مینوسفیئر کے ذریعے خواتین کے خلاف بڑھتی نفرت پر یو این ویمن کو تشویش
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جون 2025ء) خواتین و لڑکیوں کے خلاف تعصب اور نفرت پر مبنی 'مینوسفیئر' کے نام سے بڑھتا ہوا آن لائن کمیونٹی نیٹ ورک صنفی مساوات کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے جو اب لوگوں کے طرزعمل، رویوں اور سرکاری پالیسیوں پر بھی اثرانداز ہونے لگا ہے۔
خواتین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ویمن' نے کہا ہے کہ دنیا میں 5.
(جاری ہے)
یو این ویمن میں خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے خاتمے سے متعلق شعبے کی سربراہ کیلییوپی مائنگیرو کا کہنا ہے کہ نوعمر مردوں اور لڑکوں میں اپنی خواتین ساتھیوں سے ملاقات، تندرستی اور بطور باپ طرزعمل اور ذمہ داریوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بااثر شخصیات (انفلوئنسر) کی پیروی کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
خود کو مزید محفوظ بنانے کے لیے جوابات کی تلاش میں یہ لوگ ان آن لائن گروہوں سے 'طاقت' پاتے ہیں جو ایسے نقصان دہ رویوں کو فروغ دے رہے ہیں جس سے مردانگی میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور خواتین کے خلاف تعصب کو تقویت ملتی ہے۔کیلییوپی مائنگیرو نے یو این نیوز کو بتایا کہ ایسی آن لائن جگہوں پر نوعمر مردوں اور لڑکوں کے عدم تحفظ اور توثیق کی خواہش و ضرورت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور ایسے پیغامات پھیلائے جاتے ہیں جو معاشرے میں خواتین اور لڑکیوں کی حیثیت کے حوالے سے نہایت نامعقول ہوتے ہیں۔
ان میں خواتین کے خلاف تعصب اور نفرت کا اظہار ہوتا ہے اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو غلط اور برا قرار دیا جاتا ہے۔مردوں کی صحت کے حوالے سے نمایاں تنظیم اور یو این ویمن کی شراکت دار 'موومبر فاؤنڈیشن' کے مطابق، دو تہائی نوعمر مرد انٹرنیٹ پر ایسی شخصیات سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں جو مردانگی کی بات کرتی ہیں۔ اگرچہ کچھ آن لائن مواد سے مردوں اور لڑکوں کو حقیقی مدد بھی ملتی ہے لیکن بیشتر میں انتہاپسندانہ زبان اور جنس پرستانہ نظریات کو فروغ ملتا ہے اور اس تصور کو تقویت دی جاتی ہے کہ مرد نسائیت اور جدید سماجی تبدیلی کے متاثرین ہیں۔
خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مونوسفیئر میں شامل گروہ نسائیت کے استرداد اور خواتین کو سازشی یا خطرناک قرار دینے میں متحد ہیں۔
سوشل میڈیا کے الگورتھم بھی اشتعال انگیز اور تقسیم کا باعث بننے والے بیانیوں اور مواد کو تقویت دے رہے ہیں۔
جمہوریت کے لیے خطرہکیلییوپی مائنگیرو کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر شناخت کو خفیہ رکھنے کی سہولت کے باعث جنس پرستی اور اظہار نفرت کو پھیلانا آسان ہو گیا ہے۔
بدسلوکی سے متاثرین کو ذہنی و جسمانی نقصان ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے عمومی طور پر جمہوریت کو بھی سنگین خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ایسی صورتحال میں خواتین اور لڑکیاں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر خود کو لاحق خطرات کو لے کر پریشانی محسوس کرتی ہیں اور بہت سی خواتین صحافی اور سیاست دان ایسی جگہوں پر نہیں آتیں۔
انہوں ںے کہا ہے کہ یہ چیزیں پریشانی کو جنم دیتی ہیں اور مرد یا لڑکے بھی اس سے محفوظ نہیں رہتے۔
ان حالات میں ایسی محفوظ آن لائن جگہیں بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہر ایک کو نقصان دہ مواد سے محفوظ رہتے ہوئے رہنمائی مل سکے۔ثقافتی و سیاسی اثراتمونوسفیئر کے نقصان دہ بیانیے خفیہ آن لائن جگہوں تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ ان کے اثرات وسیع تر ثقافت و سیاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کے ذریعے صنفی بنیاد پر تشدد کو غیراہم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور خواتین کے خلاف تفریقی دقیانوسی تصورات کو تقویت ملتی ہے۔
بعض اوقات یہ تصورات دیگر طرح کے نظریات بشمول بنیاد پرستی، نسل پرستی اور غیرملکیوں سے نفرت کے ساتھ بھی متقاطع ہوتے ہیں۔ خواتین کے خلاف آن لائن دنیا میں نفرت اور تعصب بہت جلد آف لائن دنیا میں بھی پھیل جاتا ہے۔
کیلییوپی مائنگیرو کہتی ہیں کہ لوگوں پر فائرنگ کے بہت سے واقعات میں بیشتر ملزم ایسے ہی آن لائن پلیٹ فارم سے وابستہ تھے جو نفرت کو ہوا دیتے اور سبھی کی زندگیوں کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔
یہ گروہ یک آواز نہیں ہوتے لیکن سبھی نسائیت کو خطرناک چیز، خواتین کو سازشی اور مردوں کو سماجی تبدیلی کے متاثرین قرار دیتے ہیں۔ ان کے تصورات نوعمر مردوں اور لڑکوں میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں اور ایسے الگورتھم انہیں عام کر رہے ہیں جو سنسنی خیز اور شدت پسندانہ مواد کو پھیلاتے ہیں۔ مونوسفیئر کے بیانیے اب انٹرنیٹ کے کونوں کھدروں تک محدود نہیں رہے بلکہ لوگوں کی سوچ، ان کی رائے دہندگی اور دوسروں کے ساتھ طرزعمل پر بھی اثرانداز ہونے لگے ہیں۔
بیجنگ اعلامیے اور پلیٹ فارم فار ایکشن کو 30 سال مکمل ہونے پر یو این ویمن نے ٰخبردار کیا ہے کہ خواتین کے خلاف آن لائن تعصب اور نفرت سے صنفی مساوات کے لیے اب تک ہونے والی پیش رفت کو براہ راست خطرہ لاحق ہے۔
ادارہ اسی خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کے خلاف زہرآلود ڈیجیٹل ماحول سے نمٹنے کی کوششوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس حوالے سے کثیرجہتی طریقہ کار درج ذیل اقدامات کا احاطہ کرتے ہیں:
آن لائن اظہار نفرت کے پھیلاؤ اور اثرات پر تحقیق اور مواد کی تیاری۔ڈیجیٹل تحفظ اور ضابطہ کاری کے لیے پالیسی سازی۔آن لائن بدسلوکی کے متاثرین کی مدد۔نفرت انگیز مردانگی سے نمٹںے کے لیے عوامی آگاہی کی مہمات۔ڈیجیٹل استحکام اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے نوجوانوں پر مبنی پروگراموں کی تیاری۔میڈیا سے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مزید فعال کردار ادا کرنے کا مطالبہ۔تعلیم کے ذریعے روک تھامکیلییوپی مائنگیرو نے کہا ہے کہ بالآخر تعلیم ہی خواتین سے نفرت کے تصور کی بنیاد کو ختم کرنے کا موثر ترین ذریعہ ہے۔
بچوں اور نوعمر افراد سے صنفی مساوات، صحت مند تعلقات اور ڈیجیٹل طرزعمل کے بارے میں بات کرنا بہت ضروری ہے اور اس طرح نقصان دہ رویوں کو جڑ پکڑنے سے روکا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کا مقصد محض لڑکیوں کو تحفظ دینا نہیں بلکہ اس کا تعلق ایسی دنیا کی تعمیر سے ہے جہاں تمام لڑکے اور لڑکیاں نقصان دہ صنفی توقعات کے دباؤ سے آزاد ہو کر یکساں طور سے آگے بڑھ سکیں۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مردوں اور لڑکوں خواتین کے خلاف صنفی مساوات یو این ویمن خواتین اور سوشل میڈیا اور خواتین میں خواتین پلیٹ فارم کو تقویت کے ذریعے حوالے سے آن لائن رہے ہیں ہیں اور کرنے کا جاتا ہے کے لیے ہیں جو ہے اور
پڑھیں:
گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے اور خائن حکومت کی بے حسی پر شامی عوام میں تشویش کی لہر
سیاسی تجزیہ کار وائل امین نے اس حوالے سے کہا ہے کہ صیہونی حکومت نے عملی طور پر جنوبی شام پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور احمد الشعراء (جولانی) کا اس علاقے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شام کی سرزمین پر صیہونی حکومت کی جارحیت اور قبضے کی توسیع کا حوالہ دیتے ہوئے مقامی نیوز نیٹ ورک نے خبر دی ہے کہ گولان کی پہاڑیوں کو صیہونی حکومت کے حوالے کرنے سے شامی شہری غیر مطمئن اور ناراض ہیں۔ العہد نیوز نیٹ ورک نے اپنی ایک رپورٹ میں شامی سرزمین پر اسرائیلی حکومت کی جارحیت اور قبضے میں توسیع کے بارے شامی عوام میں تشویش کا ذکر کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صیہونی حکومت نے اپنی جارحیت اور قبضے کو جاری رکھتے ہوئے قنیطرہ اور درعا کے نواحی علاقوں میں بنکر تعمیر کر لیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شامی عوام کے مختلف طبقات اپنے ملک کی سرزمین پر صیہونی حکومت کی جارحیت پر سخت ناراض ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار وائل امین نے اس حوالے سے کہا ہے کہ صیہونی حکومت نے عملی طور پر جنوبی شام پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور احمد الشعراء (جولانی) کا اس علاقے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شام کی سرزمین پر صیہونی حکومت کی جارحیت جاری ہے اور غاصبوں کے حملوں نے شام کے پوری سرزمین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