دفاعی اخراجات، نیٹو ممالک اضافی اربوں ڈالر خرچ کرنے پر متفق
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جون 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ کے بعد مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ممالک نے دفاعی اخراجات میں نمایاں اضافہ کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ گزشتہ روز نیدرلینڈز میں شروع ہونے والے اس 'تاریخی سربراہی اجلاس‘ کے حتمی اعلامیے میں کہا گیا ہے، ''اتحادی ممالک سن 2035 تک بنیادی دفاعی تقاضوں اور دفاع و سکیورٹی سے متعلق اخراجات کے لیے سالانہ جی ڈی پی کا پانچ فیصد خرچ کرنے کے پابند ہوں گے تاکہ انفرادی اور اجتماعی فرائض کو یقینی بنایا جا سکے۔
‘‘دوسری جانب اس ہدف کے باوجود، اسپین نے باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ اسے پورا نہیں کر سکتا۔ اسی طرح بیلجیم اور سلوواکیہ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
(جاری ہے)
تاہم اعلامیے میں سن 2029 میں اخراجات کا جائزہ لینے اور روس کے 'سکیورٹی خطرے‘ کا دوبارہ جائزہ لینے کا عزم شامل ہے۔
اسی سربراہی اجلاس میں رہنماؤں نے نیٹو کے اجتماعی دفاعی عہد یعنی ''ایک پر حملہ، سب پر حملہ‘‘ کے اصول کو ''مضبوط‘‘ قرار دیا۔
اجلاس سے قبل صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر اس بات پر شکوک اٹھائے تھے کہ آیا امریکہ اپنے اتحادیوں کا دفاع کرے گا۔ نیٹو کا 'تبدیلی ساز‘ اجلاسنیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک رُٹے نے اس اجلاس کو ''تبدیلی ساز‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 32 رکنی اتحاد پانچ فیصد جی ڈی پی کے نئے دفاعی ہدف پر متفق ہونے کے لیے تیار ہے۔ یہ فیصلہ امریکہ، جو نیٹو کا سب سے بڑا خرچ کنندہ رکن ہے، کی جانب سے یورپ سے توجہ ہٹا کر دیگر سکیورٹی ترجیحات پر مرکوز کرنے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
رُٹے نے کہا، ''یہ مشکل فیصلے ہیں۔ ایمانداری سے کہیں تو سیاستدانوں کو وسائل کی کمی میں انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ لیکن روس کے خطرے اور عالمی سکیورٹی حالات کے پیش نظر کوئی متبادل نہیں۔‘‘
یہ ہدف اگلے 10 برسوں میں حاصل کیا جائے گا، جس میں 3.
اس اضافے سے سالانہ سینکڑوں ارب ڈالرز کے اضافی اخراجات ہوں گے اور اس حوالے سے سن 2029 میں امریکی صدارتی انتخابات کے بعد دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔
اسپین اور دیگر ممالک کے اعتراضاتاسپین نے اعلان کیا ہے کہ وہ سن 2035 تک پانچ فیصد کا ہدف پورا نہیں کر سکتا۔
اس نے اسے ''غیر معقول‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ کم خرچ کے ساتھ بھی نیٹو کا ہدف پورا کر سکتا ہے۔وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے سماجی اخراجات میں کٹوتیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسپین نے نیٹو کے ساتھ اس ہدف سے استثنیٰ کا معاہدہ کر لیا ہے۔ سن 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق اسپین نے اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.28 فیصد دفاع پر خرچ کیا، جو نیٹو ممالک میں سب سے کم ہے۔
بیلجیم نے بھی اس ہدف تک پہنچنے میں ناکامی کا اشارہ دیا، جبکہ سلوواکیہ نے بھی اپنے دفاعی اخراجات خود طے کرنے کا حق محفوظ رکھا۔نیٹو کیا ہے اور اسے کیوں بنایا گیا؟
ٹرمپ نے منگل کو اسپین پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ''اسپین کا نہ ماننا دیگر ممالک کے لیے غیر منصفانہ ہے۔‘‘ انہوں نے کینیڈا کو بھی ''کم خرچ کرنے والا‘‘ قرار دیا۔
سن 2018 میں ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے دوران ایک نیٹو اجلاس دفاعی اخراجات پر تنازع کی وجہ سے متاثر ہوا تھا۔ روس کے پڑوسی ممالک کی طرف سے حمایتروس اور یوکرین کے قریب واقع ممالک، جیسے پولینڈ، بالٹک ریاستیں اور نورڈک ممالک نے اس ہدف کی حمایت کی ہے۔ یورپ کے بڑے ممالک جیسے کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور نیدرلینڈز بھی اس کے حق میں ہیں۔
ٹرمپ کا آرٹیکل پانچ پر غیر یقینی مؤقفقبل ازیں امریکی صدر نے ایک بار پھر نیٹو کےآرٹیکل فائیو کے بارے میں سوالات اٹھائے تھے۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت کی طرح ایک بار پھر اشارہ دیا کہ ان کی حمایت اس بات پر منحصر ہے کہ اتحادی ممالک اپنے دفاع پر کتنا خرچ کر رہے ہیں؟
نیٹو کے سربراہی اجلاس سے ایک روز قبل ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے نیٹو کے بنیادی معاہدے کے آرٹیکل پانچ، جو اجتماعی دفاعی ضمانت دیتا ہے، کے بارے میں کہا کہ ان کی وابستگی ''آرٹیکل پانچ کی تعریف پر منحصر ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''آرٹیکل پانچ کی متعدد تعریفیں ہیں، آپ کو یہ معلوم ہے، ٹھیک؟ لیکن میں اپنے اتحادیوں کا دوست بننے کے لیے پرعزم ہوں۔‘‘ انہوں نے اشارہ دیا کہ وہ اجلاس کے دوران آرٹیکل پانچ کی اپنی تشریح واضح کریں گے۔
آرٹیکل پانچ ہے کیا؟آرٹیکل پانچ نیٹو کے 32 رکنی اتحاد کا بنیادی ستون ہے۔ یہ کہتا ہے کہ کسی ایک یا زیادہ رکن ممالک پر مسلح حملہ تمام ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
اس کے تحت اگر کوئی حملہ ہوتا ہے تو ہر رکن ملک انفرادی طور پر یا دوسروں کے ساتھ مل کر ''ضروری سمجھے جانے والے اقدامات، بشمول مسلح طاقت کا استعمال‘‘ کرے گا تاکہ شمالی اوقیانوس کے علاقے کی سکیورٹی بحال اور برقرار رکھی جا سکے۔یہ سکیورٹی ضمانت ہی وہ وجہ ہے، جس کی بنا پر فن لینڈ اور سویڈن، جو پہلے غیر جانبدار تھے، سن 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد نیٹو میں شامل ہوئے اور یوکرین سمیت دیگر یورپی ممالک بھی اس میں شمولیت کے خواہش مند ہیں۔
آرٹیکل پانچ صرف ایک بار، 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد نافذ کیا گیا تھا، جس نے افغانستان میں نیٹو کی سب سے بڑی آپریشنل کارروائی کی راہ ہموار کی تھی۔
نیٹو کے اتحادیوں نے دیگر مواقع پر بھی اجتماعی دفاعی اقدامات کیے، جیسے کہ شام، عراق اور افغانستان میں داعش کے خلاف لڑائی اور بلقان میں امن برقرار رکھنے میں امریکی شراکت قابل ذکر ہیں۔
''سب کے لیے ایک، ایک کے لیے سب‘‘ کا عہد نیٹو کی طاقت کا مرکز ہے۔ یورپی حکام کے مطابق روس اسے آزمانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
یوکرین اور نیٹو کی رکنیتنیٹو کی ساکھ آرٹیکل پانچ اور اس کے اس عہد پر منحصر ہے کہ کوئی بھی یورپی ملک، جو سکیورٹی میں حصہ ڈال سکتا ہو، اسے رکنیت دی جا سکتی ہے۔ تاہم یوکرین کی، جو اس وقت روس کے ساتھ جنگ میں ہے، رکنیت سے 32 رکن ممالک کو اس کے دفاع کے لیے فوجی طور پر مداخلت کرنا پڑ سکتی ہے، جو روس جیسی جوہری طاقت کے ساتھ وسیع تر جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔
ٹرمپ نے فی الحال یوکرین کی رکنیت کو ویٹو کر دیا ہے۔ تاہم یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی منگل کی شام نیٹو کے عشائیے میں شریک ہوئے اور ان کی ٹرمپ کے ساتھ ایک الگ ملاقات بھی طے ہے۔
رکنیت کے مسائل اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں، جب کسی ملک کی سرحدیں غیر واضح ہوں۔ مثال کے طور پر، روس نے سن 2008 میں جارجیا پر اس وقت حملہ کیا تھا، جب نیٹو نے اسے رکنیت دینے کا وعدہ کیا تھا۔
جارجیا کی درخواست ابھی تک زیر التوا ہے۔ اسی طرح روس کے یوکرین کے بڑے حصوں پر قبضے اور متنازعہ علاقوں کی وجہ سے اس کی سرحدیں بھی غیر واضح ہیں۔ ہنگری کا اختلافی مؤقفتاہم ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان نے کہا ہے کہ نیٹو کا یوکرین میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے اور روس اتنا مضبوط نہیں کہ نیٹو کے لیے خطرہ بنے۔ دوسری جانب روس نے نیٹو پر ''جارحانہ عسکریت پسندی‘‘ اور دفاعی اخراجات میں بڑے اضافے کا جواز بنانے کے لیے روس کو ''شیطان‘‘ کے طور پر پیش کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
ادارت: افسر اعوان
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دفاعی اخراجات آرٹیکل پانچ اسپین نے ہوئے کہا نیٹو کے نے نیٹو ایک بار نیٹو کا جائے گا کے ساتھ نیٹو کی کے لیے کے بعد روس کے کیا ہے
پڑھیں:
اہل یمن کی مثالی جدوجہد
اسلام ٹائمز: اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی یمن کی صلاحیت نے مغربی بحریہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ جہاز رانی کے راستوں کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل خرچ کریں۔ یمنیوں نے حقیقت میں روایتی دفاعی ماڈل کو بدل دیا ہے۔ یمن نے ثابت کر دیا ہے کہ جدید فضائی بیڑے کا مقابلہ کرنے کے لیے مہنگے دفاعی نظام (جیسے S-400) کی ضرورت نہیں ہے۔ اہل یمن کی قربانیوں کی ایک داستان ہے جسے نظرانداز کیا گیا ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
یمن بحیرہ احمر کی سلامتی کی مساوات میں خود کو ایک موثر کھلاڑی کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کے خلاف برسر پیکار افواج کے کیے آپریشن کی لاگت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ ”انصار اللہ“ کی کلیدی صلاحیتیں، آپریشنل حکمت عملیاں اور ان کے تزویراتی اثرات حیران کن ہیں۔ یمن تین میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اپنے دفاعی ڈھانچے کو دوبارہ موثر بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ یمن نے عملی طور پر دکھایا ہے کہ کس طرح کم سے کم وسائل کے ساتھ جدید ترین عسکری نظام کا مقابلہ کرنا ممکن ہے۔ اول یمن نے پرانے میزائلوں کو دوبارہ تیار کرکے اور موبائل سسٹم بنا کر ایک متحرک دفاعی نظام تشکیل دیا ہے۔ اس کی ایک اہم مثال فضاء سے ہوا میں مار کرنے والے روسی میزائلوں جیسے R-27 کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے نظام میں تبدیل کرنا ہے۔
یہ سسٹم عام طور پر ہلکی گاڑیوں پر نصب ہوتا ہے اور فائرنگ کے بعد اسے تیزی سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس حکمت عملی کا مظاہرہ 2024 میں سعودی F-15SA لڑاکا طیارے کے ساتھ ساتھ ایک امریکی MQ-9 ریپر ڈرون کو گرا کر کیا گیا۔ ان نظاموں کی وجہ سے دشمن کی طرف سے "آپریشنل سرپرائز" اور "ابتدائی حملے کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یمن نے ثابت کیا ہے کہ تکنیکی برتری کا مطلب یہ نہیں کہ زمین پر برتری ہو۔ ”جی پی ایس جیمرز“ اور ”سیٹلائٹ کمیونیکیشن انٹرسیپشن سسٹم“ سمیت مقامی یا تبدیل شدہ الیکٹرانک جنگی نظام کا استعمال کرتے ہوئے، یمن نے ”ترک کرائیل“ جیسے جدید ڈرون کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ مثال کے طور پر اس سسٹم کے تحت نشانے پر لیا گیا دشمن کا ڈرون اپنے زمینی کنٹرول سٹیشن سے رابطہ کھونے کے بعد گر کر تباہ ہوگیا۔
اس دفاعی نظام کے تحت یمن کو بہت کم قیمت پر دشمن کے ملٹی ملین ڈالر کے ہتھیاروں کو بے اثر کرنے کی صلاحیت حاصل ہوئی ہے۔ یمن ڈرون کو جارحانہ اور دفاعی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس کے خودکش ڈرونز کا استعمال زمینی اور سمندری اہداف پر حملہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جب کہ صاعقہ جیسے انٹرسیپٹر ڈرون کو دشمن کے ڈرونز اور ہوائی جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس صلاحیت نے یمن کو خود پر مسلط کیے گئے خطرے کو دشمن کے علاقے تک بڑھانے اور ایک اسٹریٹجک ڈیٹرنٹ بنانے کی طاقت دی ہے۔ یہ تین دفاعی ستون: موبائل ڈیفنس سسٹم، الیکٹرانک وارفیئر، اور ڈرونز کا استعمال ایک مہلک دفاعی مثلث بناتے ہیں جو مخالفین کی فضائی برتری کے خلاف ایک کم لاگت کا حامل لیکن انتہائی موثر ردعمل ہے۔
یہ نیا دفاعی ڈھانچہ ایک ایسا نمونہ ہے جسے دیگر غیر ریاستی عناصر یا کم وسائل رکھنے والی ریاستیں اپنا سکتی ہیں۔ یمن کی دفاعی طاقت کے کئی مظاہر ہیں مثلاً وہ فاطر یا ثقیب جیسے مقامی فضائی دفاعی نظام کا استعمال کرتے ہوئے، جس کی پیداوار یا تنصیب پر تقریباً 100,000 ڈالر لاگت آتی ہے، سعودی F-15SA لڑاکا طیاروں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا ہے، ان طیاروں میں سے ہر ایک کی مالیت تقریباً 100 ملین ڈالر ہے، یمن نے امریکی MQ-9 ریپر جیسے جاسوسی کرنے والے ڈرون، جس کی لاگت تقریباً 32 ملین ڈالر ہے، کو سستے طیارہ شکن میزائلوں یا یمنی الیکٹرانک وارفیئر سسٹم کے ذریعے مار گرایا ہے، اس کی آپریشنل لاگت تقریباً 50,000 ڈالر ہے۔
یہ کامیابی کم قیمت پر دشمن کے مہنگے جارحانہ انٹیلی جنس اثاثوں کو ختم کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔ یمن کی کارکردگی کی سب سے ڈرامائی مثال ڈرونز یا اینٹی شپ کروز میزائلوں کے ذریعے 1.8 بلین ڈالر کی لاگت کے”ارلی برک کلاس ڈسٹرائرز“ کو نشانہ بنانا ہے، اس قسم ڈرونز اور میزائیلوں کی تیاری میں 50,000 ڈالر سے بھی کم لاگت آسکتی ہے۔ لاگت کے اس عدم توازن نے یمن کے دشمنوں کے لیے ایک سٹریٹجک بحران پیدا کر دیا ہے۔ یہ اس "غیر متناسب جنگ“ میں ایسا ”ڈیٹرنس‘‘ ہے جسے یمن نے کامیابی سے نافذ کیا ہے۔ اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی یمن کی صلاحیت نے مغربی بحریہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ جہاز رانی کے راستوں کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل خرچ کریں۔
یمنیوں نے حقیقت میں روایتی دفاعی ماڈل کو بدل دیا ہے۔ یمن نے ثابت کر دیا ہے کہ جدید فضائی بیڑے کا مقابلہ کرنے کے لیے مہنگے دفاعی نظام (جیسے S-400) کی ضرورت نہیں ہے۔ اہل یمن کی قربانیوں کی ایک داستان ہے جسے نظرانداز کیا گیا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی جنگ میں اب تک فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 66000 ہزار ہے جب کہ آل سعود کی سربراہی میں یمنی حریت پسندوں پر مسلط کردہ جنگ میں جان کی بازی ہارنے والے یمنی مسلمانوں کی تعداد تقریباً ساڑھے تین لاکھ ہے۔ یہ تعداد اہل یمن کی مظلومیت کے گراف کو فلسطینیوں کی مظلومیت کے پیمانے سے کم ظاہر نہیں کرتی۔