data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن کے اندر متعددامریکی حکومتوں اوباما سے لے کر ٹرمپ، بائیڈن اور پھر ٹرمپ تک یہ شک اور بے چینی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے کہ نتن یاہو امریکااور مغرب کو ایران پر حملے کے لیے ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن آج کا امریکا نتن یاہو کے بہکانے سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ امریکا سمجھ رہا ہے کہ نتن یاہو کے بہکانے سے چپکے رہنے امریکا دنیا سے الگ تھلگ ہو جائے گااور یہ امریکا کے ٹھیک نہیں ہے

امریکا اورمغرب کو آج بھی اسرائیل یہ سمجھانے کی کو شش کررہا ہے کہ ’اسرائیل کو وہی کرنا پڑا جو اس کی بقا اور سلامتی کے لیے ضروری تھا‘ تاکہ ایران کو فوجی جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔ الٹرا آرتھوڈوکس یہودی تل ابیب میں 14 جون 2025 کو ایران کی طرف سے فائر کیے گئے میزائل کی برسات کو دیکھ کر یہ بات اجھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ اس میزائل حملے ایران اکیلا نہیں ہے اس کے ستھ چین کے ساتھ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک بھی کسی نہ کسی طرح شامل ہیں

امام خمینی کے انقلاب ایران نے پاک ایران بہتر تعلقات ختم کر دیا تھا اور بھارت وقت گزرنے کے ساتھ ایران سے بہت قریب اور اس بھی قریب نظر آتا تھاباوجود انڈیا اسرائیلی حملے کے بعد مسلسل اسرائیل بنا رہا جس نے بھارت کی عوام اور خواص کو بھی حیران کر دیا ہے

ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید فضائی جنگ کے دوران بیشتر عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا اظہار متوقع تھا لیکن بہت سارے غیر مسلم ممالک بھی ایران کی مخالفت کی قطار سے الگ نظر آئے ،خاص طور سے انڈیا کی سوا ارب آبادی کو، جو اب تک ایران اور انڈیا کے درمیان گہرے روابط کا دم بھرتی تھی اور توقع کر رہی تھی کہ اسرائیلی جارحیت کی کم از کم مذمت کرے گا۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایران بھی اب سمجھ رہا ہو گا کہ “جنوبی ایشا میں اس کا دوست کون ہے
عوامی حلقوں اور اپوزیشن کو اْس وقت مزید حیرانی ہوئی جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور شنگھائی تعاون تنظیم نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی اپیل اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی، مگر انڈیا نے خود کو ان بیانات سے دور رکھا۔

کیا یہ سوچ محض ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہے یا پھر انڈیا کی مغربی ایشیا سے متعلق سفارتی سمت تبدیل ہو گئی ہے؟
اس سوال کے پس منظر میں بھارت کی بعض اپوزیشن جماعتوں نے سرکار کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اور فلسطینی ریاست کے فوری تسلیم کرنے کی حمایت میں بیانات جاری کیے جن میں کانگریس، بائیں بازو کی جماعتیں اور جنوبی بھارت کے دو وزرائے اعلیٰ شامل ہیں۔
اس وضاحت کے مطابق،2025 ۔ 2024ء کے دوران ایران کی جغرافیائی و سیاسی حیثیت میں نمایاں کمزوری پیدا ہوئی — جس میں حزب اللہ (جو کہ ایران کا قیمتی علاقائی حلیف ہے) کو عسکری لحاظ سے کمزور کیا گیا، شام میں اسد حکومت کا زوال آیا، اور اکتوبر 2024 میں تہران کے فضائی دفاعی نظام پر کامیاب اسرائیلی حملے کیے گئے — اور ان تمام عوامل نے اسرائیل کے لیے ایک موقع پیدا کیا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو پیچھے ڈ ھکیل سکے۔
یقیناً، یہ نکتہ نظر اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے کہ ایران نے قابلِ ذکر پیش رفت کی، اپنی یورینیم افزودگی کی صلاحیتوں کو بہتر اور جدید بنایا، اور 60 فیصد افزودہ یورینیم کے 300 کلوگرام سے زائد کا ذخیرہ جمع کیا۔ (فوجی معیار کے لیے 90 فیصد افزودگی درکار ہوتی ہے، لیکن 60 سے 90 فیصد تک کا فاصلہ زیادہ طویل نہیں ہوتا۔یہ سب کچھ ڈونلڈ ٹرمپ کے 2018 میں کیے گئے اس فیصلے کا براہ راست نتیجہ تھا — جس میں انہوں نے، نتن یاہو کی شدید ترغیب پر، یکطرفہ طور پر 2015 ء کے جوہری معاہدے مشترکہ جامع منصوبہ عمل سے امریکاکو نکال لیا تھا۔ نتن یاہو نے 2015 میں کہا تھا کہ ’اس سے بہتر معاہدہ‘ ممکن ہے — مگر خود کبھی ایسا کوئی معاہدہ پیش نہیں کیا۔

پھر 2018 میں انہوں نے ٹرمپ کو یہ سمجھایا کہ اگر ایران پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں لگائی جائیں تو وہ ایسی کسی ’بہتر ڈیل‘ پر آمادہ ہو جائے گا۔ مگر حقیقت میں اس کے برعکس ہوا۔دوسری تشریح نتن یاہو کے ایران سے متعلق ایک غیر متوازن، نجات دہندہ جیسے نظریے اور سات اکتوبر 2023 کے بعد اپنے بارے میں بننے والے تصور سے جڑی ہے۔
ایران نہ صرف یہودی تہذیب کے لیے خطر نہیں، بلکہ مغربی دنیا کے لیے بھی — اور یہی تصور نتن یاہو کو صرف اسرائیل کا محافظ نہیں بناتا، بلکہ سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد اْن کی ساکھ میں جو وقتی اضافہ ہوا ۔ اْسے مغرب کا نجات دہندہ بھی بناتا ہے۔ نتن یاہو کا یقین ہے کہ تاریخ میں ان کا یہی کردار یاد رکھا جانا چاہیے۔یہ حقیقت کہ انہوں نے ’ایرانی خطرے کو اسرائیلی رنگ دے دیا‘ آسانی سے نظرانداز کر دی جاتی ہے۔

تہران امریکا کو اس حملے میں شریک سمجھتا ہے، اگرچہ امریکہ نے اس کی تردید کی ہے اور اسے اسرائیل کی یکطرفہ کارروائی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ ایران اس بیانیے کو تسلیم کرے۔اول، اسے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ وہ ایسی جنگ میں نہ الجھے جس میں امریکہ کا کوئی حقیقی مفاد نہیں — باوجود اس کے کہ ٹرمپ نے تہران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کو ’شاندار‘ قرار دیا اور خبردار کیا کہ ’ابھی مزید ہوں گے۔‘

یہ حالیہ حملہ ان خدشات کو کم کرنے میں بالکل ناکام رہا، اگرچہ ٹرمپ نے وال ا سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ انہیں اور ان کی ٹیم کو اسرائیل کے ایران پر حملے کے منصوبے کا علم تھا۔یہ دعویٰ صرف ایک دن بعد سامنے آیا جب انہوں نے عوامی طور پر اسرائیل کو حملے سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا۔
اس معاملے میں امریکہ کے کردار سے متعلق بہت سی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئیں، لیکن مقبوضہ بیت المقدس اور واشنگٹن کے درمیان بیانیوں کی جنگ پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔اگرچہ ٹرمپ نے حملے کے منصوبے سے پہلے سے آگاہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے، مگر اطلاعات کے مطابق امریکا اندرونی طور پر نتن یاہو کی ہٹ دھرمی اور امریکی مفادات کو سرد مہری سے نظر انداز کیے جانے پر ناخوش ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ وقتی طور پر خوش ہو سکتے ہیں کہ ایران پر توجہ مبذول ہونے سے لاس اینجلس سے توجہ ہٹی، لیکن نتن یاہو کی طرف سے ان کے مطالبات کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جانا انہیں ذلت آمیز بھی محسوس ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کہ ایران انہوں نے نتن یاہو ایران پر حملے کے اور اس کے لیے

پڑھیں:

فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پیرس: فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق میکرون نے کہا کہ یورپی طاقتوں کی مذاکراتی کوششوں کو ایران نے سنجیدگی سے نہیں لیا، اسی لیے رواں ماہ کے آخر تک پابندیاں بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق میکرون نے واضح کیا کہ ایران کی حالیہ تجاویز قابلِ عمل نہیں ہیں،ایران پر دوبارہ سے  پابندیاں بحال ہو جائیں گی کیونکہ ایران نے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔

خیال رہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی (ای 3) نے اگست کے آخر میں 30 روزہ مذاکراتی عمل شروع کیا تھا۔ یورپی ممالک کی جانب سے ایران کو پیشکش کی گئی تھی کہ اگر وہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو دوبارہ رسائی فراہم کرے، افزودہ یورینیم کی تفصیلات سامنے لائے اور امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تو پابندیوں کے عمل کو مؤخر کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہےکہ  ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نےکہا تھا کہ تہران نے یورپی یونین اور ای 3 کو ایک “عملی منصوبہ” فراہم کیا ہے تاکہ بحران سے بچا جا سکے، یورپی سفارت کاروں کے مطابق اس منصوبے پر کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی۔

علاوہ ازیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد بھی پیش ہوئی تھی جس کے تحت ایران پر عائد پابندیاں مستقل طور پر ختم کی جا سکتی تھیں لیکن امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس اس قرارداد کو ویٹو کر دیں گے۔

یاد رہے کہ رواں سال جون میں امریکا اور اسرائیل نے ایران کے یورینیم افزودگی پلانٹس پر حملے کیے تھے اور الزام لگایا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب ہے، حالانکہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی نے واضح کیا تھا کہ اس دعوے کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔

بعد ازاں صورتحال میں تبدیلی آئی اور امریکا نے ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ واشنگٹن کے اس فیصلے کو بعض حلقوں نے خطے میں تناؤ کم کرنے کی کوشش قرار دیا، جبکہ ناقدین کے مطابق یہ اقدام مغربی پالیسیوں میں تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔

امریکی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ایران نے پابندیوں کے خاتمے کو “درست اور مثبت قدم قرار دیا، امریکا نے بالآخر حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ دباؤ اور پابندیوں کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔

ایرانی حکام نے کہا کہ وہ اب بھی مذاکرات اور تعاون کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ مغربی ممالک سنجیدگی دکھائیں۔

متعلقہ مضامین

  • صیہونی اپنے قیدیوں کو بھول جائیں، القسام کا پیغام
  • امریکا اسرائیل کو 6 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرے گا
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹک ٹاک معاہدے کا اعلان، کونسی امریکی کمپنیاں ٹک ٹاک خرید سکتی ہیں؟
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے مضمرات
  • فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان
  • امریکا نے بھارت کا چاہ بہار منصوبہ مشکل میں ڈال دیا، چاہ بہار استثنیٰ ختم
  • چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
  • نیتن یاہو نے ٹرمپ کو قطر حملے سے پہلے آگاہ کیا یا نہیں؟ بڑا تضاد سامنے آگیا
  • دوحہ کانفرنس اور فیصلے
  • لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے