کرپشن اور بد عنوانی کا خاتمہ اولین ترجیحات میں شامل ہیں( وزیراعظم )
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
نیب مالیاتی فراڈ کے متاثرین کی مدد اور ان کی رقوم کی جلد واپسی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے
شہبازشریف سے چیئرمین نیب نذیر احمد بٹکی ملاقات، نیب کی 2 سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کی
وزیراعظم شہبازشریف سے چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کی ملاقات ہوئی، جس میں نیب کی 2 سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کی گئی۔تفصیلات کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف سے چیٔرمین قومی احتساب بیورو (نیب) لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کی ملاقات ہوئی، ملاقات میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی موجود تھے۔چیٔرمین نیب نے وزیراعظم کو قومی احتساب بیورو کی 2 سالہ کارکردگی رپورٹ برائے سال 2023- 2024 پیش کی۔رپورٹ میں قومی احتساب بیورو کے ہیڈ کوارٹرز اور علاقائی دفاتر کی ریکوریز اور کارکردگی کے حوالے سے تفصیلات شامل ہیں۔وزیراعظم نے ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے حوالے سے قومی احتساب بیورو کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ ملک سے کرپشن اور بد عنوانی کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ کرپشن سے پاک پاکستان کے ویژن کی تکمیل کے لیے نیب کو تمام ضروری سہولیات دی جائیں گی۔انہوں نے مزید کہا کہ نیب مالیاتی فراڈ کے متاثرین کی مدد کرنے اور ان کی رقوم کی جلد واپسی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔وزیراعظم نے نیب کے زیر التوا مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کی ہدایت بھی کی۔چیٔرمین نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ نیب نے گزشتہ 2 سالوں میں اربوں روپے کی خرد برد کی گئی رقوم کی ریکوری کی، نیب نے سینکڑوں ایکڑ سرکاری اراضی غیر قانونی قبضے سے بازیاب کرائی جس کی مالیت اربوں روپے ہے۔وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا کہ سال 2023-2024 کے دوران نیب نے 700 انکوائریاں مکمل کیں اور 218 تحقیقات مکمل کیں جبکہ 21 نئے ریفرنس دائر کیے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: قومی احتساب بیورو
پڑھیں:
ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔
ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔ WhatsAppFacebookTwitter 0 6 November, 2025 سب نیوز
تحریر ذوالقرنین حیدر
ان دنوں ملک میں 27ویں آئینی ترامیم کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ کہیں آرٹیکل 243تھی زیر بحث ہے تو کہیں صوبوں کے اختیارات میں کمی کی بات جارہی ہے۔ مگر جو سسٹم سے جڑی بات ہے وہ دراصل مجسٹریٹی نظام کی واپسی کی بات ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں ہم نے1860میں واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
برطانوی تسلط میں یہ قانون بنایا گیا جس میں ملکی اداروں کا نظام ایگزیکٹو مجسٹریٹی کے سپرد کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں وہ بھی ایک طرح کا وائسرے تھا۔ پولیس سے لیکر تمام ادارے انہی کی مرہون منت ہوا کرتے تھے۔ مگر وقت بدلہ حالات بدلے اور بالآخر مشرف دور میں اس قانون سے جان چھڑا لی گئی اور پولیس آرڈر 2002 لایا گیا۔ جس کی وجہ سے پولیس اپنے فیصلوں میں کسی حد تک آزاد ہوئی اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی پولیس آرڈر 2002اپنی اصل روح کے مطابق نافذ نہیں ہو سکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے پولیس نے گزشتہ بیس سالوں سے امن اوامان کی صورتحال کو سنبھالا ہوا ہے۔ نئے ادارے بنا دئے گئے۔
اختیارات تقسیم ہوئے۔ ایک طرف روزگار کے مواقع ملے تو دوسری طرف کئی معاملات میں عوام کو بھی سہولت میسر آئی۔ اب اگر بات کی جائے کہ مجسٹریٹی نظام واپس لایا جائیگا تو ہوگا کیا۔ دراصل اب تک تین مرتبہ یہ کوشش کی جا چکی ہے پولیس آرڈر واپس ہو مگر ایسا نہ ہوا۔ اس بار پھر سے ایک کوشش کی گئی ہے۔ نظام واپس آنے سے پولیس آرڈر ختم ہو جائیگا۔ نئے بنائے جانے اداروں کو بھی ختم کرنا پڑ جائیگا۔
یہاں تک کہ عدلیہ کی طاقت بھی کم ہو جائیگی کیونکہ عدلیہ کے اختیارات بھی ایگزیکٹو کے پاس آجائیں گے۔ پھر ہوگا بادشاہی نظام بادشاہ کو کیا پسند ہے اسی کے مطابق آپ کو بھی چلنا ہوگا۔ بلوچستان اور کے پی میں دہشت گردی ہو یا امن وامان کا معاملہ پولیس اپنی جانیں قربان کر رہی ہے۔ دھرنے ہوں یا احتجاج نمٹا جارہا ہے۔ مگر اس کے بعد صاحب کا ایک حکم ہوگا اور پورا شہر اسی پر چلے گا۔ آج اگر پولیس اختیارات سے تجاوز کرتی ہے تو آپ کے پاس کئی فورم ہے آپ عدلیہ سے بھی ریلیف لے سکتے ہیں مگر یہ اختیارات بھی کم ہو گئے تو جو ریلیف مل رہا ہے اس سے بھی جائیں گے۔
پنجاب میں لوکل گورنمنٹ آرڈنینس میں بھی تمام اختیارات سیکرٹری کو دئیے گئے اس سے تو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا راگ جو الاپا جاتا ہے وہ بھی ختم ہو گیا۔ دنیا کے تمام ملکوں میں ایسے قوانین ختم ہو چکے ہیں یہاں تک کے برطانیہ بھی اس نظام سے باہر آچکا ہے۔ مگر ہم نے ایک بار پھر فرسودہ نظام کو اپنانے کی کوشش میں ہیں۔ یہ سپشلائیزیشن کا دور ہے نا کہ جنرلائزیشن کا دور
مجوزہ لائے جانے والے نظام سے عدلیہ اور پولیس کو جہاں دھچکا لگے گا وہاں عوام بھی شدید متاثر ہوگی۔ جس کی واضح مثال تھری ایم پی او کے آرڈر ہیں کہ صاحب کو پسند نہیں کہ آپ ان کے سامنے آئیں اور پھر آپ ان کے اگلے حکم تک ااندر ہی رہیں گے۔ یہی کچھ برطانوی راج میں بھی ہوتا تھا۔
جس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ اس بات کا احساس ہوا کہ اس نظام سے جان چھٹرائی جائے۔ نظام سے جان تو چھڑا لی گئی مگر اس نظام کا مائنڈ سیٹ ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اسی لئے ایک بار پھر کوشش کی جارہی ہے کہ عدلیہ کے اختیارات کم ہوں جو واپس ایگزیکٹو کو دئیے جا سکیں۔ پولیس پھر سے مجسٹریٹ کے تابع ہو۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکی صدر نے پاک بھارت جنگ میں 8 طیارے گرائے جانے کا دعویٰ کردیا بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام “ژالہ باری کی سرد چپ” میرا لاہور ایسا تو نہ تھا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم