں اسرائیلی افواج نے ایرانی عوام کوخبردارکیاکہ وہ فوجی تنصیبات اوران کے اطراف سے دور رہیں۔گویااب جنگ صرف افواج کے مابین نہیں بلکہ شہری علاقوں میں پھیلنے کوہے۔اسرائیلی حملوں کاحتمی مقصد ابھی تک غیرواضح ہے،لیکن مبصرین کے مطابق یہ ایران میں رجیم چینج کی ایک کوشش ہوسکتی ہے ایک ایساجواجوپورے خطے کولپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ادھرحوثی تحریک نے دعویٰ کیاہے کہ اسرائیل پرحملہ ایران سے مکمل مشاورت کے بعدکیاگیا ۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ خطے کی متعددقوتیں اس کشیدگی میں فریق بن چکی ہیں،اوریہ محض ایران واسرائیل کی جنگ نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کامسئلہ بن چکاہے۔
اسرائیلی حملے ایک نئے باب کاآغازہیں یااختتام؟یہ سوال ہنوزجواب طلب ہے۔اسرائیل کا کہناہے کہ حملہ ایران کے اندرسے کیاگیا، جہاں موسادکانیٹ ورک نہ صرف موجود ہے بلکہ فعال بھی ہے۔اس نے ایران پراندرونِ ملک موجودموسادنیٹ ورک کی مدد سے حملے کیے۔اسی نیٹ ورک کی مددسے اسرائیل پہلے بھی اسماعیل ہنیہ اوردیگرفلسطینی قائدین کوقتل کرچکاہے۔ ایران نے متعدد بھارتی شہریوں سمیت 73افراد کو گرفتارکیاہے جن کاتعلق مبینہ طورپراسی نیٹ ورک سے ہے۔یوں ایران وبھارت،اوربالواسطہ پاکستان کے درمیان ایک نئے زاویے سے کشیدگی کی لہرچل پڑی ہے۔
یہاں پاکستان کاذکربے محل اوردلچسپی سے خالی نہیں ہوگاکہ پاکستان ماضی میں بارہاایران سے یہ شکایت کی ہے کہ انڈین راکے ایجنٹس بلوچستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہے ہیں۔بھارتی خفیہ ایجنسی را،ایرانی سرزمین کواستعمال کرتے ہوئے خیبر پختونخواہ میں بھی ٹی ٹی پی کودہشتگردی کے لئے استعمال کرتی ہے اورکل بھوشن کی گرفتاری اس حقیقت کا ناقابلِ انکارثبوت ہے۔ ساتھ ہی ایران پریہ الزامات بھی گردش کرتے رہے ہیں کہ اس نے طالبان کوہندوستانی سفارت کاری سے جوڑنے کی سہولت دی، جس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کر دیں۔تاہم حالیہ سہ فریقی اجلاس پاکستان،چین، افغانستان کے بعدملااخوندنے جوفتویٰ جاری کیاہے،وہ بظاہر دہشت گردوں کے لئے ایک انتباہ ہے،اورپاکستان کی امیدوں کاچراغ۔تاہم چین،افغانستان اورپاکستان کے درمیان حالیہ سہ فریقی اجلاس میں ایک مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے۔افغانستان کے امیرملا اخوندنے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث افرادکوسخت سزائیں دی جائیں گی۔یہ اعلان پاکستان کی سلامتی کے لئے نیک شگون ہے۔
ایران کے میزائل پروگرام پرعالمی پابندیوں کے باوجوداس کی ترقی حیران کن ہے۔’’4سوسیکنڈمیں تل ابیب‘‘کے دعوے کے ساتھ ہائپرسونک میزائلوں کی تیاری کاانکشاف دنیا کے لئے ایک دھچکاہے۔ریورس انجینئرنگ کے ذریعے ایران نے جوکامیابیاں حاصل کی ہیں،وہ جدیدٹیکنالوجی کی دنیامیں ایک انوکھاتجربہ ہیں۔ایران کایہ دعویٰ کہ اس نے امریکی ایف35 طیارہ گرایاہے اور اسرائیلی خاتون پائلٹ بھی ان کی حراست میں ہے،کئی حلقوں میں حیرت وخوف کاباعث بنا،اورساتھ ہی افواہوں کابازاربھی گرم ہواکہ ایران کویہ ٹیکنالوجی کسی پڑوسی ملک سے ملی ہے۔
خیبر شکن میزائل کی ہلاکت خیزی پربھی توجہ دی گئی ہے۔کہاجاتاہے کہ یہ میزائل تین مراحل میں پھٹتاہے اوراپنے ہدف کومکمل طورپرتباہ کردیتاہے۔ اسرائیلی علاقوں میں اس کے اثرات شدت سے محسوس کیے گئے ہیں۔ایران اگرچہ اپنے میزائل پروگرام کو دنیاکے سامنے فخرسے پیش کرتاہے،لیکن ان کی اصل نوعیت،قوت اوراہداف خفیہ رکھے جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں ایران نہیں بلکہ ایران کی ایران نے ان حملوں کی عسکری کے لئے
پڑھیں:
اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
