ڈیجیٹل تھکاوٹ کسے کہتے ہیں؟ اس سے کیسے نمٹا جائے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
انہوں نے بتایا کہ مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز میں اسکرینوں پر لمبے ٹائم تک کام کرنے سے گردن اور سر میں درد، چڑچڑا پن، آنکھوں میں چبھن اور افسردگی محسوس ہوتی ہے لیکن ہم اسے عام بات سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔
بے سکونی اور جسمانی تھکن کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متاثرہ شخص انزائیٹی ڈپریشن اور دیگر امراض کا شکار ہوجاتا ہے اگر اس کا فوری علاج اور احتیاط نہ کی جائے تو معاملہ سنگین صورتحال بھی اختیار کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر ثناء حسین نے بتایا کہ اسکرین پر جو بھی کام کریں تو کسی ایک موضوع پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں، مختلف موضوعات پر بلاوجہ ویڈیوز دیکھنا یا دیگر مواد دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ دماغ ہر چیز کو ہر وقت یاد نہیں رکھ سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ ساری معلومات ایک ساتھ ہی لے لی جائیں، ان سب مصروفیات کیلیے مخصوص وقت منتخب کریں اور اپنے لیے وقت نکالیں خود پر توجہ دیں، ورزش کریں، واک کریں اکیلے کھانا کھائیں وغیرہ۔
ذہنی دباؤ اور افسردہ رہنے کی وجہ سے بھی انسانی جسم میں توانائی کی سطح متاثر ہوجاتی ہے، اگر آپ کو کسی کام پر توجہ دینے اور بات چیت کرنے میں مشکل ہو اور ہر وقت منفی اور نااُمیدی محسوس ہونے لگے تو سب سے پہلے متعلقہ معالج سے فوری رجوع کریں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر دنیا کی ستاون اسلامی ریاستیں ایک دن کے لیے بھی صرف اپنے اسلامی شعور پر جمع ہو جائیں تو شاید اقوام متحدہ کا ایوان لرز جائے۔ شاید وائٹ ہائوس کی دیواریں پسینے سے بھیگ جائیں۔ شاید اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کو پہلی مرتبہ معلوم ہو کہ امت محمد ﷺ صرف خطبوں میں نہیں حقیقت میں بھی موجود ہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے پاس دفاعی اثاثے ہیں مگر کسی نظریے کے تابع نہیں۔ ہمارے پاس فوجی اتحاد ہے مگر بغیر کسی دشمن کے۔ ہمارے پاس معاشی قوت ہے مگر اپنی ہی ملت کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے مغرب کے بینکوں کو سونپ دی گئی ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے 10 بڑے تیل و گیس ذخائر اسلامی ممالک کے پاس ہیں؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی 2 ارب آبادی میں سے تقریباً ایک اعشاریہ نو ارب مسلمان ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان، ترکی، ایران، مصر، انڈونیشیا جیسے ممالک کے پاس ایسی عسکری قوت ہے کہ اگر صرف مشترکہ حکمتِ عملی بنائی جائے تو نیٹو کی آنکھیں پھٹ جائیں؟
تو پھر سوال یہ ہے کہ ہم کیوں نہیں متحد؟ کیوں ہمارا ہر اتحاد فوٹو سیشن اور اعلامیہ تک محدود ہے؟اسلامی فوجی اتحاد جو سعودی عرب کے ریاض میں قائم ہے، جس کے سربراہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہیں۔ کیا واقعی کوئی اتحاد ہے؟ اگر ہے تو اس نے آج تک کوئی فوجی کاروائی فلسطین کے لیے کیوں نہیں کی؟ کیوں غزہ پر بمباری کے دوران یہ اتحاد خاموش رہا؟ کیا فلسطینی بچے خواتین اور بوڑھے مسلمان اسلامی دفاع کے دائرے میں نہیں آتے؟
دوسری طرف او آئی سی ہے ایک سیاسی لاش۔ جس کے اجلاس ہوٹلوں کے عشائیوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ جس کا کام صرف شدید مذمت کے بیانات دینا رہ گیا ہے۔ جس میں شامل بعض ممالک اسرائیل سے خفیہ تعلقات قائم کر چکے ہیں اور بعض عوامی طور پر سفارت خانے کھولنے پر فخر کرتے ہیں۔
اگر آپ گہرائی سے دیکھیں، تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ضرور ہیں مگر امت نہیں۔”ہم پاکستانی، سعودی، ایرانی، ترک، انڈونیشین، مصری سب کچھ ہیں مگر صرف مسلمان نہیں۔ ہمیں قوم پرستی، نسل پرستی، مسلک پرستی اور مفاد پرستی نے جدا کر رکھا ہے۔ ایک ہی اللہ ایک ہی رسول، ایک ہی قرآن ہونے کے باوجود ہم ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے ہیں۔ایران نے اسرائیل کو للکارا تو عرب دنیا نے اسے شیعہ سازش قرار دے دیا۔ سعودی اتحاد نے خاموشی اختیار کی کیونکہ پالیسی کا حکم امریکہ سے آتا ہے۔ ترکی جو کبھی ملت اسلامیہ کی قیادت کرتا تھا اب خود مغرب سے تعلقات بچانے کی تگ و دو میں ہے۔اور پاکستان؟ پاکستان کو تو اپنے اندرونی مسائل سے ہی فرصت نہیں۔ مہنگائی، بدامنی اور سیاسی انتشار نے اسے عالمی کردار سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ حالانکہ پاکستان کے پاس ایٹمی طاقت، نظریاتی طاقت اور فوجی تجربہ ہے مگر قیادت میں وژن نہیں۔
یاد رکھیں۔۔! جب تک ہم اپنی سمت درست نہیں کریں گے تب تک ہماری ہر تنظیم، ہر اتحاد، اور ہر اجلاس صرف نئے زخموں کی لاشوں پر کانفرنسوں کے کتبے نصب کرے گا۔کیا یہ ممکن نہیں کہ او آئی سی کی قیادت مستقل ہو اور اسے صرف سعودی عرب یا ترکی کی جاگیر نہ سمجھا جائے؟ اسلامی فوجی اتحاد کو فعال کیا جائے اور اس کا واضح دشمن اسلام دشمن قوتیں قرار دی جائیں؟ کیا وقت نہیں آ گیا کہ امتِ مسلمہ محض جذباتی بیانات اور بے عمل قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اتحاد کی طرف قدم بڑھائے؟ ہم ڈی-ایٹ، او آئی سی اور اسلامی فوجی اتحاد جیسے ادارے تو بناتے ہیں مگر ان کی روح میں وہ غیرت، حکمت اور استقلال کیوں نظر نہیں آتا جو انہیں وقت کے چیلنجز کا جواب بناتا؟ کیوں نہ ڈی-ایٹ کو سودی نظام سے نجات کا ذریعہ بنایا جائے اور اسے اسلامی دنیا کا مشترکہ بیت المال بنا کر غریب مسلم اقوام کے لیے معاشی ڈھال بنایا جائے؟ کیوں نہ ایک عالمی مسلم میڈیا نیٹ ورک قائم کیا جائے جو بی بی سی اور سی این این کے جھوٹ کا جواب دے اور مظلوم مسلمانوں کی سچائی دنیا تک پہنچائے؟ اور کیوں نہ ایک ’’اسلامی سلامتی کونسل‘‘ بنائی جائے جو اعلان کرے کہ اگر ایک مسلمان ملک پر حملہ ہوگا تو سمجھا جائے گا کہ پوری امت پر حملہ ہوا ہے؟
امتِ مسلمہ کے پاس سب کچھ ہے ، وسائل، آبادی، تیل، گیس، فوجیں، اور سب سے بڑھ کر ایک مشترکہ عقیدہ۔ جو کمی ہے وہ صرف قیادت، اخلاص اور اتحاد کی ہے۔ اگر ہم نے اپنی صفوں میں وحدت پیدا کر لی اور اخلاص کے ساتھ اجتماعی منصوبہ بندی کی تو نہ صرف ہماری مظلوم قومیں سر اٹھا کر جی سکیں گی بلکہ دنیا کو بھی باور کروایا جا سکے گا کہ مسلمان محض تاریخ کے باسی نہیں، مستقبل کے معمار ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم خواب دیکھنا چھوڑ کر تعبیر کی جانب بڑھیں۔
یقین کریں، اگر یہ سب کر لیا جائے تو دنیا کی ترتیب بدل سکتی ہے۔ اسرائیل ہو یا بھارت، امریکہ ہو یا فرانس سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے متحد ہونے کی دیر ہے اور پھر کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔ لیکن شرط ایک ہے۔! اتحاد۔ اور اس اتحاد کی بنیاد اسلام ہے نہ کہ فرقے، قومیت یا جغرافیہ۔
میں ایک عام مسلمان ہوں۔ نہ حکمران نہ کمانڈر۔ مگر جب میں اپنے بچوں کو فلسطین کے لاشے دکھاتا ہوں، جب میں غزہ کے ملبے سے نکلتی چیخیں سنتا ہوں، جب میں اسرائیل کے جنگی طیارے دیکھتا ہوں اور میرے اپنے حکمران خاموش رہتے ہیں تو میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔کیا ہم واقعی ایسے وقت کے منتظر ہیں جب مسجد اقصی بھی ماضی بن جائے؟ جب بیت اللہ پر نظریں اٹھیں اور ہم صرف مذمتی بیان جاری کریں؟نہیں!اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ہر مسلم ملک کے گلی، کوچے، یونیورسٹی، مدرسے اور ادارے سے امت مسلمہ کو جگانے کی آواز بلند کریں۔اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے !