WE News:
2025-11-08@09:54:28 GMT

قلم کی جنگ: پاکستانی صحافیوں پر سائبر قوانین کا شکنجہ

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

قلم کی جنگ: پاکستانی صحافیوں پر سائبر قوانین کا شکنجہ

پاکستان میں آزادی صحافت کی فضا ایک مدت سے دباؤ میں ہے، مگر حالیہ برسوں میں یہ دباؤ قانونی دائرہ کار میں سمٹتا جا رہا ہے، خاص طور پر اُس وقت جب صحافیوں کے خلاف سائبر قوانین کے تحت کارروائیاں عام ہو گئیں۔

سینئر صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ جب صحافیوں کے فون نمبرز سوشل میڈیا پر لیک ہوتے ہیں، تو انہیں نہ صرف دھمکیاں ملتی ہیں بلکہ وہ ڈیجیٹل نگرانی اور جاسوسی کا شکار بھی بن جاتے ہیں۔

حامد میر کے مطابق  نامعلوم افراد بار بار فون کرتے ہیں اور یہ سلسلہ محض ایک فون کال پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ ایک ذہنی اذیت کا آغاز ہوتا ہے۔

ایف آئی اے کے نشانے پر صحافی

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2007 سے 2024 کے درمیان ملک بھر میں 68 صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کی قانونی کارروائیاں ہوئیں۔ ان میں 87 مقدمات صرف سائبر کرائم قوانین کے تحت درج کیے گئے۔

یہ معلومات رائٹ ٹو انفارمیشن (RTI) قانون کے تحت حاصل کی گئیں۔

کچھ مقدمات آج بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، جب کہ کئی کیسز ناکافی ثبوت، قانونی سقم یا عدالت کے فیصلوں کی بنیاد پر بند کر دیے گئے۔

کون سے مقدمات بند ہوئے اور کیوں؟

اب تک 12 مقدمات بند کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے تین کیسز وہ تھے جو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پیکا ایکٹ کے سیکشن 20 کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے بعد خارج کر دیے گئے۔

دیگر مقدمات میں بعض شکایات واپس لے لی گئیں، کچھ میں مدعی مقدمے کی پیروی نہ کر سکا، اور چند مقدمات عدالت کے فیصلے کی روشنی میں ختم ہوئے۔

زیر سماعت کیسز اور قانونی پیشرفت

اس وقت تین مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ 24 کیسز تفتیش کے مراحل میں ہیں، جبکہ پانچ مزید مقدمات مزید تحقیقات کے لیے محفوظ رکھے گئے ہیں۔6 مقدمات میں سمن جاری ہو چکے ہیں، اور چار کیسز کو التوا میں رکھا گیا ہے۔

اب تک 5صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ دو مقدمات میں نامزد افراد بیرون ملک مقیم ہیں، جن پر سیکشن 512 کے تحت چالان جمع کرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 15 سے زائد مقدمات میں قانونی کارروائیاں جاری ہیں۔

وہ صحافی جن کے خلاف مقدمات درج ہوئے

ایف آئی اے کی کارروائیوں میں  جن صحافیوں کے نام سامنے آئے ہیں ان میں عبدالباسط میر، عبدالشکور اجمل، ابصار عالم، عدیل حبیب، افضل جاوید، احمد بخش جکھرو، احمد فرہاد، احسن الرحمن شامی، عامر میر، امجد کاظمی، ناصر علی، عارف حمید، اسد علی طور، عاشق علی دیو، آزاد نہڑیو، بلال گوری، سیرل المیڈا، دانش قمر، ڈاکٹر ثناء خان اچکزئی، فاروق فقیر، فواد علی شاہ، گل بخاری، حبیب الرحمن، حسین رفیق، عمیر رفیق، زونیر رفیق، زبیر رفیق، احتشام ملک، عمران خان، امتیاز حسین، جمیل فاروقی، جاوید اقبال، خالد خاکی، خالد محمود، میاں داؤد، مرزا خرم حسین، مرزا راحیل بیگ، عمر رچمنڈ، راجہ فیصل کیانی اور  سلطان رضوی شامل ہیں۔

اسی فہرست میں دیگر ناموں میں  چوہدری بابر حسین، محسن جمیل بیگ، محمد عدیل، محمد فہیم، محمد حماد اظہر، محمد عمران ریاض، محمد جمیل الدین قدسی، محمد خالد جمیل، محمد نوید عباسی، محمد رومان خان، محمد صابر شاکر، محمد شعیب، محمد وقاص شریف، محمد زبیر، نقیب اللہ ہیکلزئی، ناصر اقبال، ناصر رضا، نظر محمد، اوریا مقبول جان، قاضی طارق عزیز، ثاقب حسین، شاہین صہبائی، شیخ فیصل ندیم، ایم ایس باسط، حماد، شیراز افضل، صدیق جان، سلمان قریشی، سلطان احمد رند، جاوید علی رہوجو، عبد الوحید بروہی، سلطان منظور، سید اکبر حسین، سید عیسیٰ حسن، سید حیدر رضا مہدی اور سید عمران شفقت کے نام  شامل ہیں۔

پیکا ایکٹ کی ترامیم اور قانونی رخ

2022میں پیکا قانون میں کی گئی ترامیم نے صحافیوں کے لیے حالات مزید سنگین بنا دیے۔ ان ترامیم کے بعد سائبر ہتک عزت کو ناقابل ضمانت جرم بنا دیا گیا اور سزا کو 2 سال سے بڑھا کر 5 سال کر دیا گیا۔ نتیجتاً متعدد صحافیوں کے خلاف مقدمات دائر کیے گئے۔

تاہم مارچ 2022 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان ترامیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کچھ مقدمات خارج کر دیے۔

’قانون خوف کی شکل اختیار کر گیا ہے‘

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر رانا عظیم کے مطابق پیکا ایکٹ اب ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو کسی بھی وقت صحافیوں کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ’یہ قانون صحافیوں کو خوف میں رکھنے کا ذریعہ بن چکا ہے‘۔

مثال کے طور پر، 26 نومبر 2024 کو اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کی کوریج کرنے والے درجنوں صحافیوں اور وی لاگرز پر ایف آئی اے نے مقدمات درج کیے۔ ان میں ہرمیت سنگھ اور الیاس اعوان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ایف آئی اے کا مؤقف تھا کہ ان افراد پر ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹا بیانیہ پھیلانے اور عوام کو اکسانے کا الزام ہے۔

خواتین صحافیوں کو ڈیجیٹل ہراسانی کا سامنا

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں 75 صحافیوں نے سائبر ہراسمنٹ کی شکایت درج کرائی، جن میں 34 خواتین، 40 مرد، اور ایک ٹرانس جینڈر شامل تھے۔

یہ صحافی آن لائن دھمکیوں، ہیکنگ، اور ٹرولنگ کا شکار ہوئے۔

دوسری جانب میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی رپورٹ میں 124 خواتین صحافیوں سے انٹرویوز میں یہ انکشاف ہوا کہ آن لائن تشدد انہیں سیلف سنسرشپ پر مجبور کرتا ہے۔ تقریباً 68 فیصد خواتین نے کہا کہ انہیں اپنی صحافتی رائے یا ذاتی اظہار پر دھمکیوں کا سامنا رہا۔ 50 فیصد سے زائد نے اعتراف کیا کہ انہوں نے سوشل میڈیا (خصوصاً فیس بک اور ٹویٹر) پر اپنی بات کو محدود یا تبدیل شدہ انداز میں پیش کیا۔

آزادیٔ صحافت کی گرتی ہوئی دیوار

صحافی تنظیموں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور آزادی صحافت کے حامیوں نے ان مقدمات کو تنقیدی صحافت کے خلاف ایک سازگار ماحول کی نفی قرار دیا ہے۔

ایف آئی اے حکام کا مؤقف ہے کہ ان مقدمات کا تعلق سائبر کرائم اور ہتک عزت کے قوانین سے ہے۔

مگر صحافیوں کے نمائندہ ادارے کہتے ہیں کہ ان اقدامات کے ذریعے آزاد صحافت کو دبایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو مقدمات کے بجائے مکالمے کو فروغ دینا چاہیے تاکہ پاکستان میں صحافت اپنی خودمختاری کے ساتھ زندہ رہ سکے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

کامران ساقی

ایف آئی اے سائبر قوانین صحافی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایف ا ئی اے سائبر قوانین صحافی صحافیوں کے خلاف مقدمات میں ایف آئی اے کے مطابق ہیں کہ کے تحت

پڑھیں:

پاکستان میں مقیم غیر قانونی اور جعلی شناختی کارڈ بنوانے والےافغان باشندوں کے خلاف گھیرا مزید تنگ

 ملک میں مقیم غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف گھیرا مزید تنگ کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق جعلی پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے والے افغان شہری نادرا کے نشانے پر آگئے۔ ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ خصوصی سافٹ ویئر کے ذریعے مشکوک شناختی کارڈز کی نشاندہی کی گئی جس کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کے جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنوانے کا انکشاف ہوا۔سافٹ ویئر نے فیملی ٹری کی کمپوزیشن دیکھ کر مشکوک افراد کی نشاندہی کی، جعلی شناختی کارڈ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد افغان باشندوں کی نکلی ۔ذرائع کے مطابق پشین، چمن اور کوئٹہ میں مقیم پاکستانیوں کی فیملی ٹری میں افغان باشندوں کو شامل کیا گیا جبکہ ایجنٹوں نے بھاری رقوم لے کر غیر ملکیوں کو پاکستانی ریکارڈ میں شامل کرایا۔نادرا حکام نے بتایا کہ جعلی شناختی کارڈ رکھنے والوں کے کارڈ خودکار طریقے سے بلاک ہونا شروع ہوگئے ہیں۔بلاک شدہ شناختی کارڈ رکھنے والوں کو نادرا دفتر جاکر تصدیق کرانے کی ہدایت کی گئی ہے ، مقررہ مدت کے بعد تصدیق نہ کرانے والے شناختی کارڈز کو منسوخ کردیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ: وقاص احمد و سہیل علیم کے خلاف مقدمات کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل، اغوا کیس کو مثالی کیس بنانے کی ہدایت
  • تلہار: پریس کلب میں تلہار یونین آف جرنلسٹ کا اہم اجلاس
  • پنجاب میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانوں کی تجویز
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف کا سمندر پار پاکستانیوں سے اظہارِ تشکر، اکتوبر میں ترسیلاتِ زر 3.4 ارب ڈالر سے زائد
  • پاکستان میں مقیم غیر قانونی اور جعلی شناختی کارڈ بنوانے والےافغان باشندوں کے خلاف گھیرا مزید تنگ
  • افغانستان، طالبان دور میں آزادیِ صحافت کا جنازہ نکل گیا
  • افغانستان میں سچ بولنا جرم بن گیا، طالبان دور میں آزادیِ صحافت کا جنازہ نکل گیا
  • ٹنڈو محمد خان :واپڈا کی ممکنہ نجکاری کے خلاف ملازمین کی ریلی
  • حالیہ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں اچھی کارکردگی، پاکستانی کھلاڑیوں کو صلہ مل گیا
  •  پنجاب  میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے بڑھانے کا فیصلہ