data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلا م آباد(نمائندہ جسارت)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے انکم ٹیکس میں رد و بدل کی تجاویز منظور کرلیں۔یہ منظوری چیئرمین سید نوید قمر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں دی گئی، جس میں بجٹ 2024-25کے تحت انکم ٹیکس سے متعلق شق وار تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔کمیٹی نے اس بات کی منظوری دی کہ 6لاکھ سے 12لاکھ روپے سالانہ آمدن رکھنے والے افراد پر انکم ٹیکس کی شرح کو موجودہ 2.

5 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر دیا جائے۔یہ قدم حکومت کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد مہنگائی سے متاثرہ تنخواہ دار طبقے کو سہولت فراہم کرنا ہے۔اجلاس میں کارپوریٹ سیکٹر پر عائد سپر ٹیکس میں 0.5فیصد کمی کی تجویز بھی منظور کی گئی۔وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تجویز پیش کی تھی کہ 6سے 12لاکھ روپے سالانہ آمدن والوں پر انکم ٹیکس کی شرح کو 5فیصد سے کم کر کے 2.5فیصد کیا جائے، جب کہ کمیٹی نے اس شرح کو مزید کم کر کے ایک فیصد کرنے کی سفارش منظور کی ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کی منظوری کے بعد اب توقع ہے کہ یہ ترامیم آئندہ بجٹ میں شامل ہوں گی اور اس کا براہ راست فائدہ تنخواہ دار طبقے اور کاروباری اداروں کو حاصل ہوگا۔دوسری جانب سینیٹ نے آئندہ مالی سال 2025-26 کے فنانس بل کیلئے سفارشات کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی ہے۔ سینیٹ سے 204 سفارشات قومی اسمبلی کو بھجوا دی گئی ہیں۔ سینیٹ نے سفارش کی ہے کہ 6 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہئے۔ سولر پینلز پر 18 فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ واپس لیا جانا چاہیے۔ ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کیا جائے اور مزید ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جانے چاہئیں۔ قومی اداروں کی نجکاری فوری طور پر روک دینی چاہئے۔ زرعی شعبے کی ترقی کیلئے چھوٹے کاشتکاروں کو مناسب سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ ناکافی ہے، تنخواہوں میں50 فیصد تک اضافہ ہونا چاہیے۔ کنسٹرکشن کنٹریکٹرز کو ودہولڈنگ ایجنٹس شمار نہ کیا جائے، اسٹیل کے شعبے کو ٹیرف ریفارمز اسکیم سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ جوس انڈسٹری پر عائد کی جانے والی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں15 فیصد تک کمی ہونی چاہیے۔ ہومیو پیتھک ادویات پر سیلز ٹیکس18فیصد کے بجائے ایک فیصد ہونا چاہیے، کم از کم اجرت 37 ہزار روپے کے بجائے50 ہزار روپے کی جانی چاہیے،850 سی سی اور اس کے نیچے کی گاڑیوں پر مجوزہ ٹیکس18 فیصد کے بجائے10 فیصد عائد کیا جانا چاہیے۔ خصوصی ورکرز کو ماہانہ کنوئنس الاؤنس6 ہزار کے بجائے10 ہزار دیا جانا چاہیے۔ جی ایس ٹی کسٹم ڈیوٹی اور ایکسائز ٹیکس جیسے بالواسطہ ٹیکسوں میں50 فیصد کمی کر کے بلواسطہ ٹیکسوں کی طرف جانا چاہیے۔ مقامی اور بین الاقوامی جاب مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق ملک بھر میں فنی اور پیشہ وارانہ تربیت کے پروگرام شروع کئے جانے چاہئیں۔ پچاس لاکھ سے زائد آمدنی پر سالانہ کم از کم 10 فیصد زرعی ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے۔ 200 یونٹ تک کے بجلی بلوں پر سرکلر ڈیٹ سرچارج عائد نہ کیا جائے۔ کارپوریشنز، رئیل اسٹیٹ اور بڑے زمینداروں سمیت اشرافیہ کو دیئے جانے والے ٹیکس استثنیٰ کو ختم کیا جائے۔ حکومت آئی پی پیز کی کپیسٹی پیمنٹس کو موخر کرے اور ان میں کمی کیلئے مذاکرات کئے جائیں۔ آٹے، دالوں اور ادویات جیسی تمام ضروری اشیا پر جی ایس ٹی ختم ہونا چاہئے۔ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کیلئے بڑے زمینداروں، رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز اور سٹاک مارکیٹ کے بروکرز پر ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد کی بجائے 20 فیصد اضافہ کیا جانا چاہئے۔ بلوچستان میں جدید ہسپتالوں کی تعمیر کیلئے خصوصی گرانٹس کی منظوری دی جانی چاہئے۔ ای او بی آئی کی پنشن 11500 روپے سے بڑھا کر 23000 ہزار روپے ماہانہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ فیملی پنشن تاحیات ہونی چاہئے، تمام سرکاری ملازمین کے میڈیکل الائونس میں 200 فیصد تک اضافہ ہونا چاہئے۔ رولز کے مطابق استعمال شدہ اور پرانی گاڑیوں کی درآمد پر سہولت دی جانی چاہئے۔ مقامی طور پر تیار ہونے والے درآمدی ٹریکٹرز پر سیلز ٹیکس کی شرح 5 فیصد تک کم کی جائے تاکہ کاشتکار باآسانی ٹریکٹرز خرید سکیں۔ تنخواہ پر بنیادی استثنیٰ 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے تک ہونا چاہئے اور انکم ٹیکس 12 لاکھ سے اوپر آمدنی پر وصول کیا جانا چاہئے۔ غیر متوقع اخراجات سے نمٹنے کیلئے ایمرجنسی فنڈ کا قیام عمل میں لایا جانا چاہئے۔ ہائیر ایجوکیشن ڈویژن کے اداروں کیلئے فنڈز کی تخصیص 4 ہزار 870 ملین روپے تک بحال کی جانی چاہئے۔ پی ڈبلیو ڈی کی اسکیمیں دیگر تین صوبوں کی طرح حکومت سندھ کو بھی منتقل ہونی چاہئیں۔ سرکاری ملازمین کے تمام ایڈہاک الائونسز بنیادی تنخواہ میں ضم ہونے چاہئیں۔ ڈیموں کی تعمیر کیلئے مختص فنڈز میں اضافہ ہونا چاہئے تاکہ ان کو بروقت مکمل کیا جا سکے۔ کلائمیٹ ایڈپشن کیلئے ترقیاتی فنڈز میں 10 فیصد تک اضافہ ہونا چاہئے۔ رئیل اسٹیٹ ٹرانزیکشن پر کیپٹل گین ٹیکس بحال کیا جانا چاہئے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے سفارشات پر کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جسے منظور کر لیا گیا اور یہ سفارشات فنانس بل کا حصہ بنانے کیلئے قومی اسمبلی کو بھجوا دی گئیں۔ سینیٹ کے ارکان کی مجوزہ ترقیاتی اسکیمیں بھی 2025-26 کے پی ایس ڈی پی کا حصہ بنائی جائیں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے سرکاری ملازمین کیا جانا چاہئے قائمہ کمیٹی قومی اسمبلی جانا چاہیے ہونا چاہئے اضافہ ہونا انکم ٹیکس لاکھ روپے کیا جائے عائد کی فیصد تک