سعودی وزیرِ دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کے رات گئے تحریر مختصر الفاظ پاک سعودی تعلقات کے دریا کو کوزے میں بند کردیتے ہیں، انہوں پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجی دفاعی معاہدہ سائن ہونے کے بعد اردو میں لکھا کہ ’سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں۔۔ہمیشہ اور ابد تک‘، یہی وہ جملہ ہے جس نے حالیہ اسٹریٹیجک مشترکہ دفاعی ایگریمنٹ کو محض ایک معاہدہ نہیں، بلکہ ایک تاریخی اور تہذیبی اشارہ بنا دیا ہے۔ یہ معاہدہ صرف دو ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون نہیں، بلکہ ایک مشترکہ مقدر کا اعلان ہے، ایسا عہد جو وقت کی آزمائشوں سے گزری ہوئی رفاقت پر کھڑا ہے۔
معاہدے میں یہ طے ہوا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوگا تو اسے دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا۔ گویا ایک کی سرحد پر خطرہ، دوسرے کے وجود پر بھی دستک سمجھی جائے گی۔
رائٹرز نے اس معاہدے کو دہائیوں پر محیط دفاعی تعلقات کا ادارہ جاتی تسلسل کہا ہے، اور زور دیا ہے کہ یہ محض کسی حالیہ واقعے کا ردِ عمل نہیں بلکہ طویل مشاورت اور سوچ سمجھ کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب کی یہ حکمتِ عملی بھی قابلِ غور ہے کہ وہ ایک طرف پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک گہرائی قائم کر رہا ہے، تو دوسری طرف بھارت کے ساتھ اپنے مضبوط اقتصادی تعلقات کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔
واشنگٹن پوسٹ اور ایسوسی ایٹڈ پریس نے معاہدے کے مشترکہ اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی قسم کی جارحیت دونوں ملکوں پر حملے کے مترادف ہوگی، اور یہ اقدام دفاعی تعاون کو وسعت دینے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ فائنانشل ٹائمز نے اس پیشرفت کو اس زاویے سے دیکھا کہ خلیجی ممالک اب علاقائی سطح پر اپنی سیکیورٹی کا بندوبست خود کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کسی ایک طاقت پر انحصار نہ رہے۔ سعودی عرب نے ایک سال سے زائد کی گفت وشنید کے بعد یہ خاکہ مکمل کیا اور اس دوران جوہری عدمِ پھیلاؤ کی اپنی پالیسی پر بھی زور دیا۔
بلومبرگ نے اس معاہدے کو دفاعی تعاون کی نئی سطح قرار دیا، جس میں حملہ صرف ایک ملک پر نہیں رہتا بلکہ پورے اتحاد پر حملہ بن جاتا ہے، اور اس کا جواب بھی مشترکہ ہوتا ہے۔ یہی بات پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں بھی دہرائی گئی، جہاں ریڈیو پاکستان نے اسے دو طرفہ دفاعی تعلقات کی تاریخ میں ایک سنگِ میل قرار دیا۔
روزنامہ ڈان نے اسے صفحہ اول پر نمایاں جگہ دی اور واضح کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک ایسا فریم ورک طے کیا ہے جس میں ’ایک پر حملہ، دونوں پر حملہ‘ کا اصول قانونی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ جیو نیوز کے تبصروں میں ماہرین نے اسے حیران کن نہیں بلکہ فطری ارتقا قرار دیا جو مشترکہ مشقوں اور عسکری ہم آہنگی کا حاصل ہے۔
سعودی میڈیا نے بھی اس معاہدے کو محض ایک خبر کے طور پر نہیں بلکہ ایک علامت کے طور پر پیش کیا۔ العربیہ انگلش اور سعودی پریس ایجنسی نے اس موقع کی کوریج کرتے ہوئے ریاض کے ٹاورز پر سبز وسفید روشنیوں کی جھلک دکھائی، اور سرکاری اعلامیے میں نمایاں انداز میں لکھا کہ دورے کے اختتام پر اسٹریٹیجک دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس سب کے پیچھے ایک سنجیدہ پیغام تھا کہ سعودیہ اور پاکستان اب اپنی سلامتی کی کہانی ایک مشترکہ صفحے پر لکھنے جا رہے ہیں۔
اس سب کو اگر تاریخی سیاق میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ 2015 میں جب اسلامی فوجی اتحاد قائم ہوا تو اس کا صدر دفتر ریاض میں رکھا گیا اور اس کے پہلے کمانڈر پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بنے۔ یہ عسکری رشتہ محض رسمی نہیں، عملی اور ادارہ جاتی ہے، جس کی ایک جھلک سالہا سال کی مشترکہ مشقوں مثلاً الصمصام میں دیکھی جا سکتی ہے۔
جب معاہدے کے ساتھ معاشی پہلو کو جوڑ کر دیکھا جائے تو تصویر اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ 2019 میں شہزادہ محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کے دوران 20 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری معاہدے طے پائے۔ ان میں توانائی، پیٹرو کیمیکل، معدنیات اور خوراک جیسے اہم شعبے شامل تھے۔ اس کے بعد بھی سعودی سرمایہ کاری پاکستان میں جاری رہی، 2024 میں 2 ارب ڈالر کے مزید ایم او یوز پر دستخط ہوئے، اور 3 ارب ڈالر کا ڈپازٹ مسلسل پاکستان کی مالی بنیاد کو سہارا دیتا رہا۔ ان سب اقتصادی اقدامات کو دفاعی اشتراک سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں رہا۔
پاکستانی ترسیلات زر میں بھی سعودی عرب کی حیثیت ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ صرف مارچ اور جون 2025 کے اعداد وشمار دیکھے جائیں تو سعودی عرب سے بھیجی گئی رقوم تمام ممالک سے زیادہ تھیں۔ یہ انسانی اور مالی رشتہ اب دفاعی و معاشی شراکت کو ایک سماجی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے اس معاہدے کے حساس پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا۔ فائنانشل ٹائمز نے سعودی قیادت کی جوہری عدمِ پھیلاؤ سے وابستگی کو سراہا، جب کہ رائٹرز نے اس معاہدے کو ایک جامع دفاعی خاکے کے طور پر بیان کیا۔ بلومبرگ نے اسے علاقائی سیکیورٹی کے منظرنامے میں ایک نئے عنصر کے طور پر دیکھا جس سے آئندہ کسی بحران کی صورت میں ردِعمل کا دائرہ اور رفتار دونوں بدل سکتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا نے ایک اور پہلو پر بھی زور دیا، اور وہ یہ کہ اس معاہدے کے موقع پر وزیر اعظم، ولی عہد اور آرمی چیف تینوں کی مشترکہ موجودگی نے ملک میں سیاسی اور عسکری قیادت کے یکجہتی کا پیغام دیا۔ یہ صرف ایک رسمی تصویر نہیں تھی بلکہ ایک اسٹریٹیجک اشارہ ہے کہ ریاست اپنی تمام سطحوں پر اس معاہدے کی پشت پر کھڑی ہے۔
سعودی میڈیا میں بھی یہی تاثر دیا گیا کہ یہ طویل المیعاد مشاورت کا فطری نتیجہ ہے۔ شہزادہ خالد بن سلمان کا جملہ (ہم ایک ہی صف میں ہیں) اب سفارتی بیان سے بڑھ کر عوامی سطح پر وحدت کے بیانیے میں ڈھل چکا ہے۔
اگر دیکھا جائے کہ اس معاہدے سے پاک سعودی رشتہ کیسے بدلتا ہے، تو 3 باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ دفاع اور معیشت اب ایک دوسرے کی لازم و ملزوم شرائط بنتے جا رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ عسکری ادارہ جاتی سطح پر اشتراک کو مزید منظم کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ انٹیلی جنس شیئرنگ، مشترکہ منصوبہ بندی اور انٹروپریبلٹی کے شعبے میں پیشرفت۔ تیسرا یہ کہ اس معاہدے میں ’صفر جمع‘ کا کھیل نہیں کھیلا گیا، بلکہ ریاض نے اسلام آباد کے ساتھ گہرائی بڑھاتے ہوئے بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بھی قائم رکھا ہے۔
آگے کیا ہو سکتا ہے؟ اگر دونوں ملک مشترکہ ورکنگ گروپس بنا کر عملی خاکہ ترتیب دیں، شعبہ وار تعاون کی ٹائم لائن طے کریں، اور معیشت کے بنیادی ستونوں کو اس دفاعی فریم ورک سے جوڑ دیں تو یہ معاہدہ صرف ایک اعلامیہ نہیں رہے گا بلکہ ایک قابلِ عمل حقیقت بن جائے گا۔ پاکستانی عوام کی طرف سے ہر ماہ سعودی عرب سے آنے والی ترسیلات زر اس وحدت کو زندہ رکھتی رہیں گی، اور یہ شراکت روزمرہ معیشت کا حصہ بن کر اور مضبوط ہو جائے گی۔
یہ معاہدہ درحقیقت ایک تاریخ کا اگلا باب ہے۔ ایک ایسا باب جس میں سعودیہ اور پاکستان اپنے دفاع کو ایک دوسرے کی تقدیر سے باندھ رہے ہیں۔ اور جب سعودی وزیرِ دفاع کہتے ہیں کہ ہم ایک ہی صف میں ہیں، تو یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ایک قانونی، اخلاقی اور انتظامی عہد ہے، ایسا عہد جو اب تحریر سے عمل میں ڈھلنے کو ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں