حملہ آور امریکی طیاروں کی پرواز کے مقام کی نشاندہی کر لی گئی، سہاہ پاسداران
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی دہشت گرد حکومت کے آج کے حملے نے اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے جائز دفاع کے حق کے تحت ایسے اختیارات استعمال کرنے پر مجبور کیا ہے جو حملہ آور محاذ کی غلط فہمیوں اور اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس سرزمین پر حملہ کرنے والوں کو پشیمانی کا باعث بننے والے جوابات کا انتظار کرنا چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (IRGC) نے امریکہ کی جانب سے ایران کی پرامن جوہری تنصیبات پر غیر قانونی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ تہران میں IRGC نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس حملے میں ملوث طیاروں کی پرواز کے مقامات کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور وہ نگرانی میں ہیں۔ سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے جاری کردہ بیان کا مکمل متن مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عظیم اور بہادر ایرانی قوم
جرائم پیشہ امریکی رژیم نے آج صبح، صہیونی ریاست کے مکمل تعاون سے، اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن جوہری مراکز پر غیرقانونی فوجی حملہ کر کے ایک واضح اور بے مثال جنایت کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے (NPT)، اور ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے بنیادی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
صہیونیستوں کے اس حملے کے پہلے لمحے سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کو واضح علم تھا کہ امریکیوں کی مکمل حمایت اور شمولیت نے اس جارحیت کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ اقدام ایک بار پھر محاذ کے میدان میں حقیقی تبدیلی لانے میں ناکامی کو ثابت کرتا ہے۔ نہ تو ان کے پاس کوئی حقیقی منصوبہ بندی ہے، نہ ہی وہ ہمارے شدید جوابی اقدامات سے بچ پائیں گے۔
امریکہ کی جانب سے ماضی کی ناکام حماقتوں کو دہرانا، اس کی حکمت عملی کی نااہلی اور خطے کی حقیقتوں سے بے خبری کو ظاہر کرتا ہے۔ واشنگٹن نے بار بار کی ناکامیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے، پرامن جوہری تنصیبات پر براہ راست حملہ کر کے خود کو جارحیت کے صف اول میں کھڑا کر لیا ہے۔
اللہ کے فضل سے، اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کی جامع معلوماتی نگرانی کے تحت، اس حملے میں شامل ہونے والے طیاروں کے اڈوں کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان پر مسلسل نظر رکھی جا رہی ہے۔ جیسا کہ ہم بارہا واضح کر چکے ہیں، امریکہ کے فوجی اڈوں کی تعداد، پھیلاؤ اور وسعت ان کی طاقت نہیں، بلکہ ان کی کمزوری کو دوگنا کر دیتی ہے۔
ہم واضح طور پر یہ بات دہراتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مقامی اور پرامن جوہری ٹیکنالوجی کسی بھی حملے سے ختم نہیں ہوگی۔ بلکہ یہ حملہ ہمارے نوجوان اور پرعزم سائنسدانوں کے عزم کو مزید مضبوط کرے گا۔
عظیم ایرانی قوم اور دنیا کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اس ہمہ جہت اور مسلط کردہ جنگ کے میدان کو پہچانتا ہے اور وہ ہرگز ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس اور تل ابیب پر حکمران مجرم گروہ کے ہنگاموں سے مرعوب نہیں ہو گا۔
ان جارحیتوں اور جرائم کے جواب میں، "وعدہ صادق 3" کی کارروائی، جس کی صیہونیوں نے اب تک 20 لہریں محسوس کی ہیں، صیہونی حکومت کے بنیادی ڈھانچے، اسٹریٹجک مراکز اور مفادات کے خلاف درست، ہدف مند اور شدید انداز میں جاری رہے گی۔
اس کے علاوہ، امریکی دہشت گرد حکومت کے آج کے حملے نے اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے جائز دفاع کے حق کے تحت ایسے اختیارات استعمال کرنے پر مجبور کیا ہے جو حملہ آور محاذ کی غلط فہمیوں اور اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس سرزمین پر حملہ کرنے والوں کو پشیمانی کا باعث بننے والے جوابات کا انتظار کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت پر بھروسہ کرتے ہوئے، سپریم لیڈر کے تدابیر اور فیصلوں کے تحت اور عظیم ایرانی قوم کی حمایت، نیز اسلامی مزاحمتی محاذ اور دنیا بھر کے حق پرستوں اور آزادی پسندوں کے ساتھ مل کر، ہم ایران کی عزت اور سلامتی کی حفاظت کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان شاء اللہ، ہم ایران اور ایرانیوں کے لیے، اور بلکہ امت مسلمہ کے لیے بھی تاریخ ساز فتوحات دیکھیں گے۔
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَكِیمِ
سپاه پاسداران انقلاب اسلامی
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران پاسداران انقلاب پرامن جوہری ایران کی حملہ کر کیا ہے کے تحت
پڑھیں:
اسرائیل کا قطر پر حملہ اور امریکا کی دہری پالیسی
9 ستمبر 2025 کو مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھرکشیدگی کی لہر دوڑگئی جب اسرائیل نے قطرکے دارالحکومت دوحہ میں فضائی حملہ کیا۔ اس حملے کا مقصد فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے چند سینئر رہنماؤں کو نشانہ بنانا تھا، جن میں خلیل الحیہ کے بیٹے اور ان کے قریبی معاون بھی شامل تھے۔
اس واقعے نے خطے کے امن کو بری طرح متاثرکیا۔ اس واقعے کے سبب امریکا کے دہرے معیار اور سامراجی انداز پر انگلیاں اٹھیں۔ قطر نے اسرائیلی حملے کو قومی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف قرار دیا جو کہ سو فیصد درست ہے۔ قطری حکومت نے اسے کھلی ریاستی دہشت گردی قرار دیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے غیر قانونی اقدام پر فوری ایکشن لے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکیہ اور الجزائر نے مشترکہ بیان میں کہا کہ اسرائیلی حملہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ عرب لیگ نے اس حملے کو نہ صرف قطرکی خود مختاری پر حملہ بلکہ پوری عرب دنیا کے خلاف ایک جارحیت قرار دیا۔
اس سنگین صورتحال پر پاکستان نے ایک ذمے دار اور اصولی ملک کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے قطر پر اسرائیلی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور ایک خود مختار ریاست کی سالمیت کی پامالی کہا۔ وزیراعظم کا فوری دورہ قطر اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان، اسلامی ممالک کی خود مختاری اور سالمیت کے بارے میں ٹھوس موقف رکھتا ہے اور ان کے ساتھ قدم قدم پرکھڑا ہے۔ دوسری جانب یہ حملہ پاکستان کے لیے بھی باعث تشویش ہے کیونکہ اس میں امریکا کا دہرا معیار واضح ہوا ہے۔ امریکا، قطرکے ساتھ تجارتی معاہدات میں مصروف تھا جب کہ اسی دوران اسرائیل نے جارحیت دکھائی۔ جس پر دنیا کی سب سے بڑی ریاست کی نیت واضح ہوگئی ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔
آج کل امریکا، پاکستان کی تعریفیں کرتا نہیں تھک رہا ہے۔ مسلسل پاکستان کے حق میں بیان دے رہا ہے، لٰہذا حالیہ واقعے سے پاکستان کو سبق لینا ہوگا کیونکہ امریکا جیسا نظرآتا ہے ویسا ہے نہیں۔ اس لیے پاکستان کو بہت محتاط ہوکر اپنے کارڈز کھیلنے ہوں گے،کیونکہ دھوکا دینا، امریکا کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے اور وہ اسے غیر اخلاقی بھی نہیں سمجھتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اس حملے کی مذمت ہوئی مگر امریکا نے اسرائیل کا نام لیے بغیر اس کی مذمت کی، جس سے دہری پالیسی کی نشاندہی ہوئی۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حملے کو بلاجواز قرار دیا اور قطرکی خود مختاری کے حق میں موقف اختیار کیا، مگر عملی طور پر امریکا نے اسرائیل کی حمایت جاری رکھی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کے قطر سے الجزیرہ نیوز چینل کی کوریج کو کم کرنے کی درخواست نے بھی امریکا کی دہری پالیسی پر سوالات اٹھا دیے۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ امریکا قطر کی داخلی آزادی میں مداخلت کر رہا ہے۔
قطرکی حیثیت خطے میں ایک معتدل ملک اور ثالث کے طور پر ہے جو حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کے ساتھ رابطے کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اسرائیلی حملے اور امریکا کے متضاد رویے نے قطر کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے جہاں وہ اپنے قومی مفادات اور علاقائی ذمے داریوں کے بیچ توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ اس جارحیت کا جواب دیا جائے گا۔ مصر اور اردن نے خطے میں امن کی کوششوں کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا، جب کہ ایران نے اسرائیل اور امریکا کو خطے میں انتشار پھیلانے کا ذمے دار ٹھہرایا۔ عالمی برادری میں بھی اس حملے کے خلاف تشویش پائی گئی اورکئی ممالک نے اسرائیل سے اس کارروائی کی وضاحت کا مطالبہ کیا۔
یہ واقعہ عالمی طاقتوں کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔
اقوام متحدہ جیسے ادارے جب اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتے یا طاقتور ممالک کے دباؤ میں آ جاتے ہیں تو عالمی امن کے لیے خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے نہ صرف خطے بلکہ عالمی معیشت اور توانائی کے ذخائر کو بھی سنگین نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
اسرائیل کا قطر پرحملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی سیاست میں طاقتور ممالک اپنے قومی مفادات کے لیے دوسرے ممالک کی خود مختاری کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات عالمی امن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور امن کی کوششوں کو سبوتاژکرتے ہیں۔
عالمی دفاعی اور بین الاقوامی معاملات پرگہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دوحہ پر حملہ ایک ’’ واضح پیغام‘‘ تھا کہ اسرائیل دوسرے عرب ممالک بالخصوص مصرکو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس تناظر میں مصری اپوزیشن رہنما طارق حبیب کا کہنا ہے کہ ریاض اور قاہرہ پر بھی حملہ ہو سکتا ہے، کیونکہ اسرائیل کھلی جارحیت پر آمادہ ہے اور امریکا اس کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔
یہ صورتحال عالمی امن کے لیے مضر ہے۔ دیرپا امن کے لیے ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں انصاف، دوسرے ممالک کی خود مختاری اور امن کے اصولوں کو مقدم رکھیں، اگر عالمی برادری نے اس مسئلے کو نظر اندازکیا تو اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کے عمل کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے اور علاقے میں غیر یقینی صورتحال بڑھ سکتی ہے جو عالمی سطح پر سیاسی، اقتصادی اور انسانی بحران کو جنم دے گی۔