رجیم چینج کے سائے: پاکستان کی مغربی سرحد پر بڑھتا ہوا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
ایران پر اسرائیل کا حالیہ حملہ ایک معمولی عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک بڑے جغرافیائی اور سیاسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ یہ حملہ نہ صرف ایران کے اندرونی سلامتی کے ڈھانچے کو نشانہ بناتا ہے بلکہ یہ عالمی طاقتوں کے ان پوشیدہ عزائم کو بھی بے نقاب کرتا ہے جن کے تحت مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اپنی مرضی کے نظام نافذ کیے جا رہے ہیں۔
جس انداز میں ایران کے سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا، نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کیے گئے اور حساس عسکری مقامات کو نقصان پہنچایا گیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی فوری ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم اور گہری منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔
اس منظرنامے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ صرف اسرائیل کا انفرادی اقدام نہیں بلکہ اس کے پیچھے امریکا کی خفیہ یا اعلانیہ حمایت بھی شامل ہے۔ ماضی میں امریکا نے بارہا ان ممالک میں حکومتیں تبدیل کی ہیں جو اس کی خارجہ پالیسی کے مطابق نہیں چلتے تھے۔
’’رجیم چینج‘‘ امریکی خارجی پالیسی کا اہم ہتھیار رہی ہے۔ جہاں جنگ ممکن نہ ہو، وہاں حکومتوں کو اندرونی خلفشار یا سازشوں کے ذریعے گرا کر اپنی حمایت یافتہ قیادت کو اقتدار میں لایا جاتا ہے۔ ایران میں اگر رجیم چینج کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ امریکا اور اسرائیل کو ہوگا۔ ایک مغرب نواز حکومت ایران میں قائم ہوجائے گی جو امریکی مفادات کےلیے کام کرے گی، اسرائیل کی سیکیورٹی کو تحفظ دے گی، اور چین، روس اور اسلامی مزاحمتی تحریکوں کےلیے خطرہ بن جائے گی۔ اس صورتحال میں پاکستان کا توازن خطرے میں پڑ جائے گا۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ امریکا نے مختلف ممالک میں حکومتیں بدلنے کےلیے نہ صرف سفارتی بلکہ عسکری، خفیہ اور اقتصادی ہتھکنڈے بھی استعمال کیے ہیں۔ 1953 میں ایران میں محمد مصدق کی جمہوری حکومت کو سی آئی اے اور برطانوی خفیہ اداروں نے مل کر گرا دیا اور شاہ ایران کو دوبارہ اقتدار میں لایا۔ 1973 میں چلی میں منتخب صدر سلواڈور آلندے کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل پنوشے کی آمریت کو مسلط کیا گیا۔ 2003 میں عراق پر حملہ کرکے صدام حسین کو ہٹا دیا گیا اور وہاں کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ کرکے حامد کرزئی کو اقتدار میں لایا گیا۔ لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف بغاوت کی پشت پناہی کی گئی اور شام میں بشار الاسد کو ہٹانے کی ناکام کوشش کی گئی۔
اسی پالیسی کے تحت امریکا نے یوکرین میں بھی روس نواز حکومت کو گرا کر مغرب نواز قیادت کو اقتدار دلایا، جس سے خطے میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکا کی رجیم چینج پالیسی کسی خاص خطے تک محدود نہیں بلکہ جہاں کہیں اس کے مفادات کو خطرہ محسوس ہوتا ہے، وہ وہاں حکومتوں کو بدلنے سے گریز نہیں کرتا۔
اب اگر ایران میں اسرائیلی حملوں اور اندرونی خلفشار کے ذریعے حکومت کو غیر مستحکم کر کے اسے مغربی مفادات کے تابع کیا جاتا ہے تو یہ پورے خطے کے توازن کو بگاڑ دے گا۔ پاکستان کےلیے یہ صورتحال نہایت نازک ہو جائے گی۔ مشرق میں بھارت پہلے ہی دشمنی کی پالیسی پر گامزن ہے اور اب اگر مغرب میں ایران بھی مغربی کیمپ کا حصہ بن جائے تو پاکستان ایک ایسے جغرافیائی جال میں پھنس جائے گا جس سے نکلنا نہایت مشکل ہوگا۔
ایران میں اگر مغرب نواز حکومت قائم ہوگئی تو وہ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر غیر یقینی صورتحال پیدا کرسکتی ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ایران میں موجود پشتون اور بلوچ قبائل کے ذریعے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی راہیں کھولی جا سکتی ہیں۔
