وزیراعظم کو امریکی وزیرخارجہ کاٹیلی فون،اسرائیل،ایران جنگ سمیت دیگرامورپرتبادلہ خیال
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
اسلام آباد: وزیر اعظم محمد شہباز شریف کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ٹیلیفون کیا،اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں ہوئی۔ وزیر اعظم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور ان کی جرات مندانہ قیادت کی تعریف کی۔ انہوں نے خطے میں امن کے قیام میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی فعال سفارت کاری کو سراہا، جس کی بدولت پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا خطرہ ٹل گیا اور دونوں ایٹمی ریاستیں سیز فائر معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں مثبت بیانات جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور یہ امن بامعنی مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں پاکستان کی بھارت سے تمام حل طلب مسائل، بشمول جموں و کشمیر، سندھ طاس معاہدہ، تجارت اور انسداد دہشتگردی پر بات چیت کے لیے آمادگی کا اعادہ کیا۔
اس موقع پر مشرق وسطیٰ، خصوصاً ایران ،اسرائیل جنگ پر بھی تبادلہ خیال ہوا، جس پر وزیر اعظم نے زور دیا کہ اس سنگین صورتحال کا پرامن حل صرف بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موجودہ نازک صورتحال میں امن کے لیے ہر ممکن تعمیری کردار ادا کرنے کو تیار ہے، کیونکہ یہ بحران نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی تجارت پر توجہ کے پیش نظر پاکستان اور امریکا کو باہمی مفاد پر مبنی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ انہوں نے تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، معدنیات، نایاب دھاتوں اور آئی ٹی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے وزیر اعظم نے ملک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے، خصوصاً بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے عزم کا اعادہ کیاجس پر امریکی وزیر خارجہ روبیو نے پاکستان کی انسداد دہشتگردی کی کوششوں کو سراہا اور امریکا کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
وزیر اعظم نے واشنگٹن میں صدر ٹرمپ اور آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان حالیہ ملاقات کو نہایت خوشگوار اور نتیجہ خیز قرار دیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ہونے والی بات چیت کو اب عملی اقدامات میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم نے پاک امریکہ تعلقات میں مثبت پیش رفت کو برقرار رکھنے کے لیے اعلیٰ سطحی روابط میں تسلسل کی ضرورت پر زور دیا۔ اس ضمن میں انہوں نے صدر ٹرمپ کو پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت کا اعادہ کیا اور کہا کہ وہ خود بھی جلد از جلد صدر ٹرمپ سے ملاقات کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح انہوں نے وزیر خارجہ روبیو کو بھی جلد پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے پاکستان کی بھارت کے ساتھ سیز فائر معاہدے کی پاسداری اور علاقائی امن کے لیے کوششوں کو سراہا۔ اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان سے، جو ایران سے بہترین تعلقات رکھتا ہے، کہا کہ وہ ایران کے ساتھ جاری امن کوششوں میں اپنا مثبت کردار جاری رکھے۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ قریبی اشتراک سے خطے اور دنیا میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکی وزیر خارجہ کا اعادہ کیا پاکستان کے کے درمیان انہوں نے بات چیت کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
عمران خان کے کیس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی فرق ڈال سکتے ہیں، قاسم خان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 اگست2025ء)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے بیٹے قاسم خان نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسی شخصیت ہیں جو ان کے قید والد کے کیس میں فرق ڈال سکتے ہیں۔برطانوی صحافی پیئرز مورگن کے ساتھ دوران انٹرویو جب عمران خان کے بیٹے قاسم خان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا ٹرمپ کیلئے کوئی پیغام ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر کوئی فرق ڈال سکتا ہے، تو وہ (ٹرمپ) ہیں۔قاسم خان نے بتایا کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور سوشل میڈیا پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ والے رچرڈ گرینل سے بھی ملاقات کی تھی۔قاسم خان نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ہمارے والد کے درمیان اچھے تعلقات تھے، جب دونوں عہدے پر تھے تو ان کی بات چیت زبردست ہوتی تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ کوئی بیان دیں یا کسی بھی طریقے سے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں تاکہ ہمارے والد کو رہا کیا جائے، تو وہ ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جو واقعی فرق ڈال سکتے ہیں، اس لیے ہم یقیناً اٴْن سے بات کرنا چاہیں گے یا ان سے مدد یا حمایت کی امید رکھتے ہیں۔سلیمان خان نے کہا کہ انہیں اپنے والد سے آخری بار ملاقات کیے 3 سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور 4 ماہ سے ان کی عمران خان سے کوئی بات نہیں ہوئی، قاسم خان نے اس صورتحال کو انتہائی تکلیف دہ قرار دیا کیونکہ وہ پہلے اپنے والد سے باقاعدگی سے بات کرتے تھے۔قاسم خان نے کہا کہ وہ اور سلیمان عام طور پر عوامی سطح پر بات نہیں کرتے لیکن اب وہ اتنے عرصے سے اپنے والد سے رابطے میں نہ رہنے کی وجہ سے مایوس ہو چکے ہیں۔قاسم خان نے بتایا کہ جب ہم نے پاکستان جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو پاکستانی حکومت کے کچھ لوگوں نے ہمیں کہا کہ ہمیں گرفتار کر لیا جائے گا، ہمیں خاندان کے افراد، اندرونی ذرائع اور مختلف افراد کی طرف سے اسی طرح کی وارننگز ملی ہیں،اس کے باوجود ہم ویزا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم نے ویزا کے لیے درخواست دی ہوئی ہے لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔سلیمان خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر وہ پاکستان نہ بھی جا سکیں تو وہ بیرونِ ملک سے اپنے والد کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانوی حکومت سے انہوں نے ابھی تک اس معاملے پر بات نہیں کی۔انہوں نے ریاستی حکام کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے جمہوریت کا احترام کریں، پاکستانی عوام کی مرضی کا احترام کریں جو گزشتہ سال فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے باوجود واضح تھی اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے ہوئے عمران خان کو منصفانہ ٹرائل کا موقع دیں۔قاسم خان نے کہا کہ وہ دونوں پاکستان جا کر گرفتار ہونے کے لیے تیار ہیں، ہم کچھ عرصے سے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ہوگا، سو ہوگا لیکن ہم 100 فیصد ضرور جائیں گے، چاہے کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے۔