جنرل عاصم منیر کا دورہ امریکہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ ایک پیچیدہ مگر ناگزیر حقیقت رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سے لے کر آج تک، واشنگٹن کے ساتھ اسلام آباد کے تعلقات میں اتار چڑھائو آتے رہے، مگر ہر دور میں خواہ وہ جمہوری حکومت ہو یا عسکری اقتدار امریکہ کو ایک تزویراتی شراکت دار کے طور پر دیکھا گیا۔
1950 ء کی دہائی میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی جانب سے امریکہ کو پہلے دورے کی ترجیح دینا اس تعلق کی بنیاد کا اظہار تھا۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور بعد ازاں جنرل مشرف نے بھی امریکہ سے فوجی و اقتصادی مفادات حاصل کرنے کے لیے سفارتی راستے اختیار کیے۔ ہر دورہ کسی نہ کسی داخلی بحران، بیرونی دبائو یا اسٹرٹیجک ضرورت کے پس منظر میں ہوا چاہے وہ سرد جنگ کے ایام ہوں یا نائن الیون کے بعد کی جنگی حکمتِ عملی۔اسی روایت کو جاری رکھتے ہوئے حالیہ دنوں میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کا دورہ امریکہ نہ صرف پاک امریکہ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہے بلکہ یہ دورہ بدلتی ہوئی عالمی سفارتی فضا، خطے میں سٹرٹیجک تبدیلیوں اور پاکستان کی داخلی سیاسی و اقتصادی ضرورتوں کے تناظر میں بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ دورہ محض ایک رسمی ملاقات نہیں، بلکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک طرف پاکستان معاشی چیلنجز، دہشت گردی کی نئی لہر، اور بین الاقوامی تنہائی جیسے مسائل سے نبرد آزما ہے تو دوسری طرف عالم اسلام ایک دشوار گزار مرحلے سے گزر رہا ہے۔ چنانچہ یہ سوال اہم ہے کہ آیا یہ دورہ پاکستان کے لیے کچھ خاطر خواہ نتائج کا حامل بھی ہوگا یا صدر امریکہ اور پاکستان کے آرمی چیف کے درمیان ایک فوٹو سیشن چند ملاقاتوں وہ بھی صرف ’’دکھاوے‘‘ کی اور بس ۔ اس کے نتائج عملی طور پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں؟ اور کیا جنرل عاصم منیر اپنے پیش روں سے ہٹ کر کوئی نئی راہ متعین کر پائے؟
جنرل ایوب خان نے اس وقت امریکہ کا دورہ کیا جب پاک امریکہ اتحادی تھے تبھی صدر جان کینیڈی نے شاندار استقبالئے کا بھی اہتمام کیا یوں سیٹو اور سینٹو معاہدوں کے تحت پاکستان کے امریکہ سے دفاعی امداد اور اسلحہ لینے کی راہ ہموار ہوئی۔وہ ایک باوقار اور ثمر بار دورہ تھا۔آمر ضیا کی افغان جہاد کے تناظر میں امریکہ سے پینگیں بڑھیں یوں سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی مشترکہ کاوشوں سے روس کے حلاف مزاحمت پروان چڑھی اور اقتصادی پیکیجز ،دفاع ‘کمک اور اسلحے کی آمد کا تسلسل دکھائی دیا۔
اس زعم میں امریکہ نے ضیا ء آمریت کی جمہوریت دشمنیوں سے بھی صرف نظر کیا۔آمر پرویز مشرف جمہوریت کو روندتا ہوا آیا تو اس نے مسلم لیگ (ن) کی جمہوری حکومت کی لاش پر کھڑے ہوکر امریکہ زندہ باد کا نعرہ لگایا اور متعدد بار امریکی دورے کئے اور وہ پاکستان کے لئے اربوں ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد کے حصول میں کامیاب ہوا بھلے اس نے اپنی داخلی اور خارجی صورت حال کو نہ صرف دہشت گردی کے حوالے کیا بلکہ قو می سالمیت اور خود مختاری کے کئی سوالات کھڑے کر دیئے۔
بعد ازاں یہ ہوا کہ امریکہ خود ہی پیچھے ہٹتا چلا گیا۔تب پاکستان امریکہ کی قربت کی بہت ساری قیمت ادا کرچکاتھا ۔موجودہ جنرل عاصم منیر کایہ دورہ عالمی صف بندی کے تناظر میں ہوا ہے ۔ بظاہر اس میں کسی طرح کا کوئی امریکی مطالبہ منصہ شہود پر نہیں آیا ،انسداد دہشت گردی ،دفاعی رابطوں اور اقتصادی معاملات کے گر د میل ملاقات گھومتے رہے ،کہیں کہیں اعتماد کی بحالی کا تاثر بھی چہرہ نمائی کرتا رہا مگر اس دورے کے فوری امور و رموز کسی سطح پر دکھائی نہیں دیئے۔
علاقائی تناظر میں دورے کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو امریکہ آج سے نہیں اول دن سے بھارت کو چین کے خلاف اسٹریٹجک شراکت دار کے طور پر ڈیل کرتا رہا ہے یوں پاک امریکہ تعلق کا نیا سفر بھارت کے لئے یقینا گراں بار ۔ بھارت کبھی یہ نہیں چاہتا کہ کسی بھی فورم پر پاکستان کے کشمیریا دہشت گردی کے موقف کو قا بل سماعت گردانا جائے۔
جنرل عاصم منیر نے گو اس امرکا اعادہ کیا ہے کہ سی پیک اور چین کے ساتھ ناقابل تردید قومی مفادکا حصہ ہیں مگر امریکہ کی طرف پاکستان کے ایک بار پھر جھکائو کی روش اختیار کرنے پر پاک چین تعلقات میں ہلکی پھلکی سرد مہری کا خدشہ تو ہو ہی سکتا ہے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کے یہ دورہ
پڑھیں:
زرداری کا دورہ چین مکمل، وطن واپس پہنچ گئے
اسلام آباد (نیٹ نیوز) صدر مملکت آصف علی زرداری چین کا دس روزہ دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ گئے۔ دورے کے دوران صدر زرداری کی چین کے صوبائی حکام سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں پاک چین تعلقات، سی پیک، علاقائی امن، ترقی اور تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدر کے دورے میں پاکستان اور چین نے 16 ستمبر کو مفاہمت کی تین یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط کئے جن کا مقصد پاکستان میں زراعت، ماحولیات اور ماس ٹرانزٹ شعبوں کی ترقی ہے۔ خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو بھی صدر مملکت کے ہمراہ تھے۔ صدر نے دونوں ملکوں کی سٹرٹیجک شراکت داری کے عزم کی تجدید کی۔ صدر نے شنگھائی الیکٹرک کو پاکستان کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ اگر کوئی زیر التوا مسائل ہوئے تو انہیں دوستانہ اور باہمی تعاون کے جذبے کے تحت حل کیا جائے گا۔