پیغامِ پاکستان کی روشنی میں علما کا متفقہ ضابطۂ اخلاق جاری
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
اسلامی نظریاتی کونسل کی زیر صدارت مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے جید علماء، محققین اور دانشوروں نے ایک اہم اجلاس میں شرکت کی، جس میں پاکستان کے موجودہ حالات اور بین الاقوامی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے ’پیغامِ پاکستان‘ کی روشنی میں ایک متفقہ ’ضابطۂ اخلاق‘ جاری کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:رویتِ ہلال کمیٹی کا اہم اجلاس آج، محرم کا چاند نظر آنے کا قوی امکان
علماء کرام نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں اس بات پر زور دیا کہ آئین پاکستان اور ملکی قوانین میں جو بنیادی انسانی حقوق دیے گئے ہیں، وہ تمام شہریوں کو مذہبی آزادی، جان، مال، عزت اور بنیادی سہولیات کی مکمل ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ اس ضابطۂ اخلاق میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر پاکستانی شہری کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور ہر فرد کو اپنے مسلک و مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ وہ دوسروں کے انہی حقوق کا بھی احترام کرے۔
اعلامیے میں مذہب کے نام پر ذاتی یا گروہی مفادات کے لیے انتہا پسندی، فرقہ واریت یا دوسروں کے خلاف نفرت انگیزی کو ریاست کے خلاف سازش قرار دیا گیا ہے۔ علماء نے دوٹوک مؤقف اپنایا کہ کسی فرد یا گروہ کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے شہری کے خلاف کفر یا واجب القتل کے فتوے دے یا اشتعال انگیزی کرے۔
ضابطۂ اخلاق میں پاکستان کے معاشرے میں پرامن بقائے باہمی، مکالمہ، اور اختلافِ رائے کے احترام کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے۔ علماء کا کہنا تھا کہ قومی وحدت، ریاستی استحکام اور معاشرتی ہم آہنگی اسی وقت ممکن ہے جب تمام طبقات باہمی احترام کے ساتھ زندگی گزاریں۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ اور کے ایف سی پر حملے، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کا ردعمل آگیا
اعلامیے میں ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے اور من گھڑت تحقیقات کی بنیاد پر چلائی جانے والی مہمات کو پہلے ہی ناکام قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ایسے منفی رویے ریاست کے خلاف انتشار کا سبب بنتے ہیں، جن سے مکمل اجتناب برتنا ہوگا۔
مزید برآں، علماء نے خبردار کیا کہ کوئی بھی فرد یا تنظیم کسی دوسرے فرد یا گروہ کو ان کے نظریات، عقائد یا مذہبی وابستگی کی بنیاد پر واجب القتل قرار دینے یا ان کے خلاف تشدد پر اکسانے کی مجاز نہیں۔ اس عمل کو اسلام اور قانون دونوں کے خلاف قرار دیا گیا۔
اجلاس کے اختتام پر یہ بھی واضح کیا گیا کہ کوئی فرد، گروہ، ادارہ یا جماعت کسی مسجد، مدرسے، تعلیمی ادارے یا منبر و محراب کو ریاستی اداروں یا دوسرے افراد کے خلاف نفرت، اشتعال انگیزی یا شدت پسندی کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ ایسے کسی بھی عمل کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔
علماء کرام نے اس ضابطۂ اخلاق کو ملک میں امن، رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلامی نظریاتی کونسل پیغامِ پاکستان مذہبی ہم آہنگی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل پیغام پاکستان مذہبی ہم ا ہنگی کے خلاف
پڑھیں:
پیغامِ ماضی پاکستان: ہم سب کا پاکستان
14 اگست وہ تاریخی دن ہے جب برصغیر کے مسلمانوں کے آزاد اور خودمختار ریاست کا خواب حقیقت میں بدلا۔ یومِ آزادی صرف جشن نہیں بلکہ قربانیوں کے تسلسل کی داستان ہے۔ یہ دن تجدیدِ عہد کا دن ہے اور ہمیں ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔
یومِ آزادی کے موقع پر ’’پیغامِ ماضی‘‘ دیتے ہوئے پنجاب سے تعلق رکھنے والے کستوری لال نے اپنے تاثرات بیان کیے۔ انہوں نے کہا ’’14 اگست 1947 کے بعد میرے دادا جی، جن کا نام ہری چند تھا، نے ہمیں اُس دور کی کئی یادیں اور حقائق بتائے۔‘‘
کستوری لال کے مطابق اُن کے دادا جی ہمیشہ کہا کرتے تھے ’’بیٹا، آپ کے لیے سب سے محفوظ اور بہتر ماحول یہی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا ’’ہماری پوری نسل نے یہ فیصلہ کیا کہ اسلامی معاشرے میں ہمارا جینا، اٹھنا بیٹھنا زیادہ محفوظ ہے، اسی لیے ہم نے یہی سرزمین اپنا وطن بنانے کا ارادہ کیا۔‘‘
پیغامِ ماضی میں چھپی یہ صدائیں آج بھی ہمیں قربانی، وحدت اور وفا کا سبق دیتی ہیں۔