مزید یہ کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بڑھ سکتی ہیں۔ چین کے خلاف یہ امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ امریکا جانتا ہے کہ چین کی ترقی کا سب سے اہم راستہ زمینی تجارت ہے، اور اس زمینی راستے کا اہم ترین حصہ پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک سے گزرتا ہے۔ اگر ایران اور افغانستان کو غیر مستحکم کر دیا جائے یا مغرب نواز قیادت ان ممالک پر مسلط کردی جائے تو چین کی رسائی محدود ہوجائے گی۔ یوں امریکا نہ صرف چین کی معاشی طاقت کو کمزور کرے گا بلکہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اپنی اجارہ داری کو بھی مستحکم کرے گا۔
پاکستان کو اس وقت دہری جنگ کا سامنا ہے۔ ایک طرف اندرونی خلفشار، معاشی مسائل اور سیاسی عدم استحکام ہے، اور دوسری طرف بیرونی خطرات، جن میں بھارت کی دشمنی، مغرب کا دباؤ اور اسرائیل کی خفیہ مداخلت شامل ہے۔ اگر ایران میں مغرب کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہوگئی تو اسرائیل کو بھی اس سرزمین سے پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کا کھلا موقع مل جائے گا۔
ایسے میں پاکستان کو فوری طور پر اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ایران کے ساتھ نظریاتی اختلافات کے باوجود جغرافیائی حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانا ناگزیر ہوچکا ہے۔ چین کے ساتھ معاشی شراکت داری کو صرف معاشی مفادات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس میں سیکیورٹی تعاون کو بھی شامل کیا جائے۔
پاکستان کو اپنی دفاعی پالیسی میں دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمیں صرف عسکری تیاری نہیں بلکہ سائبر سیکیورٹی، داخلی امن و امان، اور قومی وحدت کو بھی مضبوط بنانا ہو گا تاکہ کسی بھی رجیم چینج یا بیرونی سازش کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ ہمیں اپنی سیاسی قیادت کو بھی سمجھانا ہوگا کہ وقتی اقتدار کی لالچ میں ملک کو بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں گروی نہ رکھا جائے۔
اگر آج ہم نے ہوشیاری کا مظاہرہ نہ کیا تو کل ہم بھی شام، لیبیا یا یوکرین جیسی صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ عالمی سیاست میں کسی کے لیے بھی مستقل دشمن یا مستقل دوست نہیں ہوتا۔ صرف قومی مفادات ہی مستقل ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھنا ہو گا، اور ان عناصر کے خلاف متحد ہونا ہو گا جو پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
ایران پر حالیہ حملہ صرف ایک ملک کی سالمیت پر حملہ نہیں بلکہ پورے خطے کے مستقبل پر حملہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف ایران بلکہ پاکستان بھی ایک ایسے محاذ پر کھڑا ہو جائے گا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور خود کو اس عالمی سیاسی کھیل کا مہرہ بننے سے بچائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کو رجیم چینج ایران میں نہیں بلکہ مغرب نواز جائے گی جائے گا کے خلاف کو بھی اور اس
پڑھیں:
قدرت جابر و سفاک نہیں بلکہ غفلت میں ہم ڈوبے ہیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اگست 2025ء) ہر سال چند گھنٹوں کی بارش بڑے شہروں کا نظام زندگی مفلوج کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ حکومت سب سے پہلے کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے کیونکہ نکاسیِ آب کے نظام کی بہتری کے دعوے صرف کاغذوں تک محدود رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بااثر مافیا کی حمایت سے بننے والی کمرشل عمارتیں، مارکیٹیں، اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے تحت جب پانی کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں تو پھر نتیجتاً پانی اکثر گلیوں، گھروں اور سڑکوں کی جانب رخ کرتا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ عوام بھی کسی حد تک اس تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ کچرا نالوں میں پھینکنے کی عادت، تجاوزات کو سہولت سمجھ کر قبول کر لینا اس تباہی کے عوامل میں شامل ہیں۔مون سون بارشوں کے سیزن میں سوشل میڈیا پرتصاویر ، ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں کہ فلاں شہر سے فلاں خاندان سفاک سیلابی ریلے کی نذر ہوگیا۔
(جاری ہے)
یوں ہر طرف ایک ہی سوال زبان زد عام ہوتا ہے کہ آخر سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا قدرت جابر ہوگئی ہے یا انسانی غفلت کا نتیجہ ہے؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قدرت کا نظام تو نہایت متوازن اور منصف ہے۔
