فریبی نظام آخری سانسیں اور نئی امیدیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
ہم ایک ناقابلِ واپسی عالمگیر تبدیلی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ آج کے بڑھتے ہوئے تصادم، ٹوٹتی ہوئی معیشت اور بڑھتی ہوئی کشیدگی صرف بے ہنگم نہیں بلکہ ایک زوال پذیر آمرانہ نظام کی آخری لڑائی اور دھونس و دھمکیاں یہ پرانا نظام، جو فیات کرنسی، ڈیجیٹل فریب، قیاسی بنیاد پر اور چند طاقتوروں کے ناانصاف اور جابرانہ کنٹرول پر مبنی تھا، اب اپنے ہی وزن تلے ڈگمگا رہا ہے اور کھوکھلا ہو چکا ہے یہ وہ نظام تھا جس می کوئی ٹھوس بنیاد نہ تھی، بلکہ فریب کار ی‘مکر اور چھپی سازشوں پر استوار تھا اور اب آخرِ کار وہ ختم ہونے ہی والا ہے۔فیات کرنسی کا تختہ الٹے‘ عالمی معیشت طویل عرصہ سے قرض پر مبنی فیات کرنسی کے تحت چل رہی تھی ایسی کرنسی جو کسی حقیقی سامان سے منسلک نہیں، بلکہ سنٹرل بینکس صرف اپنے اختیارسے پیدا کر لیتے ہیں۔ اس مزاحیہ رقم نے دھوکے بازوں کی سلطنت کو توانا رکھا: لامتناہی جنگوں کی مالی معاونت، اعلیٰ سطحی بدعنوانی اور سودی قرضوں کے ذریعے قوموں،حکومتوں اور انسانوں کو غلام بنا کر رکھا ہوا ہے لیکن آج یہ نظام آخری سانسیں لے رہا ہے۔
بظاہر، پردے کے پیچھے نیا کوانٹم مالیاتی نظام (QFS) متعارف کرایا جا رہا ہے ایک ایسا نظام جو حقیقی اثاثوں سے منسلک، شفاف اور غیر فاسد ہوگا۔ یہ تبدیلی خاموشی سے شروع ہو چکی ہے، اور اس کے پیچھے عوامل میں شامل ہیں۔بادلIII اور IV ضوابط بینکوں کو حقیقی، آڈٹ شدہ اور ٹھوس اثاثوں کی بنیاد پر مالیات رکھنے پر مجبور کرنا ہے ڈی ڈالرائزیشن تحریک خاص طور پر BRICS ممالک (برازیل، روس، انڈیا، چین، ساتھ افریقہ) کی قیادت میں، جو SWIFT جیسے امریکی زیرِ کنٹرول نظام کی جگہ خودمختار متبادل تیار کر رہے ہیںیہ صرف تکنیکی تبدیلی نہیں۔یہ ایک صدی پرانی مالیاتی سلطنت کی تدفین کا آغاز ہے۔ کاغذی جھوٹ سے ٹھوس حقیقت کی طرف: صاف پیسے کا عروجQFS اور BRICS کا یہ ماڈل ایماندار قدر کی واپسی کی علامت ہے ایسی کرنسی جو سونے، اجناس، توانائی اور تصدیق شدہ قومی اثاثوں پر مبنی ہوگی، نہ کہ قیاس اور بے ضابطہ پرنٹنگ پر۔اب مبہم ذرائع سے آتے آف شور فنڈز ، آن لائن لامحدود ڈیجیٹل اصطلاحات کے ذریعے اربوں ڈالر کی منتقلی۔ معاشی پابندیاں ایک چند طاقتوں کا سیاسی دبائوکے لیے استعمال ہونا اپنے آخر سانس لے رہا ہے اس کے برعکس، نئے نظام میں ہر لین دین شفاف، قابلِ سراغ اور حقیقی قدر سے مربوط ہوگا۔کوئی جعلی خانہ، کوئی مصنوعی مہنگائی، اور نہ ہی چند خاص لوگوں کے مستقبل پر قبضہ کا کوئی موقع ہوگا یہ ایک سیاسی زلزلہ پرانے طاقتور نظام کے خاتمہ ہوگا ایسی بنیادی مالی تبدیلی کے ساتھ سیاسی زلزلہ آنا ناگزیر ہے۔جو طاقتیں پرانے نظام سے مستفید ہوئیں سیاستدان، کارپوریشنیں، خفیہ نیٹ ورک، اور جنگی صنعت یہ سب مزاحمت کریں گے۔ لیکن ان کے زوال کے آثار پہلے ہی واضح ہیں۔ خطے وار جنگیں یوکرین سے فلسطین تک، تائیوان سے ایران تک محض واقعات نہیں، بلکہ ایک عالمی تبدیلی کی علامات ہیں۔ جس کے پیچھے چند طاقتیں ہیں لیکن ایک نئی کثیرمرکزی آزاد دنیا ابھرتی نظر آرہی ہے۔خودمختار قومیں، غلامانہ نقطہ نظر کے خلافBRICS، SCO اور دیگر اتحاد NATO کی بالادستی کی جگہ لے رہے ہیںوہ نظام جو انصاف، حقیقت اور ٹھوس قدر کو اپنی بنیاد بنائے گا جب جھوٹ فنا ہوتا ہے، تو یہ صرف اس لیے کہ اسے فنا ہونا تھا۔(قرآن‘ سورۃ الاسرا ء 17:81 )علاقائی تنازعات یا آخری جنگ؟خطرہ حقیقی ہے اور زیادہ خطرناک ہے۔علاقائی حالیہ جنگیں اگر ختم نہ ہوئیں تو ممکنہ طور پر وہ پوشیدہ خطرہ بن سکتی ہیں جیسا کہ متوقع ہے تیسری عالمی جنگ آرماگڈون۔لیکن اگر یہ طوفان آیا بھی، تب بھی وہ اس دھوکے کو دھو ڈالے گا اور یہ فریبی شیطانی طاقتیں ختم ہو جائیں گیں اور جو کچھ سامنے آئے گا، وہ ایک ایسا عالم ہوگا جس کی بنیاد انصاف ،اقتصادی مساوات ،عالمی تعاون خودمختاری کا احترامانسانیت کی بالادستی ہوگی ہمیں کیا تیاری کرنی چاہیے؟ ہمیں اس وقت کی حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا: قرض اور قیاس سے بچیں ٹھوس، صاف اثاثوں کی طرف حرکت کریںاپنی دولت کا تحفظ کریں حقیقی سونا، زمین، توانائی اور ہنر اہم رہیں گے۔علاقائی خود انحصاری بنائیں کمیونٹی کاشتکاری سے معاشی آزادی تک سچ کے ساتھ رہیں میڈیا کے جھوٹ کو نہ سنیں نہ یقین کریں اللہ سے رابطہ قائم کریں یہ صرف مالی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک روحانی انقلاب ہوگایہ صرف تکنیکی یا مالی تبدیلی نہیں۔یہ اللہ کی طرف سے بھیجی گئی تبدیلی ہو گی ۔ جھوٹ کی سلطنت کے زوال اور نئے انصاف و شفافیت کے عہد کا آغاز۔ہم ایک نئے عہد کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔آئیے، ہم زوال پذیر طاقتوں کے ساتھ ان کے گھڑے میں نہ گریں بلکہ نئے نظام راہ اپنائیں اور حق، ایمان کے ساتھ ایک نئے منصفانہ عالمی دور کی وسعت میں قدم بڑھائیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے ساتھ رہا ہے یہ صرف
پڑھیں:
5 اگست نہ صرف کشمیر بلکہ پوری قوم کیلئے سیاہ دن ہے، محبوبہ مفتی
پی ڈی پی کی لیڈر نے کہا کہ ہم سے بولنے اور احتجاج تک کرنے کا بنیادی حق سلب کیا جا رہا ہے، یہ ہماری آواز اور ہمارے حقوق کو بھی چھینے جانے کی کوشش ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آج سے 6 سال قبل 5 اگست 2019ء کو مودی حکومت نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس تعلق سے آج جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں، مودی حکومت سے جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اسی سلسلہ میں جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مودی حکومت پر جم کر حملہ بولا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک احتجاجی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ 5 اگست نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ پوری قوم کے لئے سیاہ دن ہے، اس دن آئین کو غیر ملکی ہاتھوں نے نہیں بلکہ ہماری جمہوریت کے قلب میں موجود وحشیانہ اکثریت نے توڑا تھا۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی غیر آئینی تنسیخ کا خاتمہ نہیں بلکہ آئینی اقدار پر وسیع حملے کا آغاز تھا۔
دوسری جانب محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے دفعہ 370 کی منسوخی کے 6 سال مکمل ہونے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 370 کو غیر قانونی طریقے سے ہٹایا گیا۔ ہم سے جموں و کشمیر کا آئین اور جھنڈا تک چھین لیا گیا ہے۔ یہاں 6 سالوں کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم قانونی طور پر ایک فریق کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بھی ہمیں احتجاج کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ہمیں 6 سال قبل نظرانداز کر دیا گیا تھا، اس وقت جموں و کشمیر کے عام شہریوں، سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں (جماعتوں) کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
التجا مفتی نے کہا کہ ہم پی ڈی پی کے ہیڈکوارٹر کے سامنے کھڑے ہیں، بھارتی فروسز کی ایک بڑی سی گاڑی کھڑی ہوئی ہے اور ہمیں آگے بڑھنے سے روکا جا رہا ہے، مجھے ایک طرح سے گرفتار کر لیا گیا ہے، یہ سب جمہوری حقوق کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پُرامن طریقے سے اپنی بات رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہم پر مسلسل دباؤ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے افواہیں پھیل رہی ہیں کہ شاید جموں کو الگ بنا دیا جائے گا اور جنوبی کشمیر کو جموں میں ملا کر نئے سرے سے ریاست کا درجہ دیا جائے گا لیکن سچائی تو یہ ہے کہ یہاں آئین کی کن باتوں کو نافذ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے بولنے اور احتجاج تک کرنے کا بنیادی حق سلب کیا جا رہا ہے، یہ صرف ہمارے خصوصی درجے، جھنڈے اور آئین کی بات نہیں ہے، بلکہ ہماری آواز اور ہمارے حقوق کو بھی چھینے جانے کی کوشش ہے۔