پاکستان ڈی پورٹ کی گئی خاتون کو 10 دنوں کے اندر واپس لایا جائے، ہائی کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ رخشندہ کے طویل مدتی ویزہ کیوجہ سے اسکو ملک بدری نہیں کیا جانا چاہیئے تھا اور اسکے منفرد کیس کی مناسب جانچ نہ ہونا ایک واضح غلطی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے بھارتی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد سخت حفاظتی کریک ڈاؤن کے درمیان پاکستان ڈی پورٹ کی گئی خاتون رخشندہ راشد کو واپس لایا جائے۔ معاملے کی سماعت کے دوران عدالت نے اہم تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق انسانی زندگی کا سب سے مقدس جزو ہیں۔ اسی کے ساتھ ہائی کورٹ نے رخشندہ راشد کو واپس لا کر 10 دنوں کے اندر جموں میں ان کے شوہر کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ رخشندہ ایک پاکستانی شہری ہیں لیکن ان کی شادی ہندوستانی شہری شیخ ظہور احمد سے ہوئی ہے۔ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد مودی حکومت نے پاکستانی شہریوں کی ملک بدری کی مہم کے دوران طویل مدتی ویزا (LTV) اور خراب صحت کے باوجود رخشندہ کو پاکستان بھیج دیا تھا۔ جسٹس راہل بھارتی نے رٹ پٹیشن (WP(C) نمبر 1072/2025) کی سماعت کرتے ہوئے اس معاملے میں براہ راست مداخلت کرنے کا غیر معمولی قدم اٹھایا۔ انہوں نے اپنے حکم میں انسانی بنیادوں کا حوالہ دیا جو سرکاری طریقہ کار کی بھینٹ چڑھ گئے۔
تین صفحات پر مشتمل حکم میں جج نے تصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مواقع آتے ہیں جب ایک آئینی عدالت کو کسی کیس کی خوبیوں اور خامیوں کو درکنار کر کے خصوصی حکم جیسی رعایت دینی پڑتی ہے۔ جسٹس راہل بھارتی نے مزید کہا کہ انسانی حقوق انسانی زندگی کا سب سے مقدس جزو ہیں، یہ عدالت وزارت داخلہ، بھارتی حکومت کو ہدایت دیتی ہے کہ درخواست گزار کو اس کی ملک بدری سے واپس لایا جائے۔ رخشندہ نے یہ درخواست اپنے وکیل ہمانی کھجوریا کے توسط سے دائر کی تھی اور ان کے شوہر شیخ ظہور نے عدالت میں ان کی حمایت کی۔ ظہور نے عدالت کو بتایا "میری بیوی کے پاس اس کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لئے کوئی نہیں ہے۔ وہ متعدد بیماریوں میں مبتلا ہے اور اس کی صحت اور زندگی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ خطرہ لاحق ہے جب کہ اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے"۔
بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ رخشندہ کے طویل مدتی ویزہ کی وجہ سے اس کو ملک بدری نہیں کیا جانا چاہیئے تھا اور اس کے منفرد کیس کی مناسب جانچ نہ ہونا ایک واضح غلطی تھی۔ جسٹس بھارتی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ درخواست گزار کو متعلقہ وقت پر طویل مدتی قیام کی منظوری قیام کی منظوری حاصل تھی، پھر بھی اسے زبردستی نکال دیا گیا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ رخشندہ کی ملک بدری کسی مخصوص اور باضابطہ حکم کے بغیر ہوئی تھی، جس سے ان کے نکالے جانے کی قانونی حیثیت پر شک پیدا ہوتا ہے۔ جج نے کیس کو غیر معمولی نوعیت کا قرار دیا اور واضح کیا کہ اس کا فوری ازالہ ضروری ہے۔ وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تعمیل کو یقینی بنائے اور یکم جولائی 2025ء کو ہونے والی اگلی سماعت پر رپورٹ پیش کرے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
پہلگام حملے کے ملزمان وہ نہیں جن کے خاکے جاری ہوئے، بھارتی میڈیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سرینگر (اے پی پی) بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کا الزام بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر عاید کرتے ہوئے دعویٰ کیاتھا
کہ تینوں حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے ہے ، تاہم بھارتی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں اس دعوے کی نفی کی گئی ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق بھارتی پولیس نے حملے کے اگلے ہی دن3 افراد کے خاکے بھی جاری کیے تھے اور ان میں سے 2کو پاکستانی جبکہ تیسرے کو مقامی کشمیری قرار دیاتھا۔ بعد ازاں مقامی کشمیری کو بھی پاکستانی قراردیاگیاتھا۔پہلگام واقعے کے تقریبا 2ماہ بعد بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی رپورٹ میں مودی حکومت کے سرکاری بیانیے کی نفی کی گئی ہے۔این آئی اے کی رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ جن افراد کے خاکے جاری کیے گئے تھے وہ درحقیقت اس حملے میں ملوث ہی نہیں تھے اور ان خاکوں کی بنیاد ایک ہلاک عسکریت پسند کے موبائل فون سے ملنے والی ایک غیر تصویر پر رکھی گئی تھی۔این آئی اے کے نئے موقف سے نہ صرف حملے کے بعد پاکستان پر مودی حکومت کی طرف سے لگائے گئے الزامات مشکوک ہو گئے ہیں بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ واقعے کو ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت پاکستان کے خلاف مذموم پروپیگنڈا مہم کے طور پر استعمال کیا گیا۔ بھارتی تحقیقاتی ادارہ، جس پر پہلے ہی متنازع ہونے اور سیاسی اثر و رسوخ کے الزامات عاید کیے جاتے ہیں ، ایک بار پھر مشتبہ کردار ادا کر رہا ہے۔پہلگام واقعے کے بعد3کشمیری شہریوں نے حملے کی آزادانہ اور اعلیٰ سطحی تحقیقات کے لیے کمیشن کی تشکیل کی غرض سے بھارتی عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا، مگر عدالت نے ان کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ جج کب سے ایسے معاملات کے ماہر بن گئے ہیں؟۔ عدالت نے مزیدکہا تھا کہ اس طرح کی درخواستوں سے بھارتی افواج کا مورال پست ہوتا ہے ۔ بھارتی عدالت عظمیٰ کا یہ انکار نہ صرف شفاف انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی بلکہ اس نے پورے واقعے کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی پر مبنی رویہ اور جنگی جنون خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے کیونکہ مودی حکومت نے غیر مصدقہ دعوئوں اور جلد بازی میں دیے گئے جارحانہ بیانات کے ذریعے 2 ایٹمی طاقتوں کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا تھا۔ اگر خود بھارتی تحقیقاتی ادارے وزیر اعظم مودی کی حکومتی بیانیے سے متفق نہیں تو عالمی برادری کیسے ان پر یقین کرسکتی ہے ۔