ایران پر اسرائیل کا حالیہ حملہ ایک معمولی عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک بڑے جغرافیائی اور سیاسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ یہ حملہ نہ صرف ایران کے اندرونی سلامتی کے ڈھانچے کو نشانہ بناتا ہے بلکہ یہ عالمی طاقتوں کے ان پوشیدہ عزائم کو بھی بے نقاب کرتا ہے جن کے تحت مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اپنی مرضی کے نظام نافذ کیے جا رہے ہیں۔

جس انداز میں ایران کے سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا، نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کیے گئے اور حساس عسکری مقامات کو نقصان پہنچایا گیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی فوری ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم اور گہری منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔

اس منظرنامے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ صرف اسرائیل کا انفرادی اقدام نہیں بلکہ اس کے پیچھے امریکا کی خفیہ یا اعلانیہ حمایت بھی شامل ہے۔ ماضی میں امریکا نے بارہا ان ممالک میں حکومتیں تبدیل کی ہیں جو اس کی خارجہ پالیسی کے مطابق نہیں چلتے تھے۔

’’رجیم چینج‘‘ امریکی خارجی پالیسی کا اہم ہتھیار رہی ہے۔ جہاں جنگ ممکن نہ ہو، وہاں حکومتوں کو اندرونی خلفشار یا سازشوں کے ذریعے گرا کر اپنی حمایت یافتہ قیادت کو اقتدار میں لایا جاتا ہے۔ ایران میں اگر رجیم چینج کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ امریکا اور اسرائیل کو ہوگا۔ ایک مغرب نواز حکومت ایران میں قائم ہوجائے گی جو امریکی مفادات کےلیے کام کرے گی، اسرائیل کی سیکیورٹی کو تحفظ دے گی، اور چین، روس اور اسلامی مزاحمتی تحریکوں کےلیے خطرہ بن جائے گی۔ اس صورتحال میں پاکستان کا توازن خطرے میں پڑ جائے گا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ امریکا نے مختلف ممالک میں حکومتیں بدلنے کےلیے نہ صرف سفارتی بلکہ عسکری، خفیہ اور اقتصادی ہتھکنڈے بھی استعمال کیے ہیں۔ 1953 میں ایران میں محمد مصدق کی جمہوری حکومت کو سی آئی اے اور برطانوی خفیہ اداروں نے مل کر گرا دیا اور شاہ ایران کو دوبارہ اقتدار میں لایا۔ 1973 میں چلی میں منتخب صدر سلواڈور آلندے کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل پنوشے کی آمریت کو مسلط کیا گیا۔ 2003 میں عراق پر حملہ کرکے صدام حسین کو ہٹا دیا گیا اور وہاں کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ کرکے حامد کرزئی کو اقتدار میں لایا گیا۔ لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف بغاوت کی پشت پناہی کی گئی اور شام میں بشار الاسد کو ہٹانے کی ناکام کوشش کی گئی۔

اسی پالیسی کے تحت امریکا نے یوکرین میں بھی روس نواز حکومت کو گرا کر مغرب نواز قیادت کو اقتدار دلایا، جس سے خطے میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکا کی رجیم چینج پالیسی کسی خاص خطے تک محدود نہیں بلکہ جہاں کہیں اس کے مفادات کو خطرہ محسوس ہوتا ہے، وہ وہاں حکومتوں کو بدلنے سے گریز نہیں کرتا۔

اب اگر ایران میں اسرائیلی حملوں اور اندرونی خلفشار کے ذریعے حکومت کو غیر مستحکم کر کے اسے مغربی مفادات کے تابع کیا جاتا ہے تو یہ پورے خطے کے توازن کو بگاڑ دے گا۔ پاکستان کےلیے یہ صورتحال نہایت نازک ہو جائے گی۔ مشرق میں بھارت پہلے ہی دشمنی کی پالیسی پر گامزن ہے اور اب اگر مغرب میں ایران بھی مغربی کیمپ کا حصہ بن جائے تو پاکستان ایک ایسے جغرافیائی جال میں پھنس جائے گا جس سے نکلنا نہایت مشکل ہوگا۔

ایران میں اگر مغرب نواز حکومت قائم ہوگئی تو وہ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر غیر یقینی صورتحال پیدا کرسکتی ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ایران میں موجود پشتون اور بلوچ قبائل کے ذریعے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی راہیں کھولی جا سکتی ہیں۔

مزید یہ کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بڑھ سکتی ہیں۔ چین کے خلاف یہ امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ امریکا جانتا ہے کہ چین کی ترقی کا سب سے اہم راستہ زمینی تجارت ہے، اور اس زمینی راستے کا اہم ترین حصہ پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک سے گزرتا ہے۔ اگر ایران اور افغانستان کو غیر مستحکم کر دیا جائے یا مغرب نواز قیادت ان ممالک پر مسلط کردی جائے تو چین کی رسائی محدود ہوجائے گی۔ یوں امریکا نہ صرف چین کی معاشی طاقت کو کمزور کرے گا بلکہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اپنی اجارہ داری کو بھی مستحکم کرے گا۔

پاکستان کو اس وقت دہری جنگ کا سامنا ہے۔ ایک طرف اندرونی خلفشار، معاشی مسائل اور سیاسی عدم استحکام ہے، اور دوسری طرف بیرونی خطرات، جن میں بھارت کی دشمنی، مغرب کا دباؤ اور اسرائیل کی خفیہ مداخلت شامل ہے۔ اگر ایران میں مغرب کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہوگئی تو اسرائیل کو بھی اس سرزمین سے پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کا کھلا موقع مل جائے گا۔

ایسے میں پاکستان کو فوری طور پر اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ایران کے ساتھ نظریاتی اختلافات کے باوجود جغرافیائی حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانا ناگزیر ہوچکا ہے۔ چین کے ساتھ معاشی شراکت داری کو صرف معاشی مفادات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس میں سیکیورٹی تعاون کو بھی شامل کیا جائے۔

پاکستان کو اپنی دفاعی پالیسی میں دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمیں صرف عسکری تیاری نہیں بلکہ سائبر سیکیورٹی، داخلی امن و امان، اور قومی وحدت کو بھی مضبوط بنانا ہو گا تاکہ کسی بھی رجیم چینج یا بیرونی سازش کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ ہمیں اپنی سیاسی قیادت کو بھی سمجھانا ہوگا کہ وقتی اقتدار کی لالچ میں ملک کو بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں گروی نہ رکھا جائے۔

اگر آج ہم نے ہوشیاری کا مظاہرہ نہ کیا تو کل ہم بھی شام، لیبیا یا یوکرین جیسی صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ عالمی سیاست میں کسی کے لیے بھی مستقل دشمن یا مستقل دوست نہیں ہوتا۔ صرف قومی مفادات ہی مستقل ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھنا ہو گا، اور ان عناصر کے خلاف متحد ہونا ہو گا جو پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔

ایران پر حالیہ حملہ صرف ایک ملک کی سالمیت پر حملہ نہیں بلکہ پورے خطے کے مستقبل پر حملہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف ایران بلکہ پاکستان بھی ایک ایسے محاذ پر کھڑا ہو جائے گا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور خود کو اس عالمی سیاسی کھیل کا مہرہ بننے سے بچائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کو رجیم چینج ایران میں نہیں بلکہ مغرب نواز جائے گی جائے گا کے خلاف کو بھی اور اس

پڑھیں:

اقوام متحدہ کی ستمبر کے آخر میں پاک-بھارت سرحد پر غیرمعمولی بارشوں کی پیشگوئی

نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 ستمبر ۔2025 )اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے ذیلی موسمی ماڈلز کا حوالہ دیتے ہوئے پیش گوئی کی ہے کہ ستمبر کے آخر میں بھارت اور پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ معمول سے زیادہ بارش ہوگی، حالانکہ مون سون واپس جا چکا ہوگا، اور اس کا اعادہ اکتوبر کے آخری ہفتے میں بھی ممکن ہے رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2025 سے مارچ 2026 تک کے عرصے میں صحرائی ٹڈیوں کی گرمی اور سردی کی افزائش کے علاقوں میں موسمی بارش کے بارے میں ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق نومبر اور دسمبر میں حالات معمول سے زیادہ خشک رہیں گے جبکہ جنوری میں معمول کی بارش متوقع ہے. رپورٹ کے مطابق ایران کے جنوب مشرقی ساحلی علاقوں اور پاکستان کے جنوب مغربی خطوں میں بہار کے افزائش والے مقامات پر فروری اور مارچ کے دوران معمول سے زیادہ یا کم از کم معمول کی بارشیں متوقع ہیں ایف اے او نے نشاندہی کی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی سرحد پر اکتوبر میں بہت چھوٹے پیمانے پر گرمیوں کی افزائش جاری رہ سکتی ہے لیکن نومبر میں اس کے ختم ہونے کی توقع ہے، یہ بارشیں شمالی ساحل اور سوڈان میں بھی ستمبر اور اکتوبر کے اوائل تک ٹڈیوں کی افزائش میں مددگار ہوں گی، نومبر میں افزائش کم ہونے کی توقع ہے لیکن دسمبر سے مارچ تک دوبارہ بڑھ سکتی ہے. عالمی موسمیاتی سروس کی تازہ ترین موسمی بارشوں کی پیش گوئیاں صحرائی ٹڈیوں کی بہار، گرمی اور سردیوں کی افزائش کے علاقوں کا احاطہ کرتی ہیں عالمی موسمیاتی سروس کی تازہ ترین موسمی بارشوں کی پیش گوئیاں بہار، گرمی اور سردیوں میں صحرائی ٹڈیوں کی افزائش کے علاقوں کا احاطہ کرتی ہیں. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ستمبر کے آخر میں شمالی ساحل، جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے اور پاک۔

(جاری ہے)

بھارت سرحد پر معمول سے زیادہ بارش متوقع ہے اور یہ سلسلہ مغربی افریقہ اور پاک۔بھارت سرحد پر اکتوبر کے اوائل تک جاری رہ سکتا ہے اکتوبر اور نومبر میں زیادہ تر خطوں میں خشک سالی کا رجحان سامنے آنے کی توقع ہے، جس کی وجہ منفی انڈین اوشین ڈائپول بتائی گئی ہے. 

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ کی ستمبر کے آخر میں پاک-بھارت سرحد پر غیرمعمولی بارشوں کی پیشگوئی
  • 131 سال بعد لاہورعجائب گھر کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ، سیاحوں کے لئے بند کیے جانے کا امکان
  • دہشت گردی کا تسلسل اور قومی ذمے داری کا تقاضا
  • غیرملکیوں کو بلیک میل کرنے والا ملزم افغان سرحد کے قریب سے گرفتار
  • مٹیاری،بندوں کو کوئی خطرہ نہیں،سپر فلڈ برداشت کرسکتے ہیں،یوسف شیخ
  • مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
  • صرف ریاست کی رٹ قائم کرنا نہیں بلکہ عوامی حقوق کا تحفظ بھی حکومتوں کی ذمہ داری ہے
  • ایران پر پابندیوں کی بحالی سے مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام کا خطرہ ہے، پاکستان
  • طالبان کے سائے تلے کابل میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی چمک دمک
  • زکربرگ کا دعویٰ: مستقبل اسمارٹ فونز کا نہیں بلکہ نئی ٹیکنالوجی کا ہے