قدرت کسی خاص بستی یا شہر سے دشمنی نہیں رکھتی، نہ ہی اسے کسی انسان سے ذاتی عناد ہے۔ مگر جب ہم ندی نالوں پر ناجائز قبضے کرتے ہیں، دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں، جنگلات کا صفایا کرتے ہیں، نکاسی آب کے نظام کو تباہ کر دیتے ہیں، تو نتیجتاً پانی بہتا نہیں ،چڑھتا ہے اور جب پانی چڑھتا ہے، تو بستیاں بہا لے جاتا ہے۔ راولپنڈی کے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ، ''ہم نے اپنی زندگی میں اتنا پانی کبھی رہائشی علاقوں یا ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں داخل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ماورائے عقل ہے کہ یہ سیلابی ریلا نہیں تھا اور نہ ہی بارش کا پانی۔ کیا یہ آفت تھی یا عذاب تھا جو ہم پر مسلط ہوا ورنہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ سیلاب کا پانی دوسری یا تیسری منزل تک پہنچے۔‘‘ماہرین کے مطابق اس سال موسمِ بہار گویا آیا ہی نہیں۔ سردیوں کے اختتام کے فوراً بعد درجہ حرارت میں غیر معمولی اور تیز رفتار اضافہ دیکھنے میں آیا، جس نے بہار کے خوشگوار موسم کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔
حدت کے باعث گلیشئرز بڑی سرعت سے پگھلے۔ گلیشئرز کا پگھلنا کوئی نئی چیز نہیں۔ ماہرین بڑے عرصے سے خبردار کرتے آئے ہیں۔ یہ موسمیاتی بے ترتیبی ایک واضح اشارہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اب محض ایک انتباہ نہیں بلکہ ایک کڑوی حقیقت بن چکی ہے۔اب یہ کہا جائے کہ پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری خطرے میں ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ انتظامیہ ہوش کے ناخن لے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی حالات حاضرہ کے تناظر میں حقیقت بن کر سامنے کھڑی ہے۔
حکومت کا پہلا فرض ہوتا ہے کہ وہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کرے۔ لیکن ہمارے ہاں منصوبے فائلوں سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ نالوں کی صفائی کے بجٹ ہر سال مختص ہوتے ہیں، لیکن سیلاب کے دنوں میں وہ نالے گند اور کچرے سے بھرے ملتے ہیں۔ ڈرینیج سسٹم کئی دہائیوں پرانا ہے۔ ڈیمز کی تعمیر سیاسی چپقلش کی نذر ہو جاتی ہے اور سیلاب سے بچاؤ کا کوئی پائیدار منصوبہ دکھائی نہیں دیتا۔
عوام کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ادارے اکثر بارش کے ساتھ خود بہہ جاتے ہیں۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہمارا پورا سسٹم ہی غفلت میں ڈوبا ہوا ہے۔ایک تلخ بات یہ ہے کہ پورے ملک میں کوئی ایک ایسا شہر اور علاقہ نہیں ہے جہاں پر نکاسی آب کے راستوں اور نالوں پر قبضہ نہ کیا گیا ہو، ہر شہر اور علاقے میں بے ہنگم تعمیرات قائم نہ کی گئی ہوں۔ انسانوں کی گزر گاہوں پر مافیاز نے ڈیرے جما لیے ہیں اور انکے راستوں کے حقوق کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے وہاں پر پانی کے راستوں کا خیال کون رکھے؟ لاکھوں کیوسک پانی کا ریلا بستیوں کے نام و نشان مٹاتا سمندر برد ہو رہا ہے لیکن ہماری انتظامی اہلیت کنارے کھڑی بے بسی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔
سیلاب اور اس سے ملحقہ وبائیں کیا قہر ڈھانے کو ہیں، معلوم نہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹیکنالوجی، فرسٹ ایڈ، مربوط انتظامی ڈھانچوں پر فوری کام کرنا وقت کی پکار بن چکا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کی بروقت فراہمی 59 فیصد جانیں بچانے میں مدد دے سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی انتظامیہ آفات میں ریسکیو کرنے کے لیے ہیلی کاپٹرز تیار رکھتی ہے، یہاں عوام یہ خواہش رکھتے ہیں کہ کاش ہماری جانوں کی بھی قدروقیمت ہو۔مزید برآں یہ کہ سیلاب کی جاری تباہی کے ہم خود بھی تو ذمہ دار ہیں۔ ندی نالوں پر گھر بناتے ہیں، اور کوڑا کرکٹ انہی میں پھینکتے ہیں، قانونی ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم اپنے اردگرد کا ماحول کتنا آلودہ کر رہے ہیں؟ سیلاب کا پانی صرف بارش کا نہیں ہوتا، یہ ہمارے اپنے اعمال کا آئینہ بھی ہوتا ہے۔
اگر انسان نے اب بھی قدرت کے ساتھ ہم آہنگی نہ سیکھی، تو وہ دن دور نہیں جب نہ صرف قدرتی آفات مزید شدید ہوں گی، بلکہ نسلِ انسانی کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