امریکی و اسرائیلی جارحیت کے سامنے مغرب کی خاموشی پر ایران کی شدید تنقید
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر و مستقل نمائندے نے ایران کیجانب سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کا حوالہ دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ اگر ایران کیخلاف صیہونی رژیم کی جارحیت جاری رہی تو موجودہ سیکورٹی حالات کی وجہ سے ہم غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کو ایجنڈے میں شامل کرنے پر مجبور ہو جائینگے اسلام ٹائمز۔ "افغانستان کی صورتحال" کے عنوان سے منعقد ہونے والی سلامتی کونسل کی نشست کے ساتھ خطاب میں اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر و مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے، اس حوالے سے سلامتی کونسل کے مغربی اراکین بالخصوص امریکہ، برطانیہ و فرانس کے موقف پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، مغربی ممالک کی جانب سے روا رکھی جانے والی؛ معصوم عوام کی زندگیوں، انسانی اصولوں اور انسانی حقوق سے بے حسی پر شدید تنقید کی ہے۔ امیر سعید ایروانی نے تاکید کی کہ ان نمائندوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں معصوم لوگوں کی زندگیوں اور انسانی اصولوں کی کوئی فکر ہی نہیں، اور حتی کہ خواتین و دوشیزاؤں کی حمایت کے بارے ان کے تمام دعوے بھی کھوکھلے الفاظ کے سوا کچھ نہیں!
مغربی ممالک کے موقف میں پائے جانے والے دوہرے معیار اور منافقت کا ذکر کرتے ہوئے ایرانی سفیر نے کہا کہ اس سطح کی منافقت دیکھ کر واقعی افسوس ہوتا ہے، ایسے ممالک کہ جو "اپنے دفاع کے نام نہاد حق" کی آڑ میں صیہونی رژیم کی جارحیت کو بھی جواز فراہم کرنے میں مصروف ہیں! اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر نے ایران کے خلاف صیہونی رژیم کی کھلی جارحیت کے تسلسل پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس رژیم کی مسلسل و مجرمانہ جارحیتوں سے پیدا ہونے والے خطرات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ جو امریکہ کی مکمل حمایت سے انجام پا رہی ہیں؛ ایسے حملوں سے لاکھوں شہریوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے!
اپنی تقریر کے آخری حصے میں، غاصب صیہونی رژیم کی جاسوس تنظیم موساد کی جانب سے کرائے پر لئے گئے غیر ملکی تارکین وطن کی گرفتاریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امیر سعید ایروانی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی فراخدلی کے ساتھ میزبانی کی ہے، تاہم اگر امریکہ و متعدد مغربی ممالک کی شراکت اور تعاون سے ایران کے خلاف صیہونی رژیم کی جارحیت مزید جاری رہی تو اسلامی جمہوریہ ایران غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے لئے جاری موجودہ شرائط کو چھوڑ کر، غیر قانونی تارکین وطن کی فی الفور واپسی پر مجبور ہو جائے گا!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی رژیم کی تارکین وطن کی کرتے ہوئے
پڑھیں:
نیتن یاہو اور فوجی سربراہان میں اختلاف خطرناک حد تک شدید ہو چکا ہے، میڈیا ذرائع
میڈیا ذرائع کے بقول صیہونی فوج نے بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے چیف آف آرمی اسٹاف کو برطرف کر دینے کی دھمکیوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے چارہ ماہ تک صیہونی فوجیوں کی سروس معطل کر دی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مختلف میڈیا ذرائع نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور صیہونی فوج کے درمیان اختلافات کی شدت خطرناک حد تک بڑھ جانے کا اعلان کیا ہے۔ حال ہی میں صیہونی فوج نے آئندہ چار ماہ تک صیہونی فوجیوں کی سروس معطل کر دی ہے جبکہ نیتن یاہو غزہ پر مکمل فوجی قبضے کی باتیں کر رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی رژیم کے سیاسی اور فوجی سربراہان کے درمیان نہ صرف شدید اختلافات پیدا ہو چکے ہیں بلکہ نیتن یاہو کے بیٹے کے بقول فوج نے ایک طرح سے نیتن یاہو کے خلاف بغاوت کر دی ہے اور غزہ میں جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ صیہونی فوج کا یہ فیصلہ بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے چیف آف آرمی اسٹاف کو غزہ جنگ جاری رہنے کی مخالفت کرنے کے باعث برطرف کر دینے کی بار بار کی دھمکیوں کا ردعمل قرار دیا جا رہا ہے۔ پیر کی رات ایک خبر شائع ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے فوجی اور سیکورٹی سربراہان کی مرضی کے برخلاف غزہ میں جنگ کا دائرہ بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نیتن یاہو غزہ کی پٹی پر مکمل فوجی قبضہ کرنے کے درپے ہے۔ دوسری طرف صیہونی فوج نے فوجیوں کی شدید کمی کے باعث فوجی سروس لازمی ہونے کا وہ قانون چار مہینے تک معطل کر دیا ہے جو 7 اکتوبر 2023ء کے بعد وضع کیا گیا تھا اور اس کے تحت تمام صیہونیوں پر فوجی سروس لازمی قرار دی گئی تھی۔
صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوت اس بارے میں لکھتا ہے: "فوج نے وزیراعظم کی دھمکیوں پر سرکاری طور پر تو کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن ایسا اقدام انجام دیا ہے جو یوں ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی پٹی پر مکمل فوجی قبضے کی پیشکش کا ردعمل ہے۔" یہ اخبار مزید لکھتا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف ایال ضمیر کا یہ فیصلہ نہ صرف غزہ جنگ کے عملی اختتام کو ظاہر کرتا ہے جو گذشتہ برس واقع ہوا تھا بلکہ "گیڈئون کی رتھیں" نامی غزہ میں جاری فوجی آپریشن میں موجود فوجیوں کی تعداد کم از کم حد تک پہنچا دے گا۔ دوسرے الفاظ میں صیہونی فوج کا یہ فیصلہ غزہ میں جاری محدود لڑائی کو مزید محدود کر دے گا کیونکہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران اسپشل یونٹس اور بٹالینز میں فوجیوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے بیٹے یائیر نیتن یاہو نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنے پیغام میں چیف آف آرمی اسٹاف ایال ضمیر پر والد کے خلاف فوجی بغاوت کا الزام عائد کیا ہے۔ اس نے ایال ضمیر کی جانب سے غزہ جنگ جاری رکھنے کی مخالفت کرنے کے بارے میں لکھا: "اگر یہ موقف اختیار کرنے والا وہی شخص ہے جسے ہم سب جانتے ہیں (ایال ضمیر) تو یہ ایک فوجی بغاوت ہے جو 1970ء کی دہائی میں مرکزی امریکہ میں موذی ریپبلکنز کی یاد دلاتی ہے۔"
اس سے پہلے صیہونی چیف آف آرمی اسٹاف ایال ضمیر نے خبردار کیا تھا کہ نیتن یاہو کی کابینہ نے گذشتہ طویل عرصے سے فوجی سربراہان سے میٹنگ نہیں رکھی اور غزہ جنگ کے مستقبل کے بارے میں پالیسی واضح نہیں ہے۔ ایال ضمیر نے کہا تھا کہ نیتن یاہو نے غزہ میں فوج کو خطرے میں ڈال رکھا ہے جس کی وجہ سے فوج کو شدید نقصان ہوا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ غزہ پر مکمل فوجی قبضے اور وہاں سے حماس کے مکمل خاتمے کے لیے چند سال کا وقت درکار ہے جبکہ صیہونی فوج شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے اور جنگ مزید جاری نہیں رکھ سکتی۔ صیہونی ٹی وی چینل 12 نے فاش کیا ہے کہ صیہونی چیف آف آرمی اسٹاف ایال ضمیر اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان اختلاف کی شدت کے باعث پیدا شدہ بحران ایسے مرحلے میں پہنچ چکا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کے مستعفی ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے، خاص طور پر اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے لیے جاری مذاکرات ناکامی کا شکار ہو جائیں۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوت اس بارے میں لکھتا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف ایال ضمیر اس وقت بہت مشکل انتخاب سے روبرو ہے۔ وہ اس وقت ایسے شخص کی طرح ہے جو میدان جنگ میں حاضر ہے اور اس کے پاس صرف ایک ہی گولی باقی بچی ہے۔ یوں اگر قیدیوں کے تبادلے کے لیے جاری مذاکرات ناکامی کا شکار ہوتے ہیں تو شاید اس کے پاس استعفی دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