پڑھیں:

سندھ حکومت کی تعلیمی بورڈز کے اختیارات محدود کرنے کی تیاری؛ اسٹیئرنگ کمیٹی کا ڈھانچہ منظور

کراچی:

سندھ حکومت نے تعلیمی بورڈز کے اختیارات محدود کرنے کی تیاری کرلی، اسٹیئرنگ کمیٹی کا ڈھانچہ منظور کرلیا گیا ساتھ ہی بی او جی کا ڈھانچہ بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ حکومت نے صوبے کے تعلیمی بورڈز کی خود مختار حیثیت کو محدود کرنے کی تیاری کرلی جس کے لیے بورڈز کے اوپر اسٹیئرنگ کمیٹی کا ڈھانچہ منظور کرلیا گیا ہے۔

یہ کمیٹی سندھ کے تمام سرکاری تعلیمی بورڈز کی سپرویژن کرے گی اور انھیں کنٹرول کرے گی تاہم اس کی تشکیل ابھی باقی ہے جبکہ تمام تعلیمی بورڈز کے "بورڈز آف گورنرز" کے ڈھانچے کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے اور تمام چیئرمین بورڈز کی جگہ "اکیڈمیشنز، ممبر سول سوسائٹی اور میل/فیمیل پرنسپلز کو بورڈز کو گورنرز میں شامل کیا جارہا ہے۔ قبل ازیں تمام بورڈز کے چیئرمینز ہر بورڈز کی "بی او جی" کے رکن ہوتے تھے۔

اس سلسلے میں سندھ اسمبلی سے باقاعدہ 1972ء کے بورڈ ایکٹ میں ترمیم کراتے ہوئے نیا ترمیمی ایکٹ منظور کرلیا گیا ہے اور جون میں قائم مقام گورنر سے ایکٹ پر دستخط بھی کرالیے گئے ہیں اس لیے اب یہ ایکٹ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔ " اس سلسلے کے پہلے مرحلے میں تمام تعلیمی بورڈز میں نئی بی او جی کی تشکیل شروع کردی گئی ہے۔

ادھر صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کا عہدہ گریڈ 20/21 کے بجائے گریڈ 19/20 کیا جارہا ہے اس معاملے کو ایک روز بعد ہونے والے سندھ کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا جارہا ہے۔

اجلاس کے ایجنڈے کے ورکنگ پیپر کے مطابق تقرر کیے گئے چیئرمین کی مدت ملازمت 3 سال ہوگی تاہم اس میں 2 سال کی مزید توسیع ہوسکے گی۔

’’ایکسپریس‘‘ کو اس حوالے سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق بورڈز کی supervision اور انھیں کنٹرول کرنے کے لیے ایک اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے کمیٹی کا چیئرپرسن کنٹرولنگ اتھارٹی وزیر اعلی سندھ کی جانب سے مقرر ہوگا جو کوئی صوبائی وزیر ہوسکتا ہے جبکہ سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کمیٹی کا وائس چیئرپرسن ہوگا۔

دیگر اراکین میں سیکریٹری کالج ایجوکیشن، سیکریٹری اسکول ایجوکیشن، اسپیشل سیکریٹری فنانس، تمام ایجوکیشن بورڈز کے چیئرمینز، چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، ڈائریکٹر جنرل پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز اسکول/کالج، ایس اینڈ جی اے ڈی کا نمائندہ، نمائندہ آئی بی سی سی، ایجوکیشن پالیسی ایکسپرٹ، ٹیکنیکل ایجوکیشن ایکسپرٹ، (جسے کنٹرولنگ اتھارٹی مقرر کرے گی) وزیر اعلی کی جانب سے نامزد دو ممتاز ماہرین تعلیم اور دو اراکین اسمبلی اسٹیئرنگ کمیٹی کے رکن ہوں گے۔

ایکس آفیشل اراکین کی مدت دو سال ہوگی، function of steering committee کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ کمیٹی بورڈز کے معاملات کی ویجی لینس کے ساتھ ساتھ ان کی فعالیت میں مختلف ہدایت دینے کی بھی مجاز ہوگی۔

علاوہ ازیں تعلیمی بورڈز کے بورڈز آف گورنرز کے ڈھانچے کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے اب تمام چیئرمین بورڈز اس کے رکن نہیں ہوں گے بلکہ کسی بھی بورڈ کا صرف ایک چیئرمین دوسرے بورڈ کا رکن ہوسکے گا۔

ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن سیکنڈری اور ڈائریکٹر کالجز ایجوکیشن، سول سوسائٹی سے ایک نمائندہ، ایک ہیڈماسٹر/پرنسپل اور ایک ہیڈ مسٹریس/پرنسپل کنٹرولنگ اتھارٹی کی جانب سے نامزد ہونگے متعلقہ ڈویژن کا ایک ایڈیشنل کمشنر اور محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کا ایک نمائندہ بی او جی کا رکن ہوگا۔

دریں اثنا یہ بھی جارہا ہے کہ بورڈز میں گریڈ 17 سے اوپر کی ٹرانسفر/ پوسٹنگ کے اختیارات بھی چیئرمین بورڈ سے لیے جارہے ہیں۔

یاد رہے کہ آج سے کچھ سال قبل بھی تعلیمی بورڈز کے اختیارات محدود کرنے کے لئے ان کے اوپر ایک کمیشن بنانے کی کوشش کی گئی تھی جس پر سندھ بھر کے تعلیمی بورڈز کے ملازمین کی جانب سے ہڑتال کرتے ہوئے امتحانی عمل کا بائیکاٹ کا اعلان کردیا گیا تھا جس کے بعد کمیشن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا لیکن اس بار سندھ حکومت نے غیرمحسوس انداز میں ایکٹ کے ذریعے کمیشن کا ڈھانچہ منظور کرالیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کسی بھی شہر جانا ہو، کرایہ صرف 20 روپے؟ بڑا اعلان ہوگیا
  • گزشتہ مالی سال حکومتی آمدنی 9 ہزار 946 ارب، اخراجات 17 ہزار ارب روپے رہے، وزارت خزانہ
  • قومی اسمبلی نے غزہ کے عوام سے اظہار یکجہتی کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی
  • قومی اسمبلی؛ عورت کو سرعام برہنہ کرنے، ہائی جیکر کو پناہ دینے پر سزائے موت ختم، بل منظور
  • جینرک ادویات کے فروغ سے اربوں کی بچت ممکن ہے . ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل
  • سندھ حکومت کی تعلیمی بورڈز کے اختیارات محدود کرنے کی تیاری؛ اسٹیئرنگ کمیٹی کا ڈھانچہ منظور
  •   الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے اربوں روپے کی سبسڈی منظور
  • پاکستان کا بجٹ خسارہ 9 سال کی کم ترین سطح پر، مالی سال 2024-25 میں 5.4 فیصد ریکارڈ
  • صارفین اور کاروباری طبقے کے لیے بڑی خوشخبری: آن لائن خریداری پر عائد ڈیجیٹل ٹیکس ختم
  • آن لائن خریداری پر ڈیجیٹل ٹیکس کا خاتمہ: صارفین اور کاروباری طبقے کو کتنا ریلیف ملے گا؟