سہیل آفریدی نے ہرزہ سرائی کرکے پاکستان کے ازلی دشمن کو خوش کرنے کی کوشش کی ، قوم سے معافی مانگیں
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
سٹی42: وزیرداخلہ محسن نقوی نے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے سکیورٹی فورسز کے بارے میں شرانگیز بیان کی مذمت کی اور خبردار کیا کہ پاکستان کے بہادر سپوتوں کے بارے میں بے بنیاد اور حقائق سے منافی بیان ناقابل برداشت ہے۔
محسن نقوی نے کہا، وطن کی حفاظت اور شہریوں کی زندگیوں میں امن کے لئے جانیں نچھاور کرنے والے جری افسروں اور جوانوں کے بارے ایسا بیان کوئی محب وطن نہیں دے سکتا۔
ڈالر کی قیمت میں کمی
محسن نقوی نے مزید کہا، خیبر ختونخوا کے وزیر اعلی خیبرپختونخوا نے ہرزہ سرائی کرکے پاکستان کے ازلی دشمن کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی لازوال قربانیوں کی پوری دنیا اور پوری قوم معترف ہے۔
انہوں نے کہا، "سکیورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں نے قیمتی جانیں قربان کرکے امن کی آبیاری کی ہے۔ "
وزیر داخلہ نے کہا، جہاں سکیورٹی فورسز کے جوان سب سے زیادہ شہید ہوئے، اس صوبے کے وزیر اعلی نے احسان فراموشی کی تمام حدیں پار کیں۔
روزِ اول سے پاکستان کو ڈیجیٹل نیشن بنانے کیلئے اقدامات کو اولین ترجیح دی؛ وزیراعظم
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ کوئی بھی محب وطن ایسا بیان دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
محسن نقوی نے زور دے کر کہا کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا کو سکیورٹی فورسز کے خلاف اشتعال انگیزی پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سکیورٹی فورسز کے کے بارے
پڑھیں:
دشمن بدلہ لینے کی کوشش کرے گا، جنگ ہوئی تو تباہ کن اور طویل ہوگی، سہیل امان
کراچی:ایئرچیف مارشل (ریٹائرڈ) سہیل امان نے کہا ہے کہ آج کی دنیا اتنی شفاف ہے کہ بھارت اپنی ناکامی چھپا نہیں سکتا، میری دلی دعا ہے کہ کبھی جنگ نہ ہو، اور سفارتکاری کامیاب ہو لیکن اگر جنگ ہوئی، تو وہ تباہ کن ہوگی، اور طویل چلے گی، ہوسکتا ہے کوئی مصالحت کار بھی نہ بیچ میں پڑے۔
نٹ شیل کے تحت کراچی میں دو روزہ فیوچ سمٹ کے آخری سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے سابق سربراہ نے کہا کہ دشمن نے بھی اپنے سبق سیکھ لیے ہوں گے، اور بدلہ لینے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا ہمیں تیار رہنا چاہیے، تیاری میں ہی امن اور خوشحالی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت ہے کہ فوج، بحریہ، اور فضائیہ ایک مشترکہ حکمتِ عملی اپنائیں کیونکہ اب سب کچھ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت پر منحصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایئر پاور سیاسی مقاصد کے لیے سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ ایک گھنٹہ، دس منٹ کی لڑائی میں سات جہاز گرائے جا سکتے ہیں یہ ایئرپاور کا اثر ہے اس مقام تک پہنچنے کے لیے پاک فضائیہ نے بیس سال لگائے، یہ اتنا آسان نہیں۔ پاک فضائیہ نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے 20 سال لگائے۔ سب سے اہم چیز ذمہ داری اور ملکیت کا احساس ہے۔
پاک فضائیہ نے سمجھ لیا تھا کہ ہر جنگ کا آغاز فضا سے ہوگا۔ ہر فورس کا اپنا کردار ہے، مگر فضائی طاقت سب سے اہم اور فوری اثر ڈالنے والی قوت ہے۔
فضائیہ نے ادارے بنائے، پچھلے فیصلوں کا احترام کیا، پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا۔ ہر نئی قیادت نے پرانی پالیسیوں کو آگے بڑھایا، اور یہی تسلسل ترقی کی بنیاد بنا۔ ہمیں ادارے بنانے ہوں گے انہیں کمزور یا تباہ نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا پانچ دہائیوں میں یک قطبی سے کثیر قطبی میں تبدیل ہوگئی مگر اس تبدیلی نے دنیا کو امن یا خوشحالی نہیں دی، بلکہ جنگ دی اور اب جب مختلف طاقتیں سامنے آ رہی ہیں پاکستان دنیا کے سب سے اہم جغرافیائی مقام پر واقع ہے۔
آپ وسطی ایشیائی ریاستوں کے قریب بیٹھے ہیں، مغرب میں ایران اور افغانستان جیسے دو ممالک ہیں، جو چین اور روس کے پچھواڑے واقع ہیں، اس لیے ان کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوگی۔ مشرق میں ہمارا ایک ایسا“دوست”ہے جو پچاس سال سے ہندوتوا کے نظریے کو عوام، طلبہ اور اداروں میں بٹھا رہا ہے۔
1971 کی جنگ کے بعد اندرا گاندھی نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم نے فتح حاصل کر لی۔ بلکہ کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں دفن کر دیا۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں سفارتکاری کی جو ضرورت ہے، وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔
سہیل امان نے کہا کہ ہمیں چین اور مغرب کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا، تاکہ ہم اپنے حقیقی دوستوں کی شناخت کر سکیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ فیصلے قومی مفاد میں کریں، کسی دوسرے کے ایجنڈے کے تحت نہیں۔
ہم نے دوسروں کی جنگیں لڑیں اور خطے کو غیر مستحکم کر دیا ہمارا ملک نقصان اٹھاتا رہا لیکن ایک اہم موقع پر جب یمن جانے کا فیصلہ کرنا تھا ہمارے دوست، سعودی عرب، یو اے ای سب متوقع تھے، لیکن پاکستان نے دانشمندانہ فیصلہ کیا کہ ہم کسی اور کی جنگ میں شامل نہیں ہوں گے۔
یہی فیصلہ صحیح تھا، اور یہی وہ حکمت ہے جس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔سہیل امان نے کہا کہ اندرونی بدامنی اور دہشت گردی کا سلسلہ بھارت افغانستان گٹھ جوڑ سے مزید بڑھا، تو ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایسی صورت میں وسائل ضائع ہوتے ہیں، معیشت متاثر ہوتی ہے، اور حکومت عوام کی خوشحالی یقینی نہیں بنا سکتی۔ اسی لیے سفارتکاری کو مؤثر ہونا چاہیے، تاکہ خطے میں درجہ حرارت کم کیا جا سکے۔ یہ آسان کام نہیں بلکہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
انہوں نے موجودہ صورتحال میں پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موجودہ دفاعی پالیسی اور ماحول کا ازسرِ نو جائزہ لیتے ہوئے درست جنگی حکمت عملی اختیار کرنے، اداروں کو مضبوط بنانے تربیت کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے چین، ترکی جیسے دوست ممالک کے ساتھ مشترکہ منصوبے بناکر خود انحصاری کی منزل تک پہنچنے کو ناگزیر قرار دیا۔
سہیل امان نے مزید کہا کہ ہم سب اس مٹی کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا وطن ترقی کرے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب کچھ ایک محفوظ چھتری کے نیچے ہی ممکن ہے۔ آپ کی سکیورٹی سب سے اہم ہے۔ لہٰذا سب سے بہتر یہ ہے کہ اگر جنگ آن پڑے تو اُس کے لیے تیار رہیں۔ اور یہ تیاری ہی ملک میں امن اور خوشحالی لاتی ہے۔