کوئی ظہرانہ مفت نہیں ہوتا بالخصوص وہ جس کی میزبانی وائٹ ہاؤس کرے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
ٹرمپ ایک ایسے پارٹنر کی تلاش میں تھے جو خطے کے قریب ہو اور مضبوط انٹیلی جنس صلاحیتوں کا حامل ہو۔ ان کے نزدیک پاکستان اس تعریف پر پورا اترتا ہے۔ وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، سب سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، ٹرمپ نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے خیالات میں کچھ ہم آہنگی کا اشارہ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ (عاصم منیر) مجھ سے متفق تھے۔ وہ خوش نہیں ہیں (ایران میں ہونے والے واقعات سے متعلق) ایسا نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف ہیں۔ اس ملاقات میں کیا شامل تھا؟ ایران کی جوہری خواہشات، اسرائیلی حملے، یا وسیع تر علاقائی افراتفری؟ ابھی تک کچھ واضح نہیں ہے۔ شاید جان بوجھ کر ابہام برقرار رکھا گیا۔ شاید یہ ابہام پاکستان کے لیے ڈھال کا کام کرسکتا ہے۔ تحریر: سید باقر سجاد
18 جون وائٹ ہاؤس میں ایک غیر معمولی دن تھا۔ اس سے پہلے کبھی کسی امریکی صدر نے پاکستان کے حاضر چیف آف آرمی اسٹاف کی خصوصی، اعلیٰ سطح پر میزبانی نہیں کی۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں پر مشتمل فوجی تعاون کے باوجود اس نوعیت کی کسی ملاقات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ ملاقات خاص طور پر اس لیے بھی دلچسپ تھی کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیبنٹ روم میں ظہرانے کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے نجی طور پر ملاقات اس وقت کی کہ جب اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے خطے کی ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہونے کے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس ملاقات میں پاکستان کے کسی سویلین نمائندے نے شرکت نہیں کی۔ نہ سفیر، نہ وزیر خارجہ، صرف آرمی چیف اور پاکستان کے اعلیٰ انٹیلی جنس افسر لیفٹیننٹ عاصم ملک جو قومی سلامتی کے مشیر ہیں، ظہرانے میں موجود تھے۔ امریکا کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ، سیکریٹری آف اسٹیٹ سینیٹر مارکو روبیو اور مشرق وسطیٰ کے امور کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے شرکت کی۔ ملاقات میں موجود لوگوں کے مختصر، محتاط انداز میں منتخب کردہ گروپ نے ظاہر کیا کہ دونوں فریقین کے خیال میں یہ ملاقات کتنی اہم اور سنجیدہ تھی۔
اگرچہ یہ ملاقات دلچسپ اور معنی خیز تھی، اس میں کوئی حتمی فیصلہ یا معاہدہ نہیں کیا گیا بلکہ اس میں خیالات کا تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے دونوں فریقین کے درمیان کھلے پن اور تعاون کی غیرمعمولی سطح کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، اگرچہ ملاقات ایک گھنٹے کے لیے طے تھی لیکن یہ 2 گھنٹے سے زائد جاری رہی جو اس مکالمے کی گہرائی اور دوستانہ ماحول کی عکاسی کرتی ہے۔ اس ملاقات میں متعدد مسائل پر بات چیت کی گئی جن میں بھارت کے ساتھ پاکستان کا حالیہ تعطل، کرپٹو کرنسی میں اسلام آباد کی دلچسپی، نایاب معدنیات کی پیشکش اور مصنوعی ذہانت پر تعاون کے امکانات شامل ہیں۔
لیکن آئی ایس پی آر نے نوٹ کیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان موجودہ کشیدگی پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا‘، مزید کہا کہ دونوں فریقین نے ’تنازعے کے حل کی اہمیت پر زور دیا۔ ٹرمپ نے خود اس خیال سے اتفاق کیا کہ پاکستان اس معاملے میں معنی خیز حصہ ڈال سکتا ہے خاص طور پر جب بات ایران کو سمجھنے کی ہو۔ تاہم دونوں اطراف کے ذرائع کے مطابق یہ ملاقات وعدے کرنے کے حوالے سے کم بلکہ مؤقف کو جاننے کے حوالے سے زیادہ تھی تاکہ یہ جانچا جاسکے کہ فریقین کہاں کھڑے ہیں۔
ایران کی حمایت؟
ملاقات کے اگلے دن دفتر خارجہ نے ایران-اسرائیل جنگ کے بارے میں اپنے سرکاری مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے مزید وضاحت پیش کی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا، ’اسرائیل، ایران میں جو کچھ کر رہا ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ مہذب رویے، بین الریاستی تعلقات، بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’ایران کے لیے حمایت ہمارا بنیادی مؤقف ہے۔ یہ واضح اور پختہ ہے۔ کوئی پاکستانی شہری یا حکومت کبھی بھی اسرائیل کی حمایت نہیں کرسکتی۔
پھر بھی جب اس بات پر دباؤ ڈالا گیا کہ آیا پاکستان ایران کی فوجی مدد کر سکتا ہے یا نہیں تو شفقت علی خان نے ہچکچاتے ہوئے کہا کہ اس مقام پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔۔۔ ہمیں ایران سے فوجی مدد کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ سادہ الفاظ میں پاکستان صرف ایران کی عسکری مدد کرنے سے انکار نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ اپنی پوزیشن کو احتیاط سے متوازی رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ملک ایران کے ساتھ اقدار کا اشتراک کرتا ہے، سفارت کاری کے ذریعے تناؤ کو کم کرنا چاہتا ہے اور جب فوجی کارروائی کی بات آتی ہے تو وہ غیرجانبدار رہتا ہے۔ پاکستان اس وقت انتہائی نازک صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان کا محتاط متوازی ردعمل، تنازعات کے ساتھ اس کی اپنی تاریخ سے جڑا ہے خاص طور پر بھارت کے ساتھ اس کے مشکل اور کشیدہ تعلقات اور ان کے درمیان جوہری جنگ کا مستقل خطرہ اس کی وجہ ہے۔ ابھی پچھلے مہینے ہی پہلگام میں ایک حملے کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک تقریباً مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی بھی مذمت کی، ’آئی اے ای اے کے تحفظات کے تحت جوہری تنصیبات پر حملہ کرنا بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
یہ جملہ پاکستان کی سب سے بڑی پریشانی کو ظاہر کرتا ہے کہ اگر ایک ملک بغیر کسی سزا کے دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرسکتا ہے، تو دنیا کو محفوظ رکھنے والے قوانین کی پامالی ہوگی جوکہ پاکستان کے لیے بہت خوفناک ہے کیونکہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور اس کی بھارت کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں جس کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہیں۔ جمعرات کو جاری ہونے والے بیان میں آئی ایس پی آر نے واضح کیا، پاک-امریکا تعلقات نے گزشتہ تین دنوں میں وہ حاصل کیا ہے جو بھارت تین دہائیوں میں حاصل نہیں کر سکا‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اس ملاقات کو سیکیورٹی معاملات پر پاکستان کی مرکزی آواز کے طور پر اپنے اہم کردار کے ثبوت کے طور پر دیکھتی ہے۔
آئی ایس پی آر نے مزید زور دے کر کہا کہ ملاقات نے امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دیا، پاکستان کو اب اسٹریٹجک ترجیح دی جا رہی ہے۔ لیکن کیبنٹ روم کا منظر جہاں ٹرمپ پاکستانی جرنیلوں کے سامنے بیٹھے جبکہ پاکستان کی سیاسی قیادت کی غیرموجودگی کئی تناظر میں پریشان کن تھی۔ ’کوئی بھی غیرملکی حکومت جو جمہوریت سے اتحاد یا حمایت مانگتی ہے وہ عام طور پر سویلین قیادت کے ساتھ معاملہ طے کرتی ہے۔ سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ لیکن پاکستان اب ایک بالکل مختلف پیغام دے رہا ہے!
پاکستان کی توازن قائم کرنے کی کوشش
اس ملاقات نے نئی دہلی میں بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ تجزیہ کاروں نے اسے امریکا اور بھارت تعلقات کے لیے ایک دھچکا قرار دیا وزیر اعظم نریندر مودی نے خاموشی سے وائٹ ہاؤس کی طرف سے اسی طرح کی وائٹ ہاؤس کی دعوت کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ ان کا شیڈول طے ہے۔ اس سے ان قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات اس وقت تناؤ کا شکار ہوسکتے ہیں کہ جب عالمی اتحاد بدل رہے ہیں۔ ٹرمپ کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ لنچ ایک زبردست اقدام تھا۔ جیسا کہ اسرائیل نے امریکا کو ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور امریکی فوجیوں نے خاموشی سے خلیج میں اپنی پوزیشنیں تبدیل کر دیں۔
ٹرمپ ایک ایسے پارٹنر کی تلاش میں تھے جو خطے کے قریب ہو اور مضبوط انٹیلی جنس صلاحیتوں کا حامل ہو۔ ان کے نزدیک پاکستان اس تعریف پر پورا اترتا ہے۔ وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، سب سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، ٹرمپ نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے خیالات میں کچھ ہم آہنگی کا اشارہ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ (عاصم منیر) مجھ سے متفق تھے۔ وہ خوش نہیں ہیں (ایران میں ہونے والے واقعات سے متعلق) ایسا نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف ہیں۔ اس ملاقات میں کیا شامل تھا؟ ایران کی جوہری خواہشات، اسرائیلی حملے، یا وسیع تر علاقائی افراتفری؟ ابھی تک کچھ واضح نہیں ہے۔ شاید جان بوجھ کر ابہام برقرار رکھا گیا۔ شاید یہ ابہام پاکستان کے لیے ڈھال کا کام کرسکتا ہے۔
کسی فوجی مدد کا وعدہ نہ کرتے ہوئے ایران کی اخلاقی حمایت کر کے پاکستان اپنے آپشن کھلے رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ ایران کے اعتماد کو کھونے کے ساتھ ساتھ امریکا کو پریشان کرنے سے بھی بچنا چاہتا ہے۔ ایران پر تنقید کرنے والے آئی اے ای اے کے حالیہ ووٹ سے باہر رہنے کا اس کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کتنی احتیاط سے دونوں فریقین میں توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ایک سچائی باقی ہے۔ اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر عادل سلطان نے کہا، کوئی ظہرانہ مفت نہیں ہوتا۔ خاص طور پر وہ جو وائٹ ہاؤس میں ہو۔ ہمیں ایک بار پھر فرنٹ لائن ریاست بننے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
بشکریہ: ڈان اردو ڈات کام
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران کی جوہری اس ملاقات میں پاکستان اس پاکستان کے پاکستان کی کی کوشش کر کے درمیان جانتے ہیں یہ ملاقات وائٹ ہاؤس کرتے ہوئے کر رہا ہے ایران کے بھارت کے مزید کہا کے ساتھ نہیں ہے کہا کہ ایس پی کے لیے بات پر
پڑھیں:
ایرانی صدر کا دورہ ثبوت ہے کہ پاکستان نے ایران، اسرائیل جنگ میں مثبت کردار ادا کیا، عرفان صدیقی
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی بنائی ہوئی تباہی کی سرنگ میں داخل ہو چکے جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں، ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن عمران خان صرف ان سے بات کرنا چاہتے ہیں جو پی ٹی آئی سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ اسلام ٹائمز۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی تحریک ایک دن کے احتجاج میں بدل چکی ہے، تمام کارڈز ناکام ہوچکے، پی ٹی آئی کے پاس اب صرف ناکامی کارڈ بچا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی بنائی ہوئی تباہی کی سرنگ میں داخل ہو چکے جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں، ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن عمران خان صرف ان سے بات کرنا چاہتے ہیں جو پی ٹی آئی سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کا ماضی اور حال ہے مگر اس جماعت کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں رہا، عوام پی ٹی آئی کے بیانیے سے بیزار ہو چکے ہیں، سلمان اور قاسم کے ویزا درخواست دینے سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ وہ خود کو پاکستانی شہری تسلیم نہیں کرتے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے آل پارٹیز کانفرنس کے حالیہ اعلامیے کے حوالے سے سوال پر کہا کہ یہ اعلامیہ فوج سے بغض اور پی ٹی آئی کے درد سے لبریز تھا، پاکستان کی عظیم فتح معرکہ حق کا اعلامیے میں ذکر تک نہ کرنا شرم ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی، معاشی اور سفارتی میدانوں تمام محاذوں پر کامیابیاں کسی ایک نہیں، قومی اداروں اور قیادت کی مشترکہ حکمت عملی اور کاوش کا نتیجہ ہے۔ پی ٹی آئی لیڈروں اور کارکنوں کو سزاؤں کے حوالے سے سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ برطانیہ میں 2 ہفتوں کے اندر بلوائیوں کو سزائیں دے دی گئیں جبکہ پاکستان میں 9 مئی کے واقعات کو دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور سزاؤں کا آغاز اب ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت کوئی سیاسی بحران نہیں ہے یہ بحران صرف اُن چند افراد کے ذہنوں میں پل رہا ہے جو ذاتی انا اور تلخی کا شکار ہیں، ریاست کا پہیہ رواں دواں ہے، ادارے کام کر رہے ہیں، معاشی کامیابیاں جاری ہیں اور پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا دورہ پاکستان ثبوت ہے کہ پاکستان نے ایران اسرائیل جنگ میں مثبت کردار ادا کیا۔