قطر میں ائیر بیس پر ایرانی حملہ: خلیج کی حالیہ بند فضائی حدود کھل گئیں، ہزاروں پروازیں درہم برہم
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
ایران(نیوز ڈیسک)ایران کی جانب سے دوحہ میں امریکی ائیر بیس پر میزائل حملے کے باعث پورے خطے کا فلائٹ آپریشن شدید متاثر ہوا ہے،کئی گھنٹے کی بندش کے بعد قطر، کویت ، بحرین نے اپنی فضائی حدود کھول دیں۔
امارات اور سعودی عرب کی جانب سے فضائی حدود بند کرنے کا کوئی اعلان نہ کیے جانے کے باوجود فلائٹ آپریشن شدید متاثر ہوا۔
دبئی، ابوظہبی، شارجہ، راس الخیمہ، ریاض، جدہ، مدینہ، بحرین، کویت، مسقط اور دیگر ایئرپورٹس کی سیکڑوں پروازیں مختلف ائیرپورٹس پر اتاری گئیں یا جہاں سے یہ پروازیں روانہ ہوئی تھیں وہاں واپس موڑ دی گئیں۔
دوحہ ائیرپورٹ مکمل بند ہونے کی وجہ سے 200 سے زائد پروازوں کو متبادل ائیرپورٹس پر موڑا گیا یا مختلف ائیرپورٹس پر پروازوں کی روانگی روک دی گئی۔
اچانک فضائی حدود بند ہونے کی وجہ سے دوحہ ائیرپورٹ پر موجود 200 پروازوں کی روانگی متاثر ہوئی۔ قطر سمیت مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک میں فضائی حدود کی بندش اور قطر ائیرویز کی پروازوں کی معطلی کی وجہ سے درجنوں پروازوں نے یورپ کا رخ کیا یا واپس چلی گئیں۔
دوحہ ائیرپورٹ پر روانگی کے منتظر کئی ہزار مسافر پریشانی کا شکار ہیں۔
اسی طرح بحرین ائیرپورٹ پر بھی 150 پروازوں کی آمد روانگی روکی گئی۔ کویت سٹی ائیرپورٹ سے بھی 100 پروازوں کی آمد روانگی روکی گئی۔
کراچی اسلام اباد لاہور اور دیگر شہروں سے بحریں ، شارجہ ، ریاض ، ابوظہبی، دمام، مدینہ مسقط کی 14 پروازوں کو واپس موڑ دیا گیا جن میں سے 3 پروازوں کو مسقط ائیرپورٹ پر اتارا گیا۔
ملک کے 7 بڑے ائیرپورٹس سے 30 پروازوں کی روانگی کئی گھنٹے تک روکے رکھی گئی۔
تاہم 2 گھنٹے بعد دبئی اور ابوظہبی ائیرپورٹ پر پروازوں کی آمد اور روانگی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
قومی ائیر لائن پی آئی اے کی جانب سے بھی فلائٹ آپریشن عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔
ائیر کینیڈا، ائیر فرانس، برٹش ائیر، یونائیٹڈ ائیر، سنگاپور ائیر سمیت دنیا بھر کی 20 سے زائد بڑی ائیر لائنز نے خلیج کے لیے پروازیں معطل کرنا شروع کر دی ہیں جبکہ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ہزاروں مسافر بھی سفر سے گریز کرنے لگے ہیں۔
ترکش ایئرلائنز نے بحرین، دمام، دوحہ، دبئی، کویت، ابوظہبی، اور مسقط کی آج کی پروازیں منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مصر نے بھی خلیج کے لیے فلائٹ آپریشن معطل کیا ہے۔
عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت گرگئی
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ائیرپورٹ پر پروازوں کی کی وجہ سے
پڑھیں:
واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج
واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج WhatsAppFacebookTwitter 0 8 August, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
2000 کی دہائی کے اوائل سے ہندـامریکہ تعلقات کو عموماً بڑھتے ہوئے تزویراتی اشتراک کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے، خاص طور پر دفاعی تعاون، تجارت، اور چین کے ابھار پر مشترکہ تشویش جیسے شعبوں میں۔ تاہم، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت (2017–2021) میں یہ تعلقات متعدد غیر متوقع نشیب و فراز، سفارتی سرد مہری کے لمحات، اور خاص طور پر امریکی جانب سے برملا عدم اطمینان کے اظہار کا شکار ہوئے۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں کے درمیان ”قدرتی اتحاد” کے تصور کے برعکس، ٹرمپ انتظامیہ کا بھارت کے ساتھ رویہ اکثر ٹھنڈی حقیقت پسندی اور واضح ناراضی سے عبارت تھا۔ اوباما دور کی پرامیدی سے یہ انحراف ایک تفصیلی تجزیے کا متقاضی ہے۔
صدر ٹرمپ، جو اپنی لین دین پر مبنی خارجہ پالیسی کے لیے معروف تھے، نے متعدد مواقع پر بھارت کے حوالے سے اپنی مایوسی کا کھلے عام اظہار کیا۔ اس کی ایک ابتدائی مثال 2 جنوری 2018 کو سامنے آئی، جب انہوں نے پاکستان کے خلاف ایک سخت ٹویٹ کی، جس میں کہا گیا کہ امریکہ نے ”گزشتہ 15 برسوں میں بیوقوفی سے پاکستان کو 33 ارب ڈالر سے زائد امداد دی” لیکن بدلے میں ”صرف جھوٹ اور دھوکہ” ملا۔ اگرچہ یہ ٹویٹ اسلام آباد کے خلاف تھی، لیکن اس میں بالواسطہ طور پر جنوبی ایشیا سے متعلق واشنگٹن کی پالیسی میں اس تبدیلی کا اشارہ موجود تھا، جس میں خطے کے اتحادیوں، بشمول بھارت، پر یہ دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ اپنے مفادات کو عملی اور قابلِ پیمائش انداز میں ثابت کریں۔
بھارت سے ٹرمپ کی ناراضی تجارتی مذاکرات کے دوران مزید واضح ہو گئی۔ 5 جون 2019 کو امریکہ نے باقاعدہ طور پر بھارت کو جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز (جی ایس پی) کے تحت ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے خارج کر دیا، جس سے بھارت کی 5.6 ارب ڈالر کی برآمدات متاثر ہوئیں۔ امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر نے مؤقف اختیار کیا کہ بھارت ”اپنی منڈیوں تک منصفانہ اور معقول رسائی” دینے میں ناکام رہا۔
اگرچہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے صدر ٹرمپ کے ساتھ بظاہر قریبی تعلقات کا مظاہرہ کیا، خاص طور پر 22 ستمبر 2019 کو ہیوسٹن میں منعقدہ”ہیاؤڈی مودی”تقریب میں، جہاں دونوں رہنماؤں نے 50 ہزار سے زائد افراد کے مجمعے سے خطاب کیا، تاہم اس دوستانہ ماحول کے پسِ پردہ کئی بنیادی مسائل بدستور حل طلب رہے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں بھارت کی جمہوریت اور معیشت کی تعریف کی، لیکن بعد میں دیے گئے انٹرویوز اور پالیسی اقدامات میں تجارتی کشیدگی جوں کی توں برقرار رہی۔
دفاعی شعبے میں اگرچہ بھارت نے” سی او ایم سی اے ایس اے” (6 ستمبر 2018) اور ”بی ای سی اے” (27 اکتوبر 2020) جیسے اہم معاہدوں پر دستخط کیے، لیکن روس سے 5 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا سی 400 میزائل نظام خریدنے کے فیصلے نے واشنگٹن کو ناراض کر دیا۔ امریکی حکام، بشمول اُس وقت کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے جون 2019 میں نئی دہلی کے دورے کے دوران بھارت کو خبردار کیا کہ اگر وہ یہ معاہدہ جاری رکھتا ہے تو اسے ” سی اے اے ٹی سی اے” کے تحت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارت نے اس انتباہ کے باوجود پیچھے ہٹنے کا کوئی اشارہ نہ دیا۔
امریکہ کو یہ بھی تشویش رہی کہ بھارت نے ایشیا میں امریکی اسٹریٹجک اہداف کے ساتھ براہِ راست ہم آہنگی اختیار کرنے سے گریز کیا۔ واشنگٹن چاہتا تھا کہ بھارت انڈو پیسفک خطے میں زیادہ فعال کردار ادا کرے۔ 2017 کی امریکی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹیجی میں بھارت کو کلیدی شراکت دار قرار دیا گیا تھا، تاہم امریکی پالیسی ساز بھارت کے محتاط رویے سے مایوس ہوتے گئے۔ بھارت نے کواڈ اجلاسوں اور مالابار بحری مشقوں میں شرکت کی، مگر چین کے ساتھ کشیدگی کو سفارتی دائرے سے آگے لے جانے سے گریز کیا، خاص طور پر 2017 کے ڈوکلام تنازع اور جون 2020 میں گلوان وادی جھڑپ کے دوران۔
ایک اور اہم واقعہ جو اعتماد میں کمی کا باعث بنا، وہ صدر ٹرمپ کا 22 جولائی 2019 کو وزیرِ اعظم عمران خان کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس میں دیا گیا ایک بیان تھا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیرِ اعظم مودی نے ان سے کشمیر پر ثالثی کی درخواست کی ہے۔ ٹرمپ نے کہا: ”میں دو ہفتے قبل وزیرِ اعظم مودی کے ساتھ تھا، اور انہوں نے واقعی کہا،’کیا آپ ثالث یا مصالحت کار بننا پسند کریں گے؟”’ بھارتی وزارتِ خارجہ نے فوری طور پر اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ”ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی” اور کشمیر ایک دوطرفہ معاملہ ہے۔
صدر ٹرمپ کا پاکستان کی جانب جھکاؤ ہندـامریکہ تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا گیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنی صدارت کے آغاز میں اسلام آباد پر سخت تنقید کی تھی، مگر 2019 کے وسط تک اُن کا لہجہ خاصا نرم ہو چکا تھا، خاص طور پر جب پاکستان نے افغانستان میں امریکہـطالبان امن مذاکرات میں کردار ادا کیا۔ جولائی 2019 میں عمران خان کے دورہ واشنگٹن کے دوران، ٹرمپ نے پاکستان کے ”زبردست تعاون” پر شکریہ ادا کیا اور مستقبل میں ”بہت اچھے تعلقات” کی امید ظاہر کی۔ یہ مؤقف نئی دہلی کی اس توقع کے برعکس تھا کہ اُڑی اور پلوامہ واقعات کے بعد واشنگٹن بھارت کے ساتھ زیادہ مضبوطی سے کھڑا ہوگا۔
روس کے ساتھ بھارت کے مسلسل تعلقات ٹرمپ کے بعد بھی کشیدگی کا باعث بنے رہے۔ فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بائیڈن انتظامیہ اور نیٹو اتحادیوں نے ماسکو پر سخت پابندیاں عائد کیں اور عالمی شراکت داروں، بشمول بھارت، سے مغربی اتحاد میں شامل ہونے کی توقع کی۔ تاہم بھارت نے ایک متوازن، غیر جانبدارانہ مؤقف اختیار کیا۔ اُس نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف کئی قراردادوں میں ووٹنگ سے اجتناب کیا اور روس کے ساتھ سفارتی و اقتصادی روابط جاری رکھے۔
ایک بڑا نقط? اختلاف بھارت کی جانب سے روسی خام تیل کی رعایتی نرخوں پر بڑھتی ہوئی درآمدات تھا۔ جب مغرب روس کو اقتصادی طور پر تنہا کر رہا تھا، بھارت نے اپنی قومی توانائی کی ضروریات اور قیمتوں میں استحکام کا حوالہ دیتے ہوئے خریداری میں اضافہ کیا۔ 2022 کے آخر تک روس، عراق اور سعودی عرب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بھارت کا سب سے بڑا تیل فراہم کرنے والا ملک بن چکا تھا۔ امریکی اور یورپی حکام نے اس پر تنقید کی، مگر بھارت نے اپنے مؤقف کا بھرپور دفاع کیا۔ اپریل 2022 میں واشنگٹن میں ایک پریس بریفنگ کے دوران جب بھارتی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر سے روسی تیل کی خریداری پر سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا: ”اگر آپ روس سے توانائی کی خریداری کو دیکھ رہے ہیں تو میں تجویز کروں گا کہ آپ کی توجہ یورپ پر ہونی چاہیے… ہم کچھ توانائی ضرور خریدتے ہیں، جو ہمارے توانائی کے تحفظ کے لیے ضروری ہے”۔
یہیں وہ گہرا سوال جنم لیتا ہیکہ کیا یہ سفارتی سرد مہری صرف تیل کی خریداری سے جڑی ہے، یا اس کے پیچھے وہ بڑھتی ہوئی امریکی بے چینی ہے جو بھارت کے برکس میں کردار، گلوبل ساؤتھ سے اس کی معاشی وابستگی، اور امریکی ڈالر کی عالمی بالادستی کو چیلنج کرنے کی صلاحیت سے متعلق ہے؟ بھارت، چین، روس، برازیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر برکس میں متبادل ادائیگی نظام کو فروغ دے رہا ہے، جن میں قومی کرنسیوں میں تجارت اور غیر ڈالر ذخیرہ جاتی نظام کی توسیع شامل ہے۔ امریکہ، جو عالمی معاشی اثرورسوخ اور پابندیوں کے نظام کو قائم رکھنے کے لیے ڈالر پر انحصار کرتا ہے، کے لیے یہ رجحان اسٹریٹجک طور پر باعثِ تشویش ہے۔ اگرچہ بھارت کھلے عام مغرب کا مخالف نہیں، لیکن مالیاتی کثیر القطبیت کی اس کی کوششیں — جیسا کہ روس کو روپے میں توانائی کی ادائیگی اور غیر ڈالر لین دین میں شرکت — امریکی قیادت میں قائم اقتصادی غلبے کو چیلنج کرتی ہیں۔ واشنگٹن کے نقط? نظر سے، یہی عوامل نہ صرف نئی دہلی پر دباؤ کا باعث ہیں بلکہ ان ادوار میں سرد رویے کی بھی وضاحت کرتے ہیں، جب بظاہر تعلقات خوشگوار نظر آتے ہیں۔
یہ صورتحال بھارت کے ایک دیرینہ اصول کو اجاگر کرتی ہے — اتحاد پر انحصار کے بجائے ”کثیر جہتی ہم آہنگی”۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان توقعات کا عدم توازن ایک مستقل حقیقت ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت روس اور چین دونوں کے خلاف مغربی کیمپ میں مکمل طور پر شامل ہو، جبکہ بھارت اپنے مفادات کو علاقائی توازن، تزویراتی خودمختاری، اور اقتصادی ضرورت کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ امریکی بے صبری، خواہ وہ ٹرمپ کے دور میں ہو یا بائیڈن کے، اس بنیادی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکی۔
ماضی کے تناظر میں، ٹرمپـمودی دور ایک تضاد کا حامل تھا؛ عوامی سطح پر دوستی اور گرم جوشی کے مظاہرے درحقیقت پالیسی کی سطح پر موجود اختلافات کو چھپا رہے تھے۔ دوستی حقیقی تھی، مگر مشروط۔ ٹرمپ چاہتے تھے کہ بھارت ”زیادہ خریدے، زیادہ کرے، اور زیادہ ہم آہنگ ہو”۔ لیکن امریکی نقط? نظر سے بھارت اُن کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکا۔
لہٰذا، ٹرمپ کے دورِ صدارت — اور اس کے بعد بھی — ہندـامریکہ تعلقات میں جو سرد مہری دکھائی دی، وہ کسی ایک بڑے واقعے کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ پوری نہ ہونے والی توقعات، متصادم سفارتی رویّوں، اور متضاد قومی مفادات کا حاصل تھی۔ اگر کچھ ثابت ہوا، تو وہ یہ کہ اسٹریٹجک شراکت داری صرف مسکراہٹوں اور نعروں سے قائم نہیں ہوتی — اس کے لیے اعتماد، ایک دوسرے کی سرخ لکیروں کا احترام، اور سب سے بڑھ کر، حقیقت پسندانہ توقعات ضروری ہوتی ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی نیلامی رکوانے کی درخواست مسترد کر دی آزادی کا مطلب کیا؟ — تجدیدِ عہد کا دن اوورسیز پاکستانی: قوم کے گمنام ہیرو اسلام میں عورت کا مقام- غلط فہمیوں کا ازالہ حقائق کی روشنی میں حرام جانوروں اور مردار مرغیوں کا گوشت بیچنے اور کھانے والے مسلمان “کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم