اوباما ، ٹرمپ، بائیڈن اور پھر ٹرمپ تک نتن یاہو امریکا، مغرب کو ایران پر حملے کے لیے ورغلا رہاہے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن کے اندر متعددامریکی حکومتوں اوباما سے لے کر ٹرمپ، بائیڈن اور پھر ٹرمپ تک یہ شک اور بے چینی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے کہ نتن یاہو امریکااور مغرب کو ایران پر حملے کے لیے ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن آج کا امریکا نتن یاہو کے بہکانے سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ امریکا سمجھ رہا ہے کہ نتن یاہو کے بہکانے سے چپکے رہنے امریکا دنیا سے الگ تھلگ ہو جائے گااور یہ امریکا کے ٹھیک نہیں ہے
امریکا اورمغرب کو آج بھی اسرائیل یہ سمجھانے کی کو شش کررہا ہے کہ ’اسرائیل کو وہی کرنا پڑا جو اس کی بقا اور سلامتی کے لیے ضروری تھا‘ تاکہ ایران کو فوجی جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔ الٹرا آرتھوڈوکس یہودی تل ابیب میں 14 جون 2025 کو ایران کی طرف سے فائر کیے گئے میزائل کی برسات کو دیکھ کر یہ بات اجھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ اس میزائل حملے ایران اکیلا نہیں ہے اس کے ستھ چین کے ساتھ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک بھی کسی نہ کسی طرح شامل ہیں
امام خمینی کے انقلاب ایران نے پاک ایران بہتر تعلقات ختم کر دیا تھا اور بھارت وقت گزرنے کے ساتھ ایران سے بہت قریب اور اس بھی قریب نظر آتا تھاباوجود انڈیا اسرائیلی حملے کے بعد مسلسل اسرائیل بنا رہا جس نے بھارت کی عوام اور خواص کو بھی حیران کر دیا ہے
ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید فضائی جنگ کے دوران بیشتر عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا اظہار متوقع تھا لیکن بہت سارے غیر مسلم ممالک بھی ایران کی مخالفت کی قطار سے الگ نظر آئے ،خاص طور سے انڈیا کی سوا ارب آبادی کو، جو اب تک ایران اور انڈیا کے درمیان گہرے روابط کا دم بھرتی تھی اور توقع کر رہی تھی کہ اسرائیلی جارحیت کی کم از کم مذمت کرے گا۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایران بھی اب سمجھ رہا ہو گا کہ “جنوبی ایشا میں اس کا دوست کون ہے
عوامی حلقوں اور اپوزیشن کو اْس وقت مزید حیرانی ہوئی جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور شنگھائی تعاون تنظیم نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی اپیل اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی، مگر انڈیا نے خود کو ان بیانات سے دور رکھا۔
کیا یہ سوچ محض ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہے یا پھر انڈیا کی مغربی ایشیا سے متعلق سفارتی سمت تبدیل ہو گئی ہے؟
اس سوال کے پس منظر میں بھارت کی بعض اپوزیشن جماعتوں نے سرکار کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اور فلسطینی ریاست کے فوری تسلیم کرنے کی حمایت میں بیانات جاری کیے جن میں کانگریس، بائیں بازو کی جماعتیں اور جنوبی بھارت کے دو وزرائے اعلیٰ شامل ہیں۔
اس وضاحت کے مطابق،2025 ۔ 2024ء کے دوران ایران کی جغرافیائی و سیاسی حیثیت میں نمایاں کمزوری پیدا ہوئی — جس میں حزب اللہ (جو کہ ایران کا قیمتی علاقائی حلیف ہے) کو عسکری لحاظ سے کمزور کیا گیا، شام میں اسد حکومت کا زوال آیا، اور اکتوبر 2024 میں تہران کے فضائی دفاعی نظام پر کامیاب اسرائیلی حملے کیے گئے — اور ان تمام عوامل نے اسرائیل کے لیے ایک موقع پیدا کیا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو پیچھے ڈ ھکیل سکے۔
یقیناً، یہ نکتہ نظر اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے کہ ایران نے قابلِ ذکر پیش رفت کی، اپنی یورینیم افزودگی کی صلاحیتوں کو بہتر اور جدید بنایا، اور 60 فیصد افزودہ یورینیم کے 300 کلوگرام سے زائد کا ذخیرہ جمع کیا۔ (فوجی معیار کے لیے 90 فیصد افزودگی درکار ہوتی ہے، لیکن 60 سے 90 فیصد تک کا فاصلہ زیادہ طویل نہیں ہوتا۔یہ سب کچھ ڈونلڈ ٹرمپ کے 2018 میں کیے گئے اس فیصلے کا براہ راست نتیجہ تھا — جس میں انہوں نے، نتن یاہو کی شدید ترغیب پر، یکطرفہ طور پر 2015 ء کے جوہری معاہدے مشترکہ جامع منصوبہ عمل سے امریکاکو نکال لیا تھا۔ نتن یاہو نے 2015 میں کہا تھا کہ ’اس سے بہتر معاہدہ‘ ممکن ہے — مگر خود کبھی ایسا کوئی معاہدہ پیش نہیں کیا۔
پھر 2018 میں انہوں نے ٹرمپ کو یہ سمجھایا کہ اگر ایران پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں لگائی جائیں تو وہ ایسی کسی ’بہتر ڈیل‘ پر آمادہ ہو جائے گا۔ مگر حقیقت میں اس کے برعکس ہوا۔دوسری تشریح نتن یاہو کے ایران سے متعلق ایک غیر متوازن، نجات دہندہ جیسے نظریے اور سات اکتوبر 2023 کے بعد اپنے بارے میں بننے والے تصور سے جڑی ہے۔
ایران نہ صرف یہودی تہذیب کے لیے خطر نہیں، بلکہ مغربی دنیا کے لیے بھی — اور یہی تصور نتن یاہو کو صرف اسرائیل کا محافظ نہیں بناتا، بلکہ سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد اْن کی ساکھ میں جو وقتی اضافہ ہوا ۔ اْسے مغرب کا نجات دہندہ بھی بناتا ہے۔ نتن یاہو کا یقین ہے کہ تاریخ میں ان کا یہی کردار یاد رکھا جانا چاہیے۔یہ حقیقت کہ انہوں نے ’ایرانی خطرے کو اسرائیلی رنگ دے دیا‘ آسانی سے نظرانداز کر دی جاتی ہے۔
تہران امریکا کو اس حملے میں شریک سمجھتا ہے، اگرچہ امریکہ نے اس کی تردید کی ہے اور اسے اسرائیل کی یکطرفہ کارروائی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ ایران اس بیانیے کو تسلیم کرے۔اول، اسے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ وہ ایسی جنگ میں نہ الجھے جس میں امریکہ کا کوئی حقیقی مفاد نہیں — باوجود اس کے کہ ٹرمپ نے تہران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کو ’شاندار‘ قرار دیا اور خبردار کیا کہ ’ابھی مزید ہوں گے۔‘
یہ حالیہ حملہ ان خدشات کو کم کرنے میں بالکل ناکام رہا، اگرچہ ٹرمپ نے وال ا سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ انہیں اور ان کی ٹیم کو اسرائیل کے ایران پر حملے کے منصوبے کا علم تھا۔یہ دعویٰ صرف ایک دن بعد سامنے آیا جب انہوں نے عوامی طور پر اسرائیل کو حملے سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا۔
اس معاملے میں امریکہ کے کردار سے متعلق بہت سی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئیں، لیکن مقبوضہ بیت المقدس اور واشنگٹن کے درمیان بیانیوں کی جنگ پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔اگرچہ ٹرمپ نے حملے کے منصوبے سے پہلے سے آگاہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے، مگر اطلاعات کے مطابق امریکا اندرونی طور پر نتن یاہو کی ہٹ دھرمی اور امریکی مفادات کو سرد مہری سے نظر انداز کیے جانے پر ناخوش ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ وقتی طور پر خوش ہو سکتے ہیں کہ ایران پر توجہ مبذول ہونے سے لاس اینجلس سے توجہ ہٹی، لیکن نتن یاہو کی طرف سے ان کے مطالبات کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جانا انہیں ذلت آمیز بھی محسوس ہو سکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہ ایران انہوں نے نتن یاہو ایران پر حملے کے اور اس کے لیے
پڑھیں:
ایران پر ممکنہ فوجی حملے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں، سینئر امریکی حکام
اعلیٰ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایران پر حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں جو آنے والے دنوں میں ممکن ہے۔
یہ خبر امریکی میڈیا ادارے ’بلومبرگ‘نے بدھ کے روز شائع کی جس نے یہ رپورٹ صورت حال سے باخبر امریکی حکام سے گفتگو کی بنیاد پرتیار کی۔ نیوز رپورٹ کے مطابق، سینئر امریکی حکام آئندہ چند دنوں میں ایران پر ممکنہ فوجی حملے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔
یہ اطلاعات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے اور اسرائیل پہلے ہی خطے میں بڑے پیمانے پر حملوں میں مصروف ہے۔
بلومبرگ کے مطابق، بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ اس ہفتے کے اختتام پر ایران پر حملہ کیا جاسکتا ہے تاہم صورتحال میں اب بھی کسی بھی انداز کی تبدیلی ہوسکتی ہے کیونکہ بدھ کے روز صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مبہم بات کی جس سے اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایران کے خلاف اسرائیلی جنگ میں شریک ہوں گے یا نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا ’ہوسکتا ہے کہ میں حملہ کرنے کا حکم دوں، ہوسکتا ہے کہ میں ایسا کوئی حکم نہ دوں۔ میرا مطلب ہے کہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں۔‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا اکثر حملہ کی تیاری کی خبریں جاری کرکے سفارتی دباؤ بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ پہلے بھی اس حکمتِ عملی پر کئی بار عمل کرچکا ہے خاص طور پر ایران جیسے ممالک کے خلاف، جنہیں امریکا جوہری خطرہ قرار دیتا ہے۔
ٹرمپ کا غیر واضح مؤقف — ایک پرانی تکنیکٹرمپ کی یہ روش پرانی ہے کہ وہ اپنے فیصلہ کے بارے میں صورت حال کو غیر واضح رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ میڈیا، اتحادیوں اور مخالفین پر ذہنی دباؤ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف، اگر صورتحال خطرناک شکل اختیار کرجائے، تو وہ یہ کہہ کر پتلی گلی سے نکل سکتے ہیں کہ میں نے تو کبھی فیصلہ کیا ہی نہیں تھا۔
ممکنہ امریکی حملے کے خلاف ایران کی تیاری اور پیغامایران پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اگر امریکا براہِ راست جنگ میں شامل ہوا تو عراق، شام، خلیج کے امریکی اڈے نشانے پر ہوں گے۔ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ امریکا جنگ میں کودا تو آبنائے ہرمز کی بندش، حوثیوں کی بحری کارروائیاں، اور علاقائی عدم استحکام یقینی ہو گا۔
خلیجی ریاستیں سب خطرے میں ہوں گی۔ عالمی تیل منڈی اور توانائی کی ترسیل پر شدید اثر پڑے گا۔ اسرائیل پر ایران اور اس کے اتحادیوں کے حملے بڑھ سکتے ہیں، خاص طور پر شمالی محاذ سے حزب اللہ کے ذریعے۔
کیا یہ جنگ ہو گی؟امریکا کے براہ راست جنگ میں شریک ہونے کا امکان ضرور ہے، تاہم یقینی نہیں۔ کیونکہ دونوں فریق بخوبی جانتے ہیں کہ ایک مکمل جنگ معاشی، سیاسی اور انسانی سطح پر تباہ کن ہو گی۔ امریکا کی طرف سے حملے کی خبریں لیک کرنا شاید ایران کو ’دباؤ‘ میں لانے کی کوشش ہے تاکہ وہ دفاعی پوزیشن اختیار کرے یا پیچھے ہٹے۔
اگر امریکا نے ایران پر براہ راست حملہ کیا تو یہ صرف ایران امریکا کا تنازعہ نہیں رہے گا بلکہ یہ پورے مشرق وسطیٰ کو لپیٹ میں لے لے گا، جس کے اثرات عالمی معیشت، سیکیورٹی، اور سیاسی نظام پر پڑیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایران اسرائیل جنگ بلومبرگ ڈونلڈ ٹرمپ