روایتی طور پر اس نوعیت کی پیشرفت کے بارے میں سرکاری ذرائع سے آگاہی دی جاتی ہے، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حسبِ معمول روایت سے ہٹ کر اپنی ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے اعلان کیا، جو ان کے طرز سیاست کا خاصا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اعلان کے وقت کا تعین بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ اعلان امریکی وقت کے مطابق شام 7 بجے کیا گیا، یعنی ایسے وقت میں جب عوام کی توجہ اس جانب مرکوز ہو سکتی تھی۔ مشرقِ وسطیٰ میں اس وقت رات کا پہر تھا، لیکن امریکا میں لوگ جاگ رہے تھے اور خبروں پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر راضی ہوگئے، صدر ٹرمپ کا اعلان

خاص طور پر ایران کے جوہری مراکز پر امریکی حملوں کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اکثریتی امریکی شہری اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ قوم میں ایک بےچینی کی لہر دوڑ گئی ہے اور لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آیا یہ اقدام درست تھا یا نہیں۔

امریکی عوام کو سب سے بڑا خدشہ یہ لاحق ہے کہ کہیں امریکا ایک اور طویل المدتی، نام نہاد ہمیشہ کی جنگ میں نہ الجھ جائے، جیسا کہ عراق اور افغانستان میں ہوا۔ ایسی جنگیں جن سے عوام عاجز آ چکے ہیں، اور جن سے بچنے کا وعدہ خود ٹرمپ نے اپنے انتخابی منشور میں کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی شہری انتخابی منشور ایران اسرائیل جنگ بندی جوہری مراکز صدر ٹرمپ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکی شہری ایران اسرائیل جنگ بندی جوہری مراکز

پڑھیں:

ابراہیم معاہدوں میں نیا ملک شامل، امریکا کی جانب سے آج اعلان متوقع

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اعلان کیا ہے کہ ایک نیا ملک باضابطہ طور پر اسرائیل کے ساتھ ابراہیم معاہدوں میں شامل ہونے جا رہا ہے تاہم انہوں نے ملک کا نام ظاہر نہیں کیا۔

وٹکوف نے میامی فلوریڈا میں ایک بزنس فورم کے دوران گفتگو کرتے ہوئے  کہا کہ میں آج رات واشنگٹن واپس جا رہا ہوں کیونکہ ہم آج ایک اور ملک کے ابراہیم معاہدوں میں شمولیت کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اعلان کا امکان شام وہائٹ ہاؤس میں ہونے والے ایک خصوصی عشایے کے دوران ہے، جس کی میزبانی صدر ٹرمپ کریں گے،  اس عشایے میں وسطی ایشیائی ممالک قازقستان، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور کرغیزستان کے رہنما شریک ہوں گے۔

اگرچہ ابھی تک ملک کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، لیکن امریکی ویب سائٹ ایکسِیوس (Axios) نے دعویٰ کیا ہے کہ ابراہیم معاہدوں میں شامل ہونے والا نیا ملک قازقستان ہے، جس کے اسرائیل کے ساتھ 1992 سے سفارتی تعلقات موجود ہیں۔

خیال رہے کہ ابراہیم معاہدے ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں اسرائیل اور کئی مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان تعلقات بحال کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ اب تک چار ممالک — بحرین، مراکش، سوڈان، اور متحدہ عرب امارات — ان معاہدوں میں شامل ہو چکے ہیں۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل کو غزہ پر دو سالہ جنگ کے باعث عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ جنگ کے دوران اب تک تقریباً 70 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ متعدد ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع یا فلسطین کو باضابطہ تسلیم کرلیا ہے۔

خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • شمالی کوریا نے امریکی پابندیوں کا جواب دینے کا اعلان کردیا
  • آج ایک اور ملک ابراہم معاہدے میں شامل ہونے جا رہا ہے، اسٹیو وٹکوف
  • ابراہیم معاہدوں میں نیا ملک شامل، امریکا کی جانب سے آج اعلان متوقع
  • غزہ کی تعمیر نو میں اسرائیلی کردار پر سوال کیوں پوچھا؟ اطالوی صحافی ملازمت سے برطرف
  • گوگل نے اسرائیل کے جرائم کی ویڈیو دستاویزات حذف کر دیں
  • اسلامی انقلاب ایران عوام میں مکتبِ فاطمیہ کی حقیقت طلبی کی تجلی ہے، آیت اللہ جنتی
  • حوزہ ہائے علمیہ ایران کی جانب سے سوڈان کے افسوسناک واقعات کی سخت مذمت
  • صیہونی جارحیت کے مقابلے میں پاکستان نے فیصلہ کن کردار اداکیا، ایرانی سفیر
  • سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے: ٹرمپ کا دعویٰ
  • سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے: ٹرمپ