Islam Times:
2025-09-20@15:02:59 GMT

شیطان کی خام خیالی کا اختتام

اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT

شیطان کی خام خیالی کا اختتام

اسلام ٹائمز: فتح پر مبنی نیتن یاہو کے دعوے غلط ہونے کی تیسری دلیل عالم سطح پر اسرائیل کی گوشہ نشینی ہے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کا کوئی حامی نہیں رہا۔ اسرائیل نے اگر میدان جنگ میں تھوڑی بہت کامیابی حاصل بھی کی ہے تو دوسری طرف عالمی رائے عامہ کو پوری طرح گنوا دیا ہے۔ غزہ میں فوجی کاروائی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر مشتمل رہی ہے جس کے باعث بہت سے ممالک اور عالمی اداروں نے اسرائیلی حکمرانوں کے خلاف فیصلہ دیا ہے اور اس کی واضح مثال عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم کو جنگی مجرم قرار دے کر اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ادارے آنروا نے اسرائیل کی پوزیشن کمزور کر دی ہے۔ اسرائیل اپنے فیصلوں میں شدید حد تک امریکہ پر انحصار کرتا ہے۔ ایران سے جنگ بڑھانے یا ختم کرنے کا فیصلہ تل ابیب کی بجائے واشنگٹن میں کیا جاتا ہے۔ تحریر: علی احمدی
 
حال ہی میں عبری زبان میں شائع ہونے والے صیہونی اخبار ہارٹز میں ایک کالم لکھا گیا ہے جس میں ایران سے فوجی تناو اور بنجمن نیتن یاہو حکومت کی پالیسیوں کے تناظر میں اسرائیل کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کالم میں واضح طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے ایران اور درپیش دیگر چیلنجز کے مقابلے میں "فتح" کے دعوے نہ صرف زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے بلکہ اندرونی اور بیرونی سطح پر اسرائیل کی کمزوری اور انتشار کی علامت ہیں۔ کالم نگار اس بات پر زور دیتا ہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے اگر ایک حد تک "ایرو" جیسے ایئر ڈیفنس سسٹم اور امریکہ کی مدد سے روک بھی دیے جائیں تب بھی وہ ایک اسٹریٹجک پیغام کے حامل ہیں۔
 
کالم نگار کی نظر میں یہ اسٹریٹجک پیغام یہ ہے کہ: اسرائیل مزید ناقابل تسخیر علاقائی طاقت نہیں رہا اور ایران کی جانب سے اسرائیل پر براہ راست حملے طاقت کا توازن تبدیل ہو جانے کی علامت ہے۔ اس کالم میں اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو ایران سے جنگ کو "فتح" کے طور پر پیش کر رہا ہے اور مثال کے طور پر یہ تاکید کر رہا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کا پری امپٹیو حملہ یا ایران کے میزائل حملوں کے جواب میں انجام پانے والے جوابی حملے اس کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن یہ موقف صرف سیاسی، سماجی اور اسٹریٹجک میدانوں میں اسرائیل کو درپیش گہری مشکلات کو چھپانے کی ایک کوشش ہے۔ کالم نگار اپنے اس دعوے کے لیے چند دلیل پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ نیتن یاہو حکومت انتہائی سنجیدہ سیاسی چیلنجز سے روبرو ہے۔
 
حکمران اتحاد کا انحصار مذہبی شدت پسند اور دائیں بازو کی جماعتوں پر ہے اور یہ اتحاد ٹوٹنے کے قریب ہے۔ ایک اہم اور بنیادی مسئلہ حریدی یا پرو آرتھوڈوکس یہودیوں کو لازمی فوجی سروس سے مستثنی قرار دینا ہے۔ استثنی پر مبنی قانون کی مدت ختم ہو جانے کے بعد اسرائیلی فوج نے حریدی یہودیوں کو بھی حاضر سروس ہو جانے کا حکم جاری کر دیا ہے جبکہ حریدی رہنما اس کے شدید مخالف ہیں اور انہوں نے نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے استثنی پر مبنی قانون کی مدت مزید بڑھائی نہیں جاتی تو وہ حکمران اتحاد سے نکل جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہ حکمران اتحاد سے نکل جاتے ہیں تو یہ اتحاد ٹوٹ جائے گا اور نیتن یاہو حکومت بھی اکثریت سے محروم ہو جائے گی۔ لہذا نیتن یاہو اس وقت متزلزل حکمران اتحاد بچانے کے لیے ہاتھ پاوں مار رہا ہے۔
 
دوسری دلیل غزہ کی بیہودہ جنگ ہے۔ غزہ جنگ کو شروع ہوئے 600 دن ہو چکے ہیں اور اب وہ اسرائیل کے لیے ایک "دلدل" بن چکی ہے۔ نیتن یاہو کا دعوی ہے کہ غزہ جنگ کا مقصد حماس کی نابودی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حماس اب تک پوری طرح فعال ہے اور اسرائیلی فوج کے مقابلے میں چھاپہ مار کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ حماس گھات لگا کر حملوں اور سڑک کے کنارے بم نصب کرنے جیسے مختلف حربوں کے ذریعے اسرائیلی فوج کو جانی اور مالی نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس جنگ کے اہداف اور منصوبہ بندی واضح نہیں ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس کا واحد مقصد نیتن یاہو کی سیاسی بقا ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے افراد کی اکثریت جنگ بندی کی خواہاں ہے تاکہ حماس کے پاس موجود اسرائیلی یرغمالی آزاد کروائے جا سکیں لیکن نیتن یاہو ان کے اس مطالبے کو نظرانداز کرتا جا رہا ہے۔
 
فتح پر مبنی نیتن یاہو کے دعوے غلط ہونے کی تیسری دلیل عالم سطح پر اسرائیل کی گوشہ نشینی ہے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کا کوئی حامی نہیں رہا۔ اسرائیل نے اگر میدان جنگ میں تھوڑی بہت کامیابی حاصل بھی کی ہے تو دوسری طرف عالمی رائے عامہ کو پوری طرح گنوا دیا ہے۔ غزہ میں فوجی کاروائی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر مشتمل رہی ہے جس کے باعث بہت سے ممالک اور عالمی اداروں نے اسرائیلی حکمرانوں کے خلاف فیصلہ دیا ہے اور اس کی واضح مثال عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم کو جنگی مجرم قرار دے کر اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ادارے آنروا نے اسرائیل کی پوزیشن کمزور کر دی ہے۔ اسرائیل اپنے فیصلوں میں شدید حد تک امریکہ پر انحصار کرتا ہے۔ ایران سے جنگ بڑھانے یا ختم کرنے کا فیصلہ تل ابیب کی بجائے واشنگٹن میں کیا جاتا ہے۔
 
نیتن یاہو کی پالیسیاں نہ صرف اسرائیل کی قومی سلامتی کا تحفظ کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوئیں بلکہ ان کی وجہ سے اسرائیلی معاشرہ شدید انتشار اور تقسیم کا شکار ہو گیا ہے۔ اقلیتی گروہ جو کسی زمانے میں معمولی حمایت سے برخوردار تھے اس وقت دائیں بازو کی حکومت کے شدید دباو کا شکار ہیں۔ اسی طرح کسی کامیابی کے بغیر جنگ کے تسلسل نے عوام میں مایوسی پھیلا دی ہے اور وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر نیتن یاہو کے گھر کے سامنے مختلف افراد کے احتجاج سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں سے چشم پوشی کرنے کی وجہ سے عوام میں غصہ پایا جاتا ہے۔ نیتن یاہو نے دھوکہ دہی کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور وہ ایران کے جوہری پروگرام یا غزہ جنگ جیسے بیرونی خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے عوام کی توجہ اندرونی مشکلات اور بحرانوں سے ہٹانے کی کوشش میں مصروف ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی جانب سے اسرائیل سطح پر اسرائیل حکمران اتحاد نے اسرائیل اسرائیل کی نیتن یاہو ایران سے رہا ہے گیا ہے دیا ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

قطر کا اسرائیل کیخلاف عالمی فوجداری عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان

قطر نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے دوحہ میں حماس رہنماؤں پر حملے کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) میں قانونی چارہ جوئی کرے گا۔

اس بات کا اعلان قطری وزیرِ مملکت برائے خارجہ امور ڈاکٹر محمد بن عبدالعزیز الخلیفہ نے اپنے ایک بیان میں کیا۔

وزیر خارجہ نے بتایا کہ ہیگ میں آئی سی سی کی ڈپٹی پراسیکیوٹر نزہت خان سے دو ملاقاتیں کی ہیں جن میں اسرائیل کو قانونی طور پر کٹہرے میں لانے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

قطر کے وزیر خارجہ ڈاکٹر الخلیفہ نے کہا کہ قطر اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر دستیاب قانونی راستہ اختیار کرے گا۔

محمد بن عبدالعزیز الخلیفہ کا مزید کہنا تھا کہ مجرموں کو سزا دلوانے اور عالمی قوانین کے تحت جوابدہ بنانے کے لیے عالمی انصاف کے در پر دستک دی ہے۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب رواں ماہ اسرائیل نے دوحہ میں ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا جس میں حماس کی اعلیٰ قیادت غزہ جنگ بندی سے متعلق امریکی تجویز پر مشاورت کر رہے تھی۔

حماس نے تصدیق کی کہ اسرائیلی حملے میں الخلیل الحیا کے بیٹے سمیت 5 ارکان شہید ہوگئے تھے۔

دوسری جانب اسرائیلی حکام نے تصدیق کی کہ حماس رہنما الخلیل الحیا ہدف تھے جو 7 اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے کے ذمہ دار تھے۔

اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا تھا کہ نشانہ بنائے گئے حماس رہنما وہ افراد تھے جو اسرائیل میں 1,200 شہریوں کے قتل اور 251 افراد کے اغوا میں ملوث تھے۔

تاہم بعض اسرائیلی سیکیورٹی حکام نے اس حملے پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ قطر نے دو سال تک اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی اور ایک مرکزی ثالث کے طور پر سامنے آیا ہے لیکن دوحہ پر حملے کے بعد اس نے اسرائیل کے خلاف قانونی جنگ کا فیصلہ کیا۔

متعلقہ مضامین

  • صیہونی اپنے قیدیوں کو بھول جائیں، القسام کا پیغام
  • امریکی صدرٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ناراض
  • قطر کا اسرائیلی حملے پر آئی سی سی میں قانونی چارہ جوئی کا عندیہ
  • فلسطین کی آواز ہر فورم پر بلند کریں گے، ترک صدر کا اسرائیلی جارحیت پر اعلان
  • نیویارک، اقوام متحدہ کے سامنے آرتھوڈوکس یہودیوں کا نیتن یاہو کے خلاف مظاہرہ
  • امیر قطر کی والدہ اسرائیل مخالف پروپیگنڈہ مہم کی قیادت کر رہی ہیں، نتن یاہو
  • قطر پر حملہ ایک بہت بڑی غلطی تھی، صیہونی رہنما
  • قطر کا اسرائیل کیخلاف عالمی فوجداری عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان
  • متحدہ عرب امارات اسرائیل کیساتھ اپنے سفارتی تعلقات محدود کر سکتا ہے، غیر ملکی خبر ایجنسی کا دعویٰ
  • نیتن یاہو نے ٹرمپ کو قطر حملے سے پہلے آگاہ کیا یا نہیں؟ بڑا تضاد سامنے آگیا