پنجاب حکومت سے مطالبہ: چائلڈ لیبر کے خلاف مؤثر حکمت عملی بنائی جائے
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
لاہور:
سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) نے حکومت پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ صوبے میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے ایک جامع اور پائیدار حکمت عملی اپنائی جائے۔
یہ مطالبہ ایک پالیسی مذاکرے میں کیا گیا جس کا انعقاد سرچ فار جسٹس، کین پاکستان، چائلڈ رائٹس موومنٹ پنجاب، فارمین کرسچن کالج یونیورسٹی اور این سی ایچ آر نے مشترکہ طور پر کیا۔
سرچ فار جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افتخار مبارک نے بتایا کہ پنجاب میں بچوں کی تعداد پانچ کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے لاکھوں بچے محنت مشقت پر مجبور ہیں۔ انہوں نے قانون سازی میں ہم آہنگی، صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں کے قیام، اور مؤثر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر سعید شفقت نے غربت اور تعلیم تک رسائی کو چائلڈ لیبر کی بڑی وجوہات قرار دیتے ہوئے بین الادارہ جاتی تعاون کی اہمیت اجاگر کی۔ ایڈیشنل سیکریٹری محنت طفیل دلشاد نے بتایا کہ حکومت ایک نیا لیبر کوڈ لا رہی ہے اور کم از کم عمر برائے ملازمت کو 16 سال کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
کین پاکستان کی راشدہ قریشی نے کہا کہ چائلڈ لیبر کو بچوں کے تحفظ کے مسئلے کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے، جبکہ این سی ایچ آر کے ندیم اشرف نے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے پائلٹ پروگرام شروع کرنے کی تجویز دی۔ ڈاکٹر عبداللہ کھوسو نے گھریلو مزدور بچوں پر پابندی اور ان کے تحفظ کے لیے قانونی ترامیم کی سفارش کی۔
چائلڈ پروٹیکشن فورمز سے تعلق رکھنے والے بچوں نے زور دیا کہ حکومت بچوں سے متعلق پالیسیوں کی تیاری میں خود بچوں کو شامل کرے تاکہ ان کی ضروریات اور تجربات کو مدنظر رکھا جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چائلڈ لیبر
پڑھیں:
کوئٹہ میں ایرانی پیٹرول کی غیر قانونی فروخت پھر شروع، حکومتی پابندی مؤثر کیوں نہ رہی؟
بلوچستان حکومت کی جانب سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی خرید و فروخت پر پابندی کے باوجود کوئٹہ شہر میں ایک بار پھر ایرانی ایندھن کی کھلے عام فروخت شروع ہوگئی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں یہ ایندھن فی لیٹر 215 روپے میں دستیاب ہے، جو حکومت کی رِٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا بلوچستان میں ایرانی پیٹرول کم قمیت پر دستیاب ہے؟
کچھ عرصہ قبل حکومت بلوچستان نے ایرانی ایندھن کی غیر قانونی درآمد اور فروخت پر سخت پابندی عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس کاروبار کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔
کوئٹہ کے سریاب، اسپنی روڈ، کلی شابو، کچلاک، سیٹلائٹ ٹاؤن اور قمبرانی روڈ سمیت متعدد علاقوں میں سڑک کنارے غیر قانونی اسٹالز پر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل فروخت ہورہا ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کوئٹہ کے شہری حمزہ احمد نے کہاکہ مہنگائی کے اس دور میں 215 روپے فی لیٹر سستا ایرانی پیٹرول ان کے لیے ایک سہارا ہے، کیونکہ مقامی پیٹرول پمپس پر فی لیٹر قیمت 265 روپے تک جا پہنچی ہے۔ حکومت اگر سستا پیٹرول نہیں دے سکتی تو کم از کم جو میسر ہے، اسے بھی بند نہ کرے۔
دوسری جانب ایرانی ایندھن کے کاروبار سے منسلک دین محمد نے بتایا کہ حکومتی پابندی کے باوجود صوبے کے بیشتر اضلاع میں ایرانی پیٹرول دستیاب تھا، البتہ کوئٹہ میں کاروبار ٹھپ ہوگیا تھا۔ تاہم گزشتہ ایک ہفتے سے ایرانی تیل کے مراکز میں پھر سے کام شروع ہوگیا ہے اور کوئٹہ میں بھی ایرانی تیل مختلف علاقوں میں دستیاب ہے۔
تاحال حکومت بلوچستان یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس نئی پیش رفت پر کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا، نہ ہی کسی کارروائی کی اطلاع ملی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیٹرول کی قیمت میں بڑے اضافے کے بعد ایرانی پیٹرول کی قیمت کیا ہے؟
معاشی ماہرین کے مطابق ایرانی ایندھن کی اسمگلنگ نہ صرف ملکی معیشت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ یہ ایک بڑا سیکیورٹی چیلنج بھی ہے۔ حکومتی مؤقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ غیر قانونی ایرانی ایندھن کے کاروبار سے دہشتگرد گروپوں کو مالی معاونت ملتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews ایرانی پیٹرول کی فروخت بلوچستان حکومت پابندی غیر مؤثر حکومتی پابندی کوئٹہ وی نیوز