ڈیجیٹل تھکاوٹ کسے کہتے ہیں؟ اس سے کیسے نمٹا جائے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
انہوں نے بتایا کہ مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز میں اسکرینوں پر لمبے ٹائم تک کام کرنے سے گردن اور سر میں درد، چڑچڑا پن، آنکھوں میں چبھن اور افسردگی محسوس ہوتی ہے لیکن ہم اسے عام بات سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔
بے سکونی اور جسمانی تھکن کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متاثرہ شخص انزائیٹی ڈپریشن اور دیگر امراض کا شکار ہوجاتا ہے اگر اس کا فوری علاج اور احتیاط نہ کی جائے تو معاملہ سنگین صورتحال بھی اختیار کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر ثناء حسین نے بتایا کہ اسکرین پر جو بھی کام کریں تو کسی ایک موضوع پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں، مختلف موضوعات پر بلاوجہ ویڈیوز دیکھنا یا دیگر مواد دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ دماغ ہر چیز کو ہر وقت یاد نہیں رکھ سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ ساری معلومات ایک ساتھ ہی لے لی جائیں، ان سب مصروفیات کیلیے مخصوص وقت منتخب کریں اور اپنے لیے وقت نکالیں خود پر توجہ دیں، ورزش کریں، واک کریں اکیلے کھانا کھائیں وغیرہ۔
ذہنی دباؤ اور افسردہ رہنے کی وجہ سے بھی انسانی جسم میں توانائی کی سطح متاثر ہوجاتی ہے، اگر آپ کو کسی کام پر توجہ دینے اور بات چیت کرنے میں مشکل ہو اور ہر وقت منفی اور نااُمیدی محسوس ہونے لگے تو سب سے پہلے متعلقہ معالج سے فوری رجوع کریں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پاکستان کا اپنی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو عرب دنیا کے ـ’’بونا‘‘ سسٹم کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ
بڑھتے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہو کر بانڈز جاری کیے جائیں جن میں چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈز بھی شامل ہیں تاہم یورو بانڈ یا سکوک بانڈ جاری کرنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ یہ عالمی مارکیٹ کی طلب اور کم از کم ایک درجہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے بہتری پر منحصر ہے۔ پانڈا بانڈ دسمبر 2025 تک متوقع ہے اور اس کا پہلا لین دین 20 سے 25 کروڑ ڈالر کی حد میں ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان نے اپنی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو عرب دنیا کے ـ’’بونا‘‘ سسٹم کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ سسٹم عرب مانیٹری فنڈ (اے ایم ایف) کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ سرحد پار ادائیگیوں کے نظام کو مربوط کیا جائے گا لیکن یہ صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے رقوم وصول کرے گا۔ رقوم کی بیرون ملک منتقلی (آؤٹ فلوز) کی اجازت نہیں ہوگی۔ روزنامہ جنگ کیلئے مہتاب حیدر نے لکھا ہے کہ ادھر پاکستان 30 ستمبر 2025ء کو میچور ہونیوالے 50 کروڑ ڈالر کے یورو بانڈ کی ادائیگی کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب آئی ایم ایف کا جائزہ مشن اسلام آباد کا دورہ کرے گا تاکہ قرض پروگرام (EFF) کے تحت دوسرا جائزہ مکمل کیا جا سکے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے مختصر گفتگو میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کا کہنا تھا کہ ہم نے 30 ستمبر تک 50 کروڑ ڈالر یورو بانڈ کی ادائیگی کا بندوبست کر لیا ہے اور اس ادائیگی سے زرمبادلہ کے ذخائر پر کوئی دباؤ نہیں پڑے گا۔
مالی سال 2025-26 کے دوران 26 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہونا ہے، جن میں سے 3.5 ارب ڈالر پہلے ہی ادا کیے جا چکے ہیں۔ باقی واجب الادا قرضوں میں سے 9 ارب ڈالر دوست ممالک کی طرف سے دیئے گئے ڈپازٹس ہیں جو وقت آنے پر رول اوور کر دیئے جائیں گے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالر کے EFF معاہدے کے تحت 25 ستمبر سے اکتوبر کے پہلے ہفتے تک جائزہ مذاکرات طے ہیں۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک کے اس بیان سے کہ زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ نہیں پڑے گا، اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ یا تو اسلام آباد کو کسی بیرونی آمدنی کی توقع ہے یا مرکزی بینک مارکیٹ سے ڈالر خریدنے کا سلسلہ جاری رکھے گا تاکہ بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بڑھتے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہو کر بانڈز جاری کیے جائیں جن میں چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈز بھی شامل ہیں تاہم یورو بانڈ یا سکوک بانڈ جاری کرنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ یہ عالمی مارکیٹ کی طلب اور کم از کم ایک درجہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے بہتری پر منحصر ہے۔ پانڈا بانڈ دسمبر 2025 تک متوقع ہے اور اس کا پہلا لین دین 20 سے 25 کروڑ ڈالر کی حد میں ہوگا۔