چاہت خان نے اپنے ذومعنی اور نامناسب گانوں پر عجیب منطق پیش کردی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
سوشل میڈیا پر متنازع شہرت پانے والے گلوکار اور خود ساختہ انٹرٹینر چاہت فتح علی خان نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی جہاں انہوں نے اپنی ’’فنکارانہ‘‘ زندگی، گانوں اور خاص طور پر ذومنی اور فحش اشعار کے حوالے سے وضاحت پیش کی۔
پوڈکاسٹ میزبان آصف جٹ سے گفتگو کرتے ہوئے چاہت نے دعویٰ کیا کہ ’’میں بالکل بھی فحش نہیں ہوں۔‘‘
ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی ویڈیوز میں خواتین کے ساتھ حد سے قریب ہونے کی کوشش کیوں کرتے ہیں، اور یہاں تک کہ ماڈل و میزبان متھیرا بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ چاہت جب کسی شو یا تقریب میں آتے ہیں تو ’’کچھ زیادہ ہی بے باک ہوجاتے ہیں۔‘‘
اس پر چاہت نے بڑی بے نیازی سے جواب دیا کہ ’’یہ سب ایکٹنگ ہے۔ میں حقیقت میں کچھ غلط نہیں کر رہا، سب کچھ صرف ویڈیو کا حصہ ہوتا ہے۔‘‘ یعنی جو کچھ نظر آتا ہے، اس کے پیچھے کوئی بدنیتی نہیں، صرف ’’فنونِ لطیفہ‘‘ کا مظاہرہ ہے۔
جب میزبان نے ان کے مشہور (اور سوشل میڈیا پر بدنام) گانے ’’پاؤ پاؤ‘‘ کا ذکر چھیڑا، جسے دہرے معنی رکھنے والے اشعار کی وجہ سے خاصی تنقید کا سامنا رہا، تو چاہت نے ہنستے ہنستے اشعار دہرا دیے۔ پہلے تو انہوں نے کہا کہ ان اشعار میں کچھ بھی غلط نہیں، لیکن جب بحث گہری ہوئی تو بالآخر مان ہی لیا کہ ’’ہاں، مجھے اپنی زبان اور مواد پر تھوڑا دھیان دینا چاہیے۔‘‘
چاہت فتح علی خان کے مطابق ان کے الفاظ کا مقصد صرف تفریح ہوتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک بڑی تعداد میں بچے، نوجوان اور عام لوگ ان کی ویڈیوز دیکھتے ہیں، تو کیا فن کے نام پر کسی بھی حد کو پار کرنا درست ہے؟
چاہت نے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے طنز اور مذاق کے ذریعے بات کو ٹالنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے گیتوں اور رویے پر اٹھنے والے سوالات اب بھی قائم ہیں۔ کیا واقعی یہ سب صرف ’ایکٹنگ‘ ہے، یا پھر شوبز کے نام پر معیار کو قربان کیا جا رہا ہے؟
نہ صرف سوشل میڈیا صارفین بلکہ اب خود میزبان اور انڈسٹری کی شخصیات بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ’’وائرل ہونے‘‘ کی دوڑ میں اخلاقیات کہیں پیچھے تو نہیں رہ گئیں؟
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: چاہت نے
پڑھیں:
فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت؛ نیتن یاہو نے بل کی حمایت کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کی حمایت کردی، بل بدھ کو پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
سرکاری خبر رساں ادارے اناطولیہ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے یرغمالیوں اور لاپتا افراد کے کوآرڈینیٹر نے آج کہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو ایک ایسے بل کی حمایت کرتے ہیں جس کے تحت فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دی جاسکے گی۔
یہ بل دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت ’جیوش پاور پارٹی‘ نے پیش کیا ہے، جس کی قیادت وزیرقومی سلامتی ایتمار بن گویر کر رہے ہیں، یہ بل بدھ کو اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ میں پہلی بار منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
مجوزہ قانون میں کہا گیا ہے کہ اس شخص کو سزائے موت دی جائے گی جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کسی اسرائیلی شہری کو نسلی تعصب، نفرت یا ریاستِ اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے ہلاک کردے۔
اسرائیل میں کوئی بھی بل قانون بننے کے لیے کنیسٹ میں تین مراحل سے گزرنا ضروری ہوتا ہے۔
اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کان کے مطابق کوآرڈینیٹر گل ہیرش نے پیر کو کنیسٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو بتایا کہ نیتن یاہو نے اس بل کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
گل ہیرش نے کہا کہ وہ اس سے پہلے اس بل کے مخالف تھے، کیونکہ یہ غزہ میں زندہ یرغمالیوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب یرغمالی زندہ ہیں، اس لیے میری مخالفت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔
اسی روز کنیسٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ جیوش پاور پارٹی کی درخواست پر اس بل کو پہلے مرحلے کے لیے پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
اسرائیلی وزیرقومی سلامتی ایتمار بن گویر بارہا اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے لیے سزائے موت کے قانون کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ مہینے اکتوبر میں حماس نے ایک عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی زندہ قیدیوں کو رہا کیا تھا، یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کے تحت طے پایا تھا۔
اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی (جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں) اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، فلسطینی اور اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ قیدی تشدد، بھوک اور طبی غفلت کا شکار ہیں، اور متعدد قیدی حراست کے دوران شہید ہو چکے ہیں۔
حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بن گویر نے جیلوں کے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے اور قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقاتوں پر پابندی، خوراک میں کٹوتی، اور نہانے کی سہولت محدود کر دی گئی ہے۔