کامیاب اور دولت مند افراد کی مشترکہ عادتیں کیا ہیں؟ جانیں کامیابی کا راز
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایک عام یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص اگر امیر بننے کا خواب دیکھتا ہے تو اس کے لیے صرف خواب کافی نہیں اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے مستقل محنت، سیکھنے کی لگن اور سوچ میں وسعت درکار ہوتی ہے۔
امریکا کے مصنف تھامس کورلی نے 5 سال تک امیر اور غریب افراد کی عادات کا مطالعہ کیا، اور اس تحقیق سے یہ باتیں سامنے آئیں کہ کس طرح کروڑ پتی افراد اپنی زندگی گزار کر کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
1.
امیر لوگ صرف ایک نوکری پر انحصار نہیں کرتے۔ وہ بیک وقت 3 یا اس سے زیادہ آمدنی کے ذرائع رکھتے ہیں جیسے سائیڈ بزنس، کرایہ پر دی گئی پراپرٹی، اسٹاک مارکیٹ یا کسی پارٹنرشپ میں سرمایہ کاری۔
2. تعلیمی مواد کو ترجیح دیں، فضول اسکرین ٹائم کم کریں
امیر لوگ وقت ضائع نہیں کرتے۔ وہ ٹی وی، خاص طور پر رئیلیٹی شوز، سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ کتابیں پڑھتے ہیں، آڈیو بکس سنتے ہیں یا نئی مہارتیں سیکھنے میں وقت گزارتے ہیں۔
3. روزانہ مطالعہ کریں
کامیاب افراد روزانہ کم از کم 30 منٹ خود کو بہتر بنانے کے لیے مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ عادت ان کی سوچ، زبان اور فیصلوں میں نکھار لاتی ہے۔
4. نیند، غذا اور ورزش کو معمول بنائیں
امیر افراد صحت کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ وہ روزانہ 7 گھنٹے نیند لیتے، وقت پر جاگتے اور کم از کم 30 منٹ ورزش کرتے ہیں۔ صحت مند جسم ہی کامیاب ذہن کی بنیاد ہے۔
5. آمدنی سے کم خرچ کریں اور بچت کریں
وہ بجٹ بناتے ہیں، غیر ضروری خرچ سے گریز کرتے ہیں اور اپنی آمدنی کا کچھ حصہ سرمایہ کاری یا مستقبل کے اہداف کے لیے محفوظ رکھتے ہیں۔
6. جوئے یا لاٹری سے بچتے ہیں
امیر لوگ قسمت کے چکر میں نہیں پڑتے، بلکہ منصوبہ بندی سے پیسہ لگاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مستقل دولت محنت اور حکمت عملی سے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ لاٹری سے۔
7. مثبت اور ترقی پسند لوگوں سے میل جول رکھیں
وہ ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جو خود کامیاب ہیں یا کامیاب بننے کی جدوجہد میں ہیں۔ منفی سوچ اور شکایت کرنے والے لوگوں سے دور رہنا ان کی کامیابی کا حصہ ہے۔
یہ تمام عادات امیر بننے کا شارٹ کٹ نہیں، بلکہ ایک ایسا طرزِ زندگی ہے جو وقت کے ساتھ آپ کو کامیابی کے قریب لے جاتا ہے۔ اگر آپ بھی ان اصولوں کو اپنا لیں تو ممکن ہے آنے والے سالوں میں کامیابی اور دولت خود چل کر آپ کے دروازے پر آئے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کتابیں جھانکتی ہیں!
ایک معروف شاعر اور دانشور دوست سے ملاقات کو عرصہ ہو چلا تھا۔ گزشتہ ہفتے ان کے گھر کے قریب سے گزرا تو بلا ارادہ پیشگی اطلاع کے بغیر رک گیا۔ دروازے پر گھنٹی بجائی تو ملازم کو اطلاع دی۔ ملازم پلٹا: تشریف لائیے، صاحب بلا رہے ہیں۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد ہم حسب معمول ڈرائنگ روم کی طرف بڑھنے لگے لیکن ملازم نے بتایا: جی نہیں، صاحب بیڈ روم میں ہیں، کہہ رہے تھے آپ وہیں آ جائیں۔ بیڈروم میں داخل ہوئے تو عجیب نظارہ تھا، ہمارے دوست بیڈ پر نیم دراز کتابوں کو علیحدہ علیحدہ ڈھیروں میں تقسیم کر رہے تھے۔ ہم نے معذرت چاہی کہ ایک پیشگی اجازت لیے بغیر آ دھمکے۔ اپنے مخصوص انداز میں بولے: ارے نہیں، اچھا ہوا کہ آپ آگئے، میں دراصل بیڈ روم کی کتابوں کو اوپر لائبریری میں شفٹ کر رہا ہوں۔
ہم نے لقمہ دیتے ہوئے کہا: کمال ہے، آج آپ کو سفر کی تیاری کرنی چاہیے لیکن آپ کتابوں کی محفل سجائے بیٹھے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گفتگو کا رخ اس تلخ حقیقت کی طرف مڑ گیا کہ معروف شاعر، ادیب اور پڑھے لکھے دوست عمر بھر اپنی پسند کی کتابیں جمع کرتے ہیں، پڑھتے ہیں اور انھیں حرزجاں بنا کر رکھتے ہیں لیکن جب ان کے اپنے چل چلاؤ کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی کتابوں کے ذخیرے کے چل چلاؤ کا وقت آ جاتا ہے۔ ہمارے مرحوم دوست افتخار مجاز کے پاس کئی ایسے قصے تھے کہ انتہائی معروف مصنفین اور ادیبوں کی اگلی نسلوں میں سے بیشتر بزرگوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی سب سے پہلے ان کی کتابوں سے چھٹکارے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں اپنی رہائش گاہ کے نزدیک انھوں نے بارہا یہ مناظر دیکھے کہ معروف کتاب دوست کی تدفین کے بعد ان کی کتابیں ردی فروش گدھا گاڑی پر لادے رواں دواں تھا۔
ٹیکنالوجی کے ہمہ گیر تصرف سے قبل کتابیں پڑھے لکھے گھروں کی پہچان اور شان ہوتی تھیں۔ کتابیں صرف پڑھی نہیں جاتیں تھیں، برتی جاتی تھیں۔ زیرِ زبان آتی تھیں، زیرِ بحث آتی تھیں۔ گاہے گاہے دوستوں میں بانٹی جاتیں، نشان لگے صفحے، اقتباسات کے ساتھ یاد رکھے جاتے۔
اب یہ سب بیتے دنوں کی باتیں ہیں۔ آج کے گھروں میں جگہ مہنگی اور وقت ناپید ہے۔ گھر کی دیواروں کو تزئین کے لیے ’’وال پیپر‘‘ چاہئیں، کتابیں نہیں۔ آجکل بیشتر صورتوں میں بزرگ کی رخصتی کے ساتھ ہی گھر کے لوگ سوچ میں پڑ جاتے ہیں: ’’یہ ڈھیر ساری کتابیں کہاں رکھیں؟ کس کو دیں؟ کون پڑھے گا؟‘‘ اگر اولاد کسی حد تک کتابوں کے حق میں ہمدرد ہو تو کسی قریبی لائبریری کو دان کر آتے ہیں ورنہ، وہی ہوتا ہے جس کا ذکر مرحوم افتخار مجاز اکثر کرتے تھے۔
لائبریریوں کو کتابیں عطیہ کرنے والے اپنے تئیں مطمئن ہو جاتے ہیں کہ حق بہ حق داران رسید لیکن خود لائبریریوں پر بھی یہی افتاد گزر رہی ہے۔ سرکاری و تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کے بجٹ میں مسلسل کمی اور محکمانہ لاتعلقی پروان چڑھی ہے۔ کچھ یہی حال نجی اداروں کی لائبریریوں کا بھی ہے۔ اس پر مستزاد پڑھنے والے نایاب ہو رہے ہیں۔ لائبریری میں گھنٹوں بیٹھ کر پڑھنے والے اور کتابیں ایشو کروانے والے تیزی سے کم ہوئے ہیں۔ یوں لائبریریوں میں بھی کتابیں اپنے چاہنے والوں کے انتظار میں الماریوں سے جھانکتی رہتی ہیں۔
ایسا نہیں کہ کتاب کلچر میں کمی سے علم کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ نہیں، علم تو اب بھی موجود اور فروغ پذیر ہے تاہم علم کی ترسیل اور دستیابی کی شکلیں بدل گئی ہیں۔ اب لوگ پوڈکاسٹ سنتے ہیں، یوٹیوب پر لیکچر دیکھتے ہیں، آرٹیکل شیئر کرتے ہیں۔ کتاب کی جگہ ’’پی ڈی ایف‘‘ فائل نے لے لی ہے۔ گوگل پر سرچ کرنے والا خود کو ’’محقق‘‘ سمجھنے لگا ہے۔ ’’ریڈنگ‘‘ کا رواج ’’سکرولنگ‘‘ میں بدل گیا ہے تاہم ان بدلتے رجحانات میں نئی نسل کی کوئی خطا ہے، نہ پرانی کی کوئی غلطی۔ زمانہ بدلا ہے، رفتار بڑھ گئی ہے۔ جو کچھ اسکرین پر لمحوں میں مل جائے، اس کے لیے کون ہفتوں کتاب کی ورق گردانی کرے؟ شاید کتاب کی روایتی کہانی میں موڑ آیا ہے، کہانی بدلی ہے لیکن یقیناً ختم نہیں ہوئی۔
معروف شاعر گلزار کی ایک مشہور نظم ہے… ’’کتابیں جھانکتی ہیں۔‘‘ یہ نظم معدوم ہوتے کتاب کلچر کے ملال، باہمی دوری اور انجانی یافت کھو جانے کے دکھ کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہے:
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے،
بڑی حسرت سے تکتی ہیں،
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں،
اب اکثر، گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
جو قدر یں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ بناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
………
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے
بس اِک جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر،
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے،
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آیندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
ان کا کیا ہو گا!